پہلے کھوکھا، اب پورا ٹرک

تحریر : انور ساجدی
پاکستانی سماج کی اقدار اس حد تک پامال ہوچکی ہیں کہ پہلے ایک کروڑ روپے رشوت دینے کیلئے ایک ”کھوکھے“ کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی جبکہ فی زمانہ ایک ”ٹرک“ کی اصطلاح لاگو ہوگئی ہے یعنی اگر کسی کو ایک ارب روپے رشوت دینی ہو تو اس کے لئے ٹرک کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا انکشاف حال ہی میں دو سیاستدان اور وکیل بھائیوں کی آڈیو لیک ہونے کے بعد ہوا ہے، اگرچہ ماضی میں سینیٹ کے انتخابات کے موقع پر کروڑوں کا لین دین ہوتا تھا لیکن اب بڑے بڑے لوگوں کیلئے اربوں روپے کا استعمال شروع ہوگیا ہے۔ سینیٹ کے گزشتہ انتخابات میں اسلام آباد کے ایک شخص نے ایک ٹرک بنی گالا پہنچاکر اپنی کامیابی کو یقینی بنایا تھا۔
سیاست، کاروبار اور اونچی سطح کی تبدیلیوں کیلئے کک بیک کمیشن اور بھاری رشوت کا چلن اتنا عام ہوگیا ہے کہ آئین، قانون، اصول اور ضابطے بے معنی ہوکر رہ گئے ہیں۔ حتیٰ کہ انصاف بھی ٹرک دے کر خریدا جاسکتا ہے۔ اگر کئی ٹرک لٹادیئے جائیں تو حکومتیں بھی تبدیل اور خریدی جاسکتی ہیں، متروکہ صوبہ بلوچستان میں اس طرح کے ایک دو تجربات ہوچکے ہیں اور سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے لیڈر پرویز الٰہی بھی ٹرکوں کی قوت سے وزیراعلیٰ بنے تھے۔
پاکستان چونکہ اس وقت پوسٹ انارکی کی صورتحال سے گزر رہا ہے اس لئے مٹھی گرم کئے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا، اس صورتحال سے سرکاری اہل کار سب سے زیادہ فیضیاب ہورہے ہیں جس کی وجہ سے بیڈ گورننس انتہا کو پہنچ گئی ہے۔ ماضی میں شہباز شریف جب پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو اچھے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر مشہور تھے، وہ اتنی تیزی کے ساتھ کام کرتے تھے کہ شہباز اسپیڈ ہر جگہ مشہور ہوگیا تھا لیکن 10 ماہ قبل ایک جوا کھیل کر وہ جن حالات میں وزیراعظم بن بیٹھے اس نے ان کی شہرت کو زمین بوس کردیا کیونکہ بیورو کریسی عمران خان کے دور سے بے قابو تھی، نئے حالات سے فائدہ اٹھاکر وہ بے لگام ہوگئی ہے، جس طرح ملکی ادارے تقسیم درتقسیم کا شکار ہیں اسی طرح بیورو کریسی بھی عمران خان کی حمایت اور مخالفت میں شدید اختلافات کا شکار ہے، حتیٰ کہ ریاست جوکہ عملی طور پر دیوالیہ ہوگئی ہے، بیوروکریسی کو اس کی کوئی پرواہ نہیں اور ایف بی آر کے حکام وزیرخزانہ کی کوئی بات نہیں مانتے اور اپنی من مانی کررہے ہیں۔ عمران خان کی وجہ سے پی ڈی ایم کی حکومت شدید ناکامی سے دوچار ہے، یہ ناکامی اس حد تک شدید ہے کہ بعض مبصرین کے مطابق پاکستان کی تاریخ میں اس سے کمزور اور بے بس حکومت اس سے پہلے کبھی نہیں آئی، اس کمزوری کی وجہ عمران خان کا غضب کا انتقام ہے۔ وہ تواتر کے ساتھ حکومت پر حملہ آور ہے، خان صاحب کے حملوں کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام شدید تر ہے اور حکومت زخمی پرندے کی طرح پھڑپھڑا رہی ہے۔ عمران خان کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ طاقتور عناصر اس کے ساتھ ہیں، وہ ہر روز کسی نہ کسی ادارے پر حملہ آور ہوتے ہیں لیکن کئی درجن مقدمات کے باوجود ان کی ضمانت فوری طور پر منظور ہوجاتی ہے، وہ جو چاہتے ہیں وہ ہوجاتا ہے، انہوں نے دو اسمبلیاں توڑ کر فوری انتخابات کا مطالبہ کیا تو عدلیہ نے از خود نوٹس لے کر اس کی شنوائی کردی، ان کا ایک پرانا مطالبہ ہے کہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جائے، عمران خان سمجھتے ہیں کہ اوورسیز پاکستانیوں کے ایک کروڑ ووٹ ان کے بیلٹ باکسوں میں آجائیں تو کسی کا باپ تحریک انصاف کو نہیں ہراسکتا، یہ مقدمہ بھی زیر سماعت ہے اور تحریک انصاف کو پکا یقین ہے کہ عدالت اس کے حق میں فیصلہ کرے گی۔ یہ تو باجوہ سر نے اچانک نقب لگاکر اپنے اتحادی کو نکال باہر کیا ورنہ عمران خان 25 سالہ منصوبہ بندی کرچکے تھے یعنی وہ ایک سو سال کی عمر تک اقتدار میں رہنا چاہتے تھے۔ باجوہ سر کی کارروائی سے عمران خان کو اتنا دکھ ہے کہ انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کا کورٹ مارشل کیا جائے، ظاہر ہے کہ باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد کمزور ہیں اس لئے ان کے خلاف کچھ بھی کہا جاسکتا ہے، جو طاقتور ہیں ان سے عمران خان درخواست کررہے ہیں کہ انہیں ملاقات کا شرف بخشا جائے، انہوں نے اپنی حالیہ درخواست میں یہ بھی کہا ہے کہ انہیں دشمن نہ سمجھا جائے یعنی ان کی خواہش ہے کہ انہیں دوبارہ گود لیا جائے۔ معروف شخصیت اور پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اپنے تازہ مضمون میں لکھا ہے کہ جس کو اقتدار کا نشہ لگ جائے جوکہ سب سے برا نشہ ہے تو نشہ پورا ہونے تک وہ پُرسکون نہیں رہ سکتا حتیٰ کہ وہ مرنے مارنے پر اتر آتا ہے، ان کا واضح اشارہ خان صاحب کی طرف ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب تک وہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آتے چین سے نہیں بیٹھیں گے۔ بے شک ملک دیوالیہ ہوجائے اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ریاست کا بھٹہ بیٹھ جائے۔ عجیب صورتحال ہے حکومت عمران خان کو کئی مقدمات میں گرفتار کرنا چاہتی ہے لیکن اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور وہ بے بس ہے کیونکہ عمران خان جہاں جاتے ہیں پیشی کیلئے جج صاحبان ان کا انتظار کرتے ہیں اور جوڈیشل کمپلیکس حملے کے باوجود وہ ہنسی خوشی گھر جاتے ہیں ورنہ (ن) لیگ آج تک سپریم کورٹ پر حملے کا داغ نہیں دھوسکی، کئی بار وہ ویڈیو لنک کے ذریعے بھی پیش ہوتے رہے ہیں، یہ سہولت کسی اور ملزم کو حاصل نہیں۔
بہرحال اقتدار کے گروہوں کے درمیان لڑائی جاری ہے، اگر دو صوبوں میں انتخابات ہوگئے تو تحریک انصاف کو کامیابی سے کوئی نہیں روک سکتا، اگر پنجاب اور پختونخوا میں عمران خان کی حکومت قائم ہوئی تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مرکزی انتخابات میں مخالفین کا کیا حال ہوگا۔
افراط زر، بے روزگاری اور ڈالر کی بڑھتی قیمتی نے حکومت کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ اسحٰق ڈار کے تمام دعوے باطل ثابت ہورہے ہیں۔ آئی ایم ایف کی تمام من مانی شرائط پوری کی جارہی ہیں لیکن اس کے باوجود قرضہ کے اجراءمیں تاخیر ہے، غالباً اس کی وجہ عالمی سیاسی مضمرات ہیں، یہی وجہ ہے کہ چین نے عالمی برادری سے پاکستان کی مدد کی اپیل کی ہے اور زور دیا ہے کہ پاکستان کو تنہا نہ چھوڑا جائے، اس کے ساتھ ہی چین نے پاکستان کو دوبارہ قرضہ جاری کردیا ہے، چین کی اتنی زیادہ دلچسپی خاصی از اسرار نہیں کیونکہ کینا میں لوگوں نے چین کے خلاف مظاہرے شروع کردیئے ہیں اور ملک کی بدحالی کا ذمہ دار چینی قرضوں کو قرار دیا ہے۔ یہی حال گمبیا اور دیگر افریقی ممالک کا ہے، جہاں چین نے قرضوں کے بدلے اہم اثاثے حاصل کرلئے ہیں۔ نہ جانے پاکستان پر مہربانیوں کے بدلے اس کی نظر کہاں کہاں ہے، وہ ہمالیہ کے اوپر جاکر خنجراب سے گوادر تک کسی بھی اہم جگہ پر نظر ڈال سکتا ہے۔