برمش کی پکار

تحریر: صابر بلوچ

ماں کی جدائی کادرد انھیں ہوتا ہے جن کی ماں اس دنیا سے چلے گئے ہوں۔ جب ماں ایسے وقت میں اپنی بچی کے نظروں کے سامنے کسی درندے کی گولیوں کا نشانہ بنے تو اس معصوم پہ کیا گزرے گی یہ لمحہ وہ ہی جانتی ہے اس درد کو کس طرح سہ سکی گی کس طرح دل کی دھڑکن کو روک سکے گی خدا ہی جانے ہم بس اس پہ جو گزری ہے اس کا افسوس ہی کرسکتے ہیں۔
گزشتہ چند دن پہلے بلوچستان کے علاقے کیچ تربت میں ڈنک کے مقام پر کسی گھر پر ایک گروہ نے چوری کے غرض سے حملہ کیا اور گھر میں موجود ایک بلوچ خاتون کو مزاحمت کی وجہ سے گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کردیا اور اس کی ایک معصوم بچی برمش بلوچ کو گوکی مار کر زخمی کر دیا۔
اس واقعہ میں ملوث ایک شخص کو لوگوں نے اسی دوران پکڑ کر تشدد کر کے پولیس کے حوالے کیا اور باقی ساتھی بھاگنے میں کامیاب ہو گئے۔
اس دردناک اور کربناک واقعہ نے انسانوں کے جذبات کو اجاگر کیا ہے اگر ہم ایک نظر دوڑائے تو پتا چلتا ہے کہ لوگوں نے کس طرح اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔
جب مشرقی وسطیٰ کے ممالک حالت جنگ میں تھے تو وہاں کے لوگ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے اور یورپی ممالک میں جانے لگے اور وہاں پناہ گزینوں کی زندگی گزارنے لگ گئے
اس دوران بہت سے لوگ کشیوں پر سفر کرتے وقت راستے میں ڈوبنے کے سبب ہلاک ہوئے، ان میں ایک بچہ بھی شامل تھا جس کی لاش ساحل سمندر کے کنارے پر دستیاب ہوئی جس کے بعد دنیا بھر میں لاکھوں افراد کی انسانیت جاگ اٹھی اور اسی واقعے کے بعد بہت سے ممالک نے اپنے ملک کے اندر ان لوگوں کو پناہ دینا شروع کر دیا جو جنگ کے شکار تھے۔
ہر واقعے جو انسان کے اوپر گزرتا ہے اسے کچھ نہ کچھ اثر کر دیتا ہے اور وہ ایک نہ ایک دن چیخ اٹھتا ہے۔کچھ وقت پہلے ایک ایسے ہی واقعے نے پاکستان کی عوام کو آواز اٹھانے پر مجبور کی تھی اور سوشل میڈیا سے شروع ہوکر پرنٹ میڈیا تک ہر جگہ ہلچل مچ گئی تھی۔یہ واقعہ پنجاب کے شہر قصور میں ہوا تھا جو ایک معصوم بچی زینب جس کو کسی درندے نے اپنی جنسی حواس کا شکار بنا کر قتل کردیا تھا اور اس واقعے کے خلاف لوگوں نے اظہار یکجہتی کا مظاہرہ کرنے کیلئے احتجاج اور ریلیاں نکالی، سوشل میڈیا مہم چلائے اور معصوم زینب کے قاتلوں کو قانون کے کٹہرےمیں لا کھڑا کر دیا۔
آج میں جس طرح دیکھ رہا ہوں کہ یہی پاکستانی میڈیا جو ایک ڈرامہ میں دانش کی موت کو بریکنگ نیوز ہے لیکن اس پاکستانی میڈیا کو بلوچستان کی ننھی پری برمش کی چہک و پکار سنائی نہیں دیتی افسوس سے کہنا پڑرہا ہے کہ پیاری برمش تم بلوچ قوم سے تعلق رکھتی ہو تمہاری اور ہم سب کی یہاں کوئی حیثیت نہیں کہ ہماری خبریں پاکستانی میڈیا کی زینت بنیں۔ یہاں پر ڈرامائی خبریں میڈیا کی بریکنگ نیوز بن سکتے ہیں،لاہور اسلام آباد کراچی پشاور میں گلی کا کتا کرنٹ لگنے سے مرجائیں نیوز بن جاتا ہے لیکن تم تو ایک امیر بلوچستان کی ایک معصوم بچی ہو تم جب اپنی ماں کو پکارتی ہو تو یہاں کے عدالت کے دروازے بند ہو جاتے ہیں قانون کی آنکھوں میں سیاہ پھٹی بن جاتی ہے، یہاں نہ اسمبلیوں میں تمہارے لیے آواز اٹھایا جائے گا نہ کسی سیاست دان کے منہ پر آپ پر ہونے والے ظلم کی داستان کا ذکر تک ہوگا۔ اگر بلوچستان کی کوئی بھی پارلیمانی پارٹی اس واقعے کے خلاف آواز اٹھائیں تو وہ بھی اپنی مفادات اور پارٹی کو عوام کی پزیرائی حاصل کرنے کے لئے کرے گا نہ کہ اس افسوس ناک واقعہ کے لئے خون کے آنسو روئے گا۔ آج وہ بلوچ جو پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں خود کو بلوچ لیڈر سمجھتے ہیں مینگل، ثنا، مالک،بزنجو وغیرہ کہاں ہیں اور ان میں اتنی ہمت نہیں کہ وہ پاکستان کی پارلمنٹ میں اس واقعے خلاف قرار داد پیش کرسکیں۔

اگر دیکھا جائے تو ایسے درندوں کو پورے بلوچستان میں اسٹیبلشمنٹ کی سرفہرستی حاصل ہے جس کی وجہ وہ کھلے عام لوگوں پر جبر کرتے ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ کوئی ان کے خلاف آواز بلند نہیں کرتا نہ ہی ان کے اوپر کوئی کاروائی کی جاتی ہے۔ انہیں جن کا سپورٹ حاصل ہے پارلیمانی سیاستدان انکا بال بھی بیکانہیں کر سکتے۔
برمش ہمیں معاف کر دے آپ کی یہ عمر اپنی سے جدا ہونے کی نہیں ہے مگر ظالموں اور درندروں نے آپ سے وہ سایہ چین لیا جس کی قیمت رب نے جنت سے اعلی کر دی ہے۔ خدا جانیں وہ وقت کتنا سخت ہوگا جب آپ کے سامنے درندے آپ کی ماں کو گولیوں سے چلنی کر دیں۔ کتنا بھیانک وقت ہوگا وہ جب معصوم برمش اس منظر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوگا۔ مگر ظالموں کا کوئی مذہب دین اور حقیقت سے تعلق نہیں ہوتا۔
معصوم برمش ہمیں معاف کرنا کہ ہم آج خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں اور تم پر گزری ظلم کےخلاف آواز اٹھانے سے بھی نالاں ہیں لیکن کیا کریں برمش تیری تعلق ایک ایسی زمین سے ہے جو خود ظلم کا شکار ہ۔
کوئی بولے تو منہ بند کیا جاتا ہے
کوئی دیکھے تو اسے گیری نیند سلا دیا جاتا ہے
کوئی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھانا چاہیں تو انھیں سلاسل پابند کیا جاتا ہے
کوئی انصاف کی مانگ کریں تو انھیں لاپتہ کیاجاتا ہے۔
کاش برمش پری تمہارا تعلق کسی اور سرزمین سے ہوتا تو آج پوری دنیا آپ کی اس چیخ و پکار کو سن لیتی اور آپ کو انصاف دلانے کے لئے سڑکوں پہ سراپا احتجاج ہوتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں