احتجاجی سیاست، تربیتی سیاست اور مظلوم بلوچ!

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

اس موضوع کو زیر بحث لانے سے پہلے ہم لفظ سیاست کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ سیاست کیا ہے، پھر سیاست کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہونے میں آسانی پیدا ہوسکے کہ اس وقت گراؤنڈ میں کونسا سیاست چل رہا ہے اور اس مشکل حالات میں کونسا سیاست قوم کیلئے مفید اور کارگر ثابت ہوکر انہیں اس تاریکی اور دلدل سے نکالنے کیلئے صحیح سمت تعین کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

آئیے سب پہلے لفظ سیاست کو بیان کرتے ہیں، لفظ سیاست کو مختلف دانشوروں نے مختلف انداز میں بْیان کی ہے،

بسمارک کے مطابق سیاست ایک ایسا فن ہے جس میں سماج کو یکجا کرنے کیلئے اقدام اٹھائے جاتے ہیں۔
جس طرح سیاست کی تعریف میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ سماج کو یکجا کرنے کا فن سیاست کہلاتی ہے، تو اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سماج کو یکجا کرنے کیلئے ایک عظیم مقصد اور نظریے کے ساتھ ساتھ ایک منظم سیاسی پلیٹ فارم کا ہونا بھی لازمی ہے جسکے تحت سماج کو یکجا کرکے انہیں اپنے حقوق کے حصول اور انہیں درپیش مسائل کا سیاسی اور سائنسی حل ڈھونڈنا چاہئے۔
سیاست کو صحیح سمت دینے اور سماج کو یکجا کرنے کیلئے حالات اور حقائق سے آشنا باصلاحیت قیادت کا ہونا ضروری ہے، جسکے بغیر سیاسی حدف حاصل کرنا ناممکن ہے، چاہے آپ کے پاس جتنی معاشی اور افرادی قوت کیوں نہ ہو۔

کہنے کا مقصد تجربہ کار لیڈرشپ ماضی کی غلطیوں، موجودہ حقائق اور مسقبل میں آنے والے مصائب اور مشکلات کے امکانات کا اندازہ لگا کر ان سے نبرد آزما ہونے کیلئے اہم حکمت عملی اور پالیسیاں تشکیل دیتے ہیں تاکہ کٹھن اور مشکل حالات میں سیاسی تحریک جمود کا شکار نہ بن سکے۔
سْیاسی جمود طاری تب ہوگی جب سیاسی کارکنوں میں مقصد سے بیگانگی، نظریاتی ناپختگی اور تربیت کی کمی پائی جائے تو یقیناََ ان کے اندر آنے والی طوفانوں اور مشکلات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔
ایک طویل المدت سیاست، عظیم مقصد کے حصول اور آنے والی پیچیدگیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کیلئے سْیاسی تربیت ناگزیر ہے، سیاسی قیادت کو کارکنان کی تربیت کیلئے ایسی لٹریچر مہیا کرنی ہے کہ وہ مشکل اور کٹھن حالات سے پہلے ان مشکلات کو جھیلنے اور انہیں خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنے کیلئے خود کو تیار کرسکیں۔

اگر ہم احتجاجی سیاست کی بات کریں تو احتجاجی سیاست انکو کہا جاتا ہے جب کسی عارضی مسئلے کے حل کیلئے لوگوں کو اکٹھا کر نعرے بازی، روڈ بلاک اور احتجاج کا راستہ اپنایا جاتا ہے لیکن احتجاج میں شامل بیشتر لوگ مختصر مدت گزرنے کے بعد خاموش ہوجاتے ہیں اور ان میں مستقل مزاجی، حالات اور مشکلات کے جھیلنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی، بارکھان کا حالیہ واقعہ پر ہونے والا احتجاجی دھرنا ان کی تازہ مثال ہے، مسئلے کے حل یا منطقی انجام تک پہنچنے سے پہلے احتجاج ختم ہوگیا۔
احتجاجی سیاست کے مقابلے میں تربیتی سیاست کے دیرپا اور دور رس فوائد ہیں، سیاسی طور پر تربیت یافتہ کارکن مستقل مزاج، معاملہ فہم، دور اندیش، پالیسی ساز، سیاسی اور نظریاتی طور پر مضبوط اور پختہ ہوتے ہیں، وہ مسائل کی پیچیدگیاں سمجھتے ہیں اور ان پیچیدگیوں کے اندر مسائل کے حل ڈھونڈنا جانتے ہیں۔
سْیاسی حوالے سے تربیت یافتہ کارکن میں کمٹنٹ پائی جاتی ہے وہ مستقل مزاجی کے ساتھ ہر مشکل اور کٹھن حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار رہتا ہے اور مسئلے کی منطقی انجام کے پہنچنے تک جدوجہد کرتا ہے، نہ وہ آسانی سے کسی کے بہکاوے میں آسکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنے مقصد پر سمجھوتہ کرنے کیلئے تیار ہوتا ہے، چاہے حالات کتنی ہی مشکل اور کٹھن ہوں، لیکن وہ ان مشکل حالات میں بہترین حکمت عملی کے ساتھ جدوجہد کرکے اپنے سْیاسی عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھتا ہے، ان کو اپنی جان سے بڑھ کر مقصد عزیز ہوتی ہے، وہ راہ فراری اختیار کرنے کیلئے من گھڑت اور بے بنیاد دلائل پیش نہیں کرتا کیونکہ انکی تربیت انکو کبھی یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ حالات کے سامنے سرخم تسلیم کرے۔
آج اگر ہم موجودہ بلوچ سیاست کی بات کریں تو ادارہ جاتی بنیاد پر سْیاسی تربیت بالکل نہ ہونے کے برابر ہے، پارلیمانی پارٹیاں تو بلوچ قوم کے درد کی دوا نہیں بلکہ یہ مظلوم قوم کے زخم پر نمک چڑھانے کیلئے ایک اہم آلہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔
تربیتی سیاست عظیم کرداروں کے ساتھ ہی دفن ہوئے وہ سورج کب سے غروب ہوا جنکی روشنی نے اس بیگانہ اور لاشعور قوم کو نیند سے بیدار کرکے انہیں قومی شعور سے آراستہ کیا، جنکی روشنی نے مِہرستان کے گلی، کوچے اور وادیوں میں رہنے والے ہر ایک نوجوان کے اندر شعور برپا کرکے انہیں پختہ اور توانا جزبے عطا کی، وہ ادارے جنکی موجودگی پر چوکیدار اور انکے آقا کی نیند اڑ جاتی تھی، انہیں آرام و آسائش، تعریف پسند، خود غرض لوگوں کی بھینٹ چڑھ گئی جو کہ ایک بڑے قومی سانحے سے کم نہیں۔ مقصد سے سمجھوتہ کرکے آسانی، آرام وآسائش کیلئے راستہ ڈھونڈ کر ادارے کو تباہ و برباد کرنا قومی جرم ہے۔
سیاسی تربیت اور سیاسی اداروں کی اہمیت کو مکمل طور پر ختم کیا گیا ہے، بلکہ انکی جگہ شخصیات کو فروغ دیا جا رہا ہے، قومی ادارے سے زیادہ شخصیات کو اہمیت دی جا رہی ہے، قومی امداد اور اخراج چند شخصیات کے ہاتھوں ہوٹلز اور کینٹین میں گپ شپ اور چائے کیلئے خوردبرد کی جارہی ہیں اس سے بڑھ کر قومی المیہ اور تباہی کیا ہوسکتی ہے۔
آج کے احتجاجی سیاست نے چند شخصیات کو ضرور فروغ دی ہے لیکن تربیتی اداروں کو مستحکم نہیں بنائی ہے۔ ایسا کوئی تربیت یافتہ کارکن تیار نہیں کیا گیا ہے جو مستقل مزاج، معاملہ فہم، پختہ اور کامل نظریاتی پیروکار ہو اور مستقبل میں سیاسی پیچیدگیوں کا مقابلہ کرسکے۔
تعریف پسند، خود غرض کارکن مقصد اور فائدہ مَنْد نتائج کے حصول کیلئے جدوجہد نہیں کرتے بلکہ انکی سوچ اپنی شخصیت اور فوٹو سیشن کے گرد گھومتی ہے، ایسے لوگ نظریاتی طور پر ناپختہ ہوتے ہیں، ان میں حالات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی بلکہ من گھڑت دلائل اور جدید پالیسی کے نام پر دیگر کارکنوں کو بے وقوف بنا کر آہستہ آہستہ انہیں اپنی عظیم مقصد سے خائف کرتے ہیں۔
ایسے من گھڑت سیاسی حربوں کے منطقی نتائج تاریکی ہوتے ہیں، ان کا آخری نتیجہ نوجوانوں میں مایوسی کی شکل میں ابھر کے سامنے آتا ہے،
سیاسی ادارے قومی اثاثے ہیں، ادارے دیرپا اور دور رس نتائج دیتے ہیں، جبکہ شخصیات دیرپا نہیں ہوسکتے، وہ آسانی سے اپنا موقف تبدیل کرسکتے ہیں اور اپنے ساتھ دیگر غیر تربیت یافتہ سینکڈوں مریدوں کو بھی سیلاب کے ریلے کی طرح بہا کر غلط سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔
اگر خدانخواستہ ان شخصیات کا ریموٹ کسی اور کے ہاتھ میں چلی جائے تو وہ جب چاہیں اور جدھر چاہیں انہیں اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرسکتے ہیں جو قومی مفادات کے بالکل برعکس اور نقصاندہ ہوتے ہیں۔
ایسے کرداروں کو اکثر نظریاتی کارکنوں کے خلاف رسہ کشی، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے اور یہ اپنے عزائم پر کافی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں، کیونکہ ایک جانب ان کرداروں کا اندھا اعتماد قوم کے سامنے بحال کروایا گیا ہے انکی ہر بات پر لبیک کی جاتی ہے، چیک اینڈ بیلنس نہیں پائی جاتی، کیونکہ چیک اینڈ بیلنس سیاسی اداروں کے اندر رہ کر کی جاسکتی ہے، اداروں کی اہمیت کو مکمل طور پر ختم کیا گیا ہے۔ احتجاجی سیاست کیلئے راستے کو بالکل ہموار بناکر انہیں دانستہ طور پر فروغ دی جا رہی ہے اور تربیتی سیاست کی اہمیت اور افادیت سے نوجوانوں کو بیگانہ کردیا گیا ہے۔
ایسے حالات میں صرف سیاسی مزدور، اور سیاسی روبوٹ پیدا ہوتے ہیں، انکا اپنا کوئی نظریہ اور مقصد نہیں ہوتا بلکہ وہ چند مُرشدوں کے مرید بن کر ان کے ہر بات کو لبیک کرنے اور انکے ہاتھوں باآسانی استعمال ہونے کیلئے ہمہ وقت دستیاب ہوتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں