پاکستان اسٹیل مل بیچنے کا پہلا مرحلہ

اداریہ
پاکستان اسٹیل مل پی پی پی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو شہید نے روس کے تعاون سے کراچی میں قائم کی تھی۔جو ملکی ترقی کے لئے شاندارخدمات انجام دینے کے بعدلالچی اور خودغرض حکمرانوں کے ہاتھوں قومی خزانے پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔جون2015سے پیداواری عمل مکمل طور پر بند ہے۔5سال سے حکومتی قرضوں کی مدد سے ملازمین کی تنخواہ ادا کی جارہی ہے ادارے پر واجبات اور خسارے کی مد میں 500ارب روپے سے زائد کا بوجھ ہے۔واضح رہے کہ اسٹیل مل 2008تک منافع میں چل رہی تھی۔ اب اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ اسٹیل مل کے تمام ملازمین کو فارغ کر دیا جائے، اس مقصد کے لئے 18ارب روپے کی منظوری بھی دے دی گئی ہے، اس طرح ایک ملازم کو 23لاکھ روپے ملیں گے۔جبکہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن کی مد میں 23ارب روپے واجب الادا ہیں۔تاہم سپریم کورٹ سے اس اقدام کی منظوری بھی لی جائے گی تاکہ جس حد تک ممکن ہو پی ٹی آئی کی حکومت اپنا دامن بچا سکے۔مستقبل کا مؤرخ ہی سچائی سامنے لائے گا اس لئے کہ ہمارے ملک میں سچ بولنے کا چلن نہیں رہا یہاں ہردور میں چاپلوسی اور خوشامد کو فروغ حاصل رہاہے۔ سوال یہ ہے کہ حکومت نے روس کیجانب سے اسٹیل مل کی بحالی اور اس کی پیداوار دگنی کرنے کی پیشکش کیوں قبول نہیں کی؟روس نے یہ مل لگائی تھی وہ اسے جدید تقاضوں کے مطابق تعمیر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔معاملہ جب سپریم کورٹ کے روبرو پیش ہو تو اسٹیل مل کی یونینز کو چاہیئے کہ دیگر دلائل کے ساتھ روس کی جانب ایک سے زائد بار کی جانے بحالی کی پیشکش کو بھی سماعت کے دوران ضرور سامنے لائیں۔ پاکستان اسٹیل مل کی تباہی و بربادی ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے۔کوئی کہے یا نہ کہے کوئی مانے یا نہ مانے سچ یہی ہے کہ اسٹیل کا کاروبار ی خاندان اس اثاثوں پر طویل عرصے سے نظریں گاڑھے بیٹھا ہے اس کے فرنٹ میں متحرک ہیں کل سامنے آجائیں گے لیکن اس وقت تک کھیل ہاتھ سے نکل چکا ہوگا۔
ملک کے بہی خواہوں کے پاس عدالتی مرحلے پر فریق بننے کا ایک موقع ہے جو لوگ ملکی اثاثوں کی لوٹ مار روکنا چاہتے ہیں انہیں ایسے تمام شواہد عدالت کے روبرو لانے ہوں گے جن سے ثابت ہو کہ منافع میں چلتی ہوئی اسٹیل مل پہلے خسارے میں پہنچی اور پھر پیداوار مکمل طور پر بند ہوگئی اس کے ذمہ داران کون تھے؟یہ دو چار ملازمین پر مشتمل اداراہ نہیں کہ پیداواری عمل بند کرنے کے باوجود اسے ہمیشہ چلانا ممکن ہو۔9ہزار سے زائد ملازمین اور دیگر مراعات کا بوجھ اٹھانا آسان کام نہیں اور نہ ہی اسے دانشمندانہ اقدام کہا جا سکتا ہے۔500ارب روپے کا بوجھ(جس کے بارے میں کوئی یہ بھی نہیں جانتا کب ختم ہوگا) ملکی معیشت کا کچومر نکال سکتا ہے۔ ایسی ہی غلطیوں کا نتیجہ عوام کے سامنے ہے۔آئی ایم ایف ہمیں بجٹ بنانے کی ہدایات جاری کر رہا ہے اور ہم خاموشی سے سر جھکائے ماننے پر مجبور ہیں۔یہ منظر تکلیف دہ ہونے کے ساتھ توہین آمیز بھی ہے۔یہ غلامی کی جدید شکل ہے۔پہلے ایک سا ہوکار اپنے کارندوں کے ساتھ آ کر مقروض شخص کی جائیداد پر قبضہ کرتا تھا آج یہی کام آئی ایم ایف نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔سچ یہ ہے کہ ہمارے تمام اثاثے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس رہن رکھے ہوئے ہیں۔جس دن اس رازپرسے پردہ اٹھے گا تب کسی کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں ہوگا۔ ایک دن تمام رازوں کو بے نقاب ہونا ہے۔لوٹ مار کے تمام نشانات چھپنانے کی کوششیں بالآخر دم توڑ دیں گی۔اسٹیل مل کا مقدمہ عدالت لے جانے کا حکومتی عندیہ اس ضمن میں مددگار ہو سکتا ہے بشرطیکہ کے قوم پرست اور عوام دوست اس موقع سے فائدہ اٹھائیں۔یونین اور انتظامیہ خود بھی بہت سے رازوں سے پہلے ہی باخبر ہے ان کے پاس ایسے حقائق موجود ہیں جو اس ادارے کو اس مقام تک پہنچانے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کے لئے مدگار ہو سکتے ہیں۔انہیں بے نقاب کرنے کا بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ پی آئی اے کی تباہی کے ذمہ داروں تک پہنچنے کا دروازہ کھل جائے گا۔
جس ملک میں اسٹیل مل تعمیر کرنے والوں کو پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے وہاں اسٹیل مل کو اونے پونے داموں بیچنے والے حکمران بن جاتے ہیں۔یہ المیہ دنیا کے ایسے تمام ملکوں میں دیکھا گیا ہے جہاں ترقی اور خوشحالی کے وسائل قدرت نے فراہم کر رکھے تھے لیکن بعض لالچی اور ظاہری شان و شوکت کے دلدادہ افراد دشمن کی سازشوں کا شکار ہوئے اورپھر ملک کے منافع بخش ادارے ایک مالی بوجھ بن کر رہ گئے۔ پاکستانی عوام کی دلی خواہش ہے کہ ایسے تمام عوام دشمن افراد کو قرار واقعی سزا دی جائے جو پاکستان اسٹیل مل اور پی آئی اے کی تباہی کے ذمہ دار ہیں دوسرے لفظوں میں یہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔معمولی سوجھ بوجھ والا عام آدمی بھی جانتا کہ جس ادارے میں درکار ملازمین سے کئی گنا زیادہ افراد بھرتی کر لئے جائیں اس کا انجام تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔پی آئی اے کی تباہی کا دیگر عوامل کے ساتھ ایک بڑا سبب ملازمین کی غیر معمولی کثرت ہے۔ اصلاح احوال کرتے وقت کوشش کی جائے کہ ملازمین کے مفادات کا خیال رکھا جائے۔ اور ملازمین بھی سوچیں وہ اتنے اہم ادارے کو تباہی سے کیوں نہ بچا سکے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں