بلوچستان میں قوم پرست سیاست انتشار کا شکار !
تحریر : فقیر بلوچ
آج اگر بلوچ من آل حیثیت قوم کی موجودہ سیاسی ، جغرافیائی ، معاشی ، معاشرتی اور سماجی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو بلوچ قومی شناخت اور وجود کو تاریخ کے بد ترین خطرات لاحق دکھائی دیتے ہیں۔ برطانوی سرکار نے 19 ویں صدی میں بلوچ سر زمین کو ایران ، افغانستان، قلات اور برٹش بلوچستان میں تقسیم کرکے بلوچ ریاست، سماج اور زبان کو کئی ٹکڑوں میں بانٹ دیا۔ آج بلوچی زبان کو بقاءکا مسلئہ درپیش ہے بلوچ ایران میں فارسی، افغانستان اور خیبر پختونخوا میں پشتو، پنجاب میں پنجابی اور سرائیکی، سندھ میں سندھی اور اردو بولنے پر مجبور ہیں اور تو اور اب تو جیکب آباد سے مچھ بولان تک سندھی بولی جاتی ہے۔ گولڈ اسمتھ اور ڈیورنڈ لائن کے ذریعے یہ تقسیم آج بھی موجود ہے۔ اس نو آبادیاتی غیر منصفانہ تقسیم نے بلوچ ریاست کا شیرازہ بکھیر دیا جس کا خمیازہ معدنی دولت اور قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کے باسی آج بھی بھگت رہے ہیں۔ گزشتہ ایک سو تیس سال پرانی زمین کی تقسیم کے ساتھ ساتھ مختلف ادوار میں بلوچ قوم کی سیاست بے جا تقسیم اور سیاسی انتشار و افتراق کا شکار بنتی چلی آ رہی ہے۔
موجودہ دور میں جب کہ خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال انتہائی پیچیدہ ہوتا جارہا ہے اور واضح طور پر اتحاد و اتفاق کا پیغام دے رہا ہے۔ جسے ہر ذی شعور انسان محسوس کررہا ہے۔ آئیے غیر متحد اور منقسم قوم پرست سیاست کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے اس کے مثبت اور منفی اثرات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بلوچستان میں قومی شعوری اور سیاسی جدوجھد کا آغاز غالباً میر عبدالعزیز کرد نے 1920ءمیں اپنے چند ساتھیوں سے مل کر انجمن اتحاد بلوچاں کے نام سے شروع کیا تھا اور اس میں میر یوسف عزیز مگسی کی شمولیت اور رہنمائی سے بہت سی کامیابیاں ملیں ۔ انجمن اپنے مختصر دور میں پوری دنیا کے بلوچوں کا دو عدد علمی کانفرنس منعقد کرنے کے ساتھ ساتھ عوامی آگاہی کے لیے انگریز سرکار اور وزیراعظم قلات شمس کے خلاف بلوچستان کی آواز ، فریاد بلوچستان اور شمس گردی جیسے مشہور پمفلٹس اور آرٹیکل شائع کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس وقت بلوچ سیاست دو واضح سیاسی کیمپوں میں تقسیم تھی ایک طرف مفاد پرست سرداروں اور اشرافیہ کا ٹولہ جبکہ دوسری طرف نوجوان ترقی پسند قوم پرستوں کا کیمپ تھا۔ انجمن کے رہنما جیل اور جلاوطنی کی صعوبتیں برداشت کرتے اور جرمانے بھرتے رہے مگر اپنی جدوجہد اور کمٹمنٹ سے ایک قدم پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں تھے۔ 5 فروری 1937ءکو سبی کنونشن میں قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے نام سے انجمن کے رہنماﺅں اور ریاست قلات کے سیاسی ورکروں نے نئی پارٹی کی بنیاد رکھتے ہوئے بلوچ قوم کے حقوق کے حصول کے لیے بہترین دستاویز پیش کیے۔ پارٹی کی پوری کوشش رہی کہ بلوچستان کو متحد رکھا جائے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے پارٹی نے 25 اگست 1939ءمیں ریاست خاران کی قلات سے علیحدگی کی شدید مخالفت کرتے ہوئے خاران اور لسبیلہ کو قلات میں شامل کرنے کا زبردست مطالبہ کیا اور اسے بلوچ قوم کی مزید تقسیم اور تباہی کے برابر قرار دیا۔ پارٹی نے سرداروں پر مشتمل اسٹیٹ کونسل کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے عام انتخابات کا مطالبہ کردیا۔ مگر سرداروں کے دباﺅ میں آکر خان قلات نے پارٹی پر پابندی عائد کردی۔ جب ریاست قلات کے ایوان زیریں کے انتخابات 1947ءمیں منعقد ہوئے تو خان قلات نے نیشنل پارٹی کے انتخابات میں حصہ لینے پر قدغن لگا دیا۔ نیشنل پارٹی کے رہنماﺅں نے آزادانہ حیثیت سے انتخابات میں حصہ لیا اور 52 میں سے 31 نشستیں جیت کر واضح اکثریت حاصل کر لی۔ قیام پاکستان سے دو روز قبل ریاست قلات (قلات، خاران، لسبیلہ اور مکران) کی آزادی کا اعلان کیا جب بعد میں ریاست قلات کو پاکستان کے ساتھ ضم کرنے کا متنازع فیصلہ کیا گیا تو نیشنل پارٹی نے جس کی سربراہی جناب میر غوث بخش بزنجو کررہے تھے نے اس انضمام کی شدید مخالفت کی مگر جام لسبیلہ نواب خاران اور نواب مکران میر احمد یار خان سے مشاورت کے بغیر پاکستان کے ساتھ شامل ہوچکے تھے اور بعد میں بہ امر مجبوری خان قلات کو پاکستان کے ساتھ شامل ہونا پڑا۔ قیام پاکستان کے بعد ملک کے ترقی پسند اور بلوچ پشتون قوم دوستوں نے مل کر نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کا قیام عمل میں لایا۔ 1970ءکے عام انتخابات میں اس پارٹی کو بلوچستان اور سرحد میں بڑی اکثریت ملی اور متحد اور بے لوث جدوجہد سے ریاستی پروردہ جماعتوں کو واضح شکست ہوئی۔بلوچستان اور صوبہ سرحد موجودہ خیبر پختونخواہ میں انکی حکومت قائم ہوئی بعد میں بھٹو آمریت کے سبب درون خانہ اور ریاستی آلہ کاروں کی وجہ سے اوّل بلوچستان کی حکومت برخاست کر دی گئی اور بعد میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے استعفا دے دیا اس کے بعد نیشنل عوامی پارٹی کو جلد ہی کالعدم قرار دیکر پارٹی قیادت کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا اس سے ملک میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص ایک بڑا سیاسی خلا پیدا ہوا جس کے نتیجے میں ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا جیلوں سے رہائی کے بعد سردار عطااللہ مینگل اور نواب خیر بخش مری نے جلا وطنی اختیار کی، میر غوث بخش بزنجو نے پاکستان نیشنل پارٹی ( پی این پی) کے نام سے اپنی الگ پارٹی بنائی مگر وہ کارکردگی دکھا نہ سکی جس کی امید کی جارہی تھی۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (جس کا وجود 1967ءمیں کراچی میں عمل میں لایا گیا تھا) نے بھرپور اور تاریخی جدوجہد کی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں بلوچستان بھر میں شعوری سیاست کا نشونما ہونے لگا مگر جلد ہی یہ طلباءتنظیم ٹوٹ کر بی ایس او اور بی ایس او عوامی کے نام سے ڈو دھڑوں میں تقسیم ہوئی۔ نیپ کے کالعدم ہو جانےاور ملک پر مارشلا نافذ ہو جانے کی وجہ سے ملک بھر میں سیاسی جماعتوں پر پابندی اورمشترکہ سیاسی پارٹی کے نہ ہونے پر بلوچ طلباءکافی حد تک سیاسی خلا کو پر کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ اس مقصد کیلئے متحد ہو کر جدوجھد کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تو دونوں دھڑوں کے قائدین نے 1983ءمیں دونوں دھڑوں کے باقاعدہ انضمام کا اعلان کر دیا۔ 1984ءمیں سنگل بی ایس او کا پہلا کونسل سیشن منعقد کیا گیا۔ متحدہ بی ایس او کو پوری بلوچ آبادی میں فقید المثال پذیرائی ملی اور 1986ءکا کونسل سیشن تین دن جس جوش وخروش کے ساتھ جاری رہا اس کی مثال شائد تاریخ میں ملے اور آخری سیشن یعنی حلف برداری و جلسہ عام کوئٹہ کی تاریخی جلسوں میں سے رقم ہوا۔ اس فقید المثال کامیابی کے بعد تقریباً ہر بلوچ خود کو بی ایس او سمجھنے لگا۔ 1984ءکے انضمامی کونسل سیشن کے بعد بی ایس او سے فارغ دوستوں نے عوامی سطع پر ایک منظم سیاسی پارٹی کی ضرورت محسوس کی جس کے نتیجے میں 1987ءکو ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ کی قیادت میں بلوچستان نیشنل یوتھ موومنٹ (BNYM) قائم کی گئی، بدقسمتی سے اسی سال بی ایس او اپنے انضمام کے تیسرے سال بیرونی سازشوں کا شکار ہو کر ایسی سیاسی بحران کا شکار بنی کہ ہر کوئی ہکا بکا رہ گیا اور نوبت گالم گلوج اور مار کٹائی جیسی غیر اخلاقی اور غیر سیاسی حرکات تک جا پہنچی۔ نظریات، سیاست اور دلیل کسی کام کے نہ رہے۔ تعلیمی اداروں سے بلوچ طلباءکے لئے مشکلات درپیش ہوتی گئیں اور اس غیر منطقی عمل کا انجام 2 مئی 1988ءکو فدا احمد بلوچ کی شہادت جیسے نہ قابل تلافی نقصانات کا سبب بن گئے۔
ملک میں ضیائی آمریت کے بعد 1988ءمیں عام انتخابات کرائے گئے بلوچستان میں بی این اے کے نام سے بی این وائی ایم اور جے ڈبلیو پی کے اتحاد نے عام انتخابات میں اچھی کارکردگی دکھائی۔ امید یہی تھی یہ اتحاد آگے چل کر ایک مضبوط سیاسی پارٹی کی بنیاد بنے گی کیونکہ اس اتحاد میں بلوچستان کے تقریباً تمام قوم پرست قوتیں یعنی بی ایس او سے فارغ التحصیل نظریاتی لوگ اور مڈل کلاس لیڈر شپ، سردار عطاءاللہ خان مینگل، نواب خیر بخش مری اور نواب اکبر خان بگٹی بلواسطہ یا بلا واسطہ شامل تھے مگر اس کے برعکس جلد ہی نہ اس صرف اتحاد کو نظر بد لگ گئی بلکہ اس اتحاد کا موجد بی این ایم بھی 1990ءمیں دو واضح گروپس (مینگل اور حئی) میں تقسیم ہوئی۔ امید کی جارہی تھی کہ شاید بلوچستان کے بڑے اس اتحاد کو بلوچستان کے عوام کے لیے ایک مضبوط پارٹی کی شکل دیں گے مگر سب کچھ اس کے برعکس ہوا اور 1991ءعام انتخابات میں قوم پرستوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ جب 1996ءمیں پی این پی اور بی این ایم (مینگل) کے انضمام سے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) وجود میں آئی تو ایک دفعہ پھر بلوچستان کے عوام کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے امید کی کرن نظر آنے لگی اور اس نئی جماعت کی اچھی طرح حوصلہ افزائی ہوئی اور بی این پی نے جمہوری وطن پارٹی کے ساتھ مل کر بلوچستان حکومت میں بنائی مگر شاید بلوچستان کے عوام کی قسمت کو کسی بد روح کی نظر لگ گئی ہے۔ بی این پی 1998 صرف ڈھائی سال کی عمر میں تقسیم ہوکر بی این پی (مینگل) اور بی این پی (عوامی) بن گئی۔
بی این پی عوامی بھی جلد ٹوٹ کر بی این ڈی پی اور بی این پی عوامی میں تقسیم ہوگئی۔ 2003ءمیں بی این ایم اور بی این ڈی پی کے انضمام سے نیشنل پارٹی وجود میں آئی مگر جلد این پی سے اختلاف کرتے ہوئے ایک دھڑا غلام محمد بلوچ کی قیادت میں الگ ہوگئی۔ اس دوران چار جماعتی اتحاد کا قیام عمل میں آیا مگر یہ اتحاد چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر مستحکم ہونے سے قاصر رہا۔ نواب اکبر خان بگٹی نے اپنے حیات میں یہ خواہش ظاہر کیا تھا کہ بلوچ قوم پرست رہنما سنگل پارٹی کا قیام عمل میں لائیں مگر اس کے باوجود کہ اس وقت بلوچ قوم کے بڑے نواب خیر بخش مری ، سردار عطاءاللہ مینگل ، ڈاکٹر عبدالحئی اور دوسرے حیات تھے نواب اکبر خان بگٹی کی یہ خواہش پوری نہ ہوسکی۔ آج میر اسرار اللہ خان زہری کی کوشش ہے کہ بلوچ قوم پرست رہنما سنگل پارٹی تشکیل دیں اس کوشش میں میر صاحب کی اپنی پارٹی حال ہی میں دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی ہے۔ نواب اسلم رئیسانی کے بیانات اور ٹوئیٹس دیکھ کر امید کی جارہی تھی کہ شاید نواب رئیسانی بڑا بن کر بلوچ قوم پرست جماعتوں کو متحد کرنے کی کوشش کریں گے مگر نواب صاحب نے مذہبی جماعت میں شمولیت کرکے رجعت پرستی کو پروان چڑھایا اور اب یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ قوم پرست نہیں بلکہ حق پرست ہیں۔ (اس حوالے سے تفصیلی تجزیہ محترم انور ساجدی کا افکار پریشان ملاحظہ فرمائیں)
اس انتشار کی سیاست نے بلوچستان میں سب سے بڑا نقصان یہ کیا ہے کہ مفاد پرست، منفی اور روایتی لوگوں کو آسانی سے سیاسی میدان مل گیا ہے راتوں رات باپ جیسی پارٹیاں بنائی جاتی ہیں جنہیں سیاسی اونچ نیچ سے کوئی سروکار نہیں بلکہ ان کو ایک خاص مقصد کیلئے آگے لایا جاتا ہے تاکہ بلوچستان میں شائستہ سیاست کا خاتمہ کرکے مخصوص اہداف حاصل کیے جاسکیں اور بلوچستان میں جنگل کا قانون مزید مضبوط ہوسکے۔
تاریخ گواہ ہے جب بھی بلوچستان کے قوم پرست رہنما انتخابات میں مشترکہ پلیٹ فارم سے حصہ لیتے رہے ہیں