بلوچ ثقافت کے آئینے میں
تحریر: ڈاکٹر زاہد دشتی
ثقافت عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی کسی طبقہ وقوم کی تہذیب و ترقی کے ہیں اس کے دوسرے معنی دانائی اور عقلمندی کے ہیں۔بعض ماہرسماجیات اس کے معنی نکھارنے اور سنوارنے سے اخذ کرتے ہیں کچھ ماہرین ثقافت کو کسی قوم اور معاشرے کے احساسات و فنی لیاقت کی عکاسی قرار دیتے ہیں۔ ثقافت کسی قوم و طبقہ کی مجموعی کیفیات و احساسات کا نام ہے یہ تاثر و احساسات کسی خاص قوم کی سماجی زندگی کی نمایاں علامت بن کر رہ جاتے ہیں۔ اقوام کی ثقافت وقت و حالات کے مطابق مسلسل تبدیل اور ترقی کے عمل سے گزرتی ہے اور ثقافت کا اقوام کے طرز معاشرے طور طریقہ اقتصادی حالت پر دارو مدار ہوتا ہے۔ ہر طبقہ و قوم اپنی ثقافت میں خوبصورتی و تبدیلی کا رنگ خود بھرتا ہے جو وقت و حالت کے مطابق قوم وطبقہ کی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور زندگی کے مختلف پہلوئوں پر اپنے اثرات ہوتی ہے۔
بلوچ ثقافت کے حوالے سے ڈاکٹر عبدالرزاق صابر اپنے پی ایچ ڈی مقالہ’’ براہوئی اور بلوچی لسانی روابط ‘‘میں تحریر کرتے ہیں۔
’’بلوچ قبائل کی کثیر تعداد پاکستان صوبہ بلوچستان کے علاوہ صوبہ سندھ اور پنجاب میں آباد ہے۔ بیرون ملک ایران ، افغانستان، ترکمانستان اور خلیجی ریاستوں میں بھی بلوچوں کی اچھی خاصی تعداد آباد ہے۔ لہٰذا ان تمام ممالک اور ہمسایہ اقوام کی ثقافت نے بلوچ ثقافت کو بھی متاثر کیا ہے۔ جس کی ایک بڑی وجہ بلوچوں کا جس بھی علاقے میں جانے کے بعد وہاں کی ثقافت کو اپنانے کی خاصیت ہے۔ ان تمام اثرات کے باوجود بلوچ ثقافت اپنی چند مخصوص اقدار کی وجہ سے ہمسایہ ثقافتوں سے یکسر منفرد دکھائی دیتی ہے۔ بلوچ قبائل کے ہاں بلوچ ثقافت کی یہ انفرادیت’’بلوچیت‘‘کہلاتی ہے۔
بلوچ ثقافت پر بلوچ ثقافت کی بنیاد واساس ،محبت انسان دوستی، احترام وعزت یکجہتی خوشی و تفریح کے طرز پر قائم ہے جو کہ بلوچ قوم کے لئے باعث فخر ہے اور پاکستانی کلچر کے خوبصورت اجزا ہیں۔بلوچ ثقافت مادی او رغیر مادی لحاظ سے بہت امیر ہے بلوچ ثقافت کی پہچان اور اس کے اہم اجزا اور تاریخی حوالے اور مختلف ماہرین ،تاریخ دان اور دانشوروں او رادیبوں کے اس حوالے سے رائے کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔
بلوچ زبان :۔
زبان ایک متحد معاشرہ کی تشکیل و علامات کا اہم جزو ہے بلوچی زبان ایک قدیم زبان ہے یہ زبان ایران کی قدیم زبان پہلوی او راوستا زبان کی ہم عصر ہے یہ بات تحقیق کے بعد منظر عام پر آئی ہے بعض نے بلوچی زبان کی قدامت کو برداشت نہ کرکے یہ رائے سامنے لائے کہ بلوچی فارسی کا کوئی مسخ شدہ حصہ و شکل ہے لیکن یہ خیال و رائے سراسر بے بنیاد ہے اس بات پرکوئی شک نہیں کہ بلوچی نے دوسری زبانوں کے ساتھ یکجا و اکٹھاہونے کے سبب کبھی بخل و کنجوسی کام نہیں لیا بلکہ دوسرے زبانوں سے کچھ الفاظ محاورے و اصلاحات اسی طرح بہت کچھ اس نے زبانوں کو دیا ہے مورخین کے مطابق بلوچوں کا تاریخی عہد تین ادوار پر مشتمل ہے پہلا دور اس کے جنوبی عرب ، دوسرا ایران و سیستان اور تیسرا دور حال ان تینوں ادوار کے اثرات زندگی کے دوسرے پہلوئوں کے ساتھ زبان پر بھی پڑے۔
بلوچی زبان یوں تو خلیجی ممالک ، ترکمانستان ، افغانستان ، ایران او ر پاکستانی بلوچستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ بلوچی زبان کے ساتھ یہاں ( بلوچستان میں ) دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے ڈاکٹر عبدالرزاق صابر اپنے پی ایچ ڈی مقالہ ’’ براہوئی اور بلوچی لسانی روابط ‘‘میں تحریر کرتے ہیں۔
’’صوبے کی اکثریتی زبان بلوچی ہے۔ جو 1981ء کے مرتب کر دہ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق کل آبادی کا 36.3 فیصد لوگ بولتے ہیں۔ سبی اور نصیر آباد ڈویژنوں میں بلوچی اور براہوئی کے ساتھ ساتھ سندھی اور سرائیکی زبان بھی بولی جاتی ہے۔ کوئٹہ شہر میں آبادی کے ایک مخصوص حصے کی زبان درسی فارسی سے نزدیک تر ہے جو ہزارگی کہلاتی ہے۔ اس کے علاوہ قلات اور مستونگ میں براہوئی کے ساتھ ساتھ دہواری فارسی بھی مروج ہے۔ کوئٹہ شہر میں پنجابی ، اردو اور ہندکو بولنے والے بھی آباد ہے ‘‘۔(صابر : 2021ئ ص۔ 37)
بلوچی زبان صدیوں سے فارسی ، سندھی ، پشتو ، پنجابی زبانوں کے ساتھ نزدیک ہونے کے باعث الفاظ کا تبادلہ کرتی رہی ہے ایران کے نزدیک بلوچ علاقوں میں بلوچی زبان پر فارسی زبان کے اثرات پڑے ہیں اسی طرح مشرقی علاقوں میں پنجابی ، سندھی ، سرائیکی کے اثرات مرتب ہوئے ہیں جو کہ لوگوں کی گفتگو میں نمایاں نظر آتے ہیں۔
لباس:۔
بلوچ کا مخصوص لباس اس کی ظاہری شناخت ہے جو اسے دیگر اقوام کے لوگوں میں منفرد نمایاں کرتا ہے بلوچوں میں لباس کو نمود و نمائش کے مقابلے میں دفاع و ستر پوشی کی حیثیت حاصل ہے انہوں نے لباس کو جنگی ضرورتوں کے مطابق بنایا ہے۔ بلوچوں میں صدیوں سے رائج دس گز کی پگڑی، ڈیڑھ تھان کا شلوار ، پانچ گز کا ڈھیلا کرتہ بلوچی لباس کی پشت پر ستر پوشی کے علاوہ اس کی قدامت کی عکاسی کرتی ہے۔ اب بھی بلوچوں کے مختلف علاقوں میں اس طرح کا لباس پہنا جاتا ہے بلوچ خواتین کا لباس بھی منفرد و خوبصورت ہے۔ بلوچی کڑھائی و نقش و نگار کو دنیا میں اہم حیثیت حاصل ہے بلوچ خواتین لباس کو پہن کر فخر محسوس کرتی ہیں خواتین کی بلوچی لباس میں شائستگی ، عزت، انفرادیت بہت نمایاں اور واضح ہے۔
دنیا میں تیز رفتارترقی کے سبب مختلف اقوام اپنی قومی لباس کی جگہ حاکم اور سرمایہ دارانہ سسٹم کے تحت پروان چڑھنے والی ثقافت جو کہ گلوبل ویلج بننے کی صورت میں دنیا کے چھوٹے اقوام کو ان کی زبان ، ثقافت اور دیگر روایتوں سے دور کر تا جارہا ہے۔ مگر اگر آج کا بلوچ اپنی قومی لباس کو پہن کر فخر کرتا ہے تو اس کی انفرادیت باقی رہ جاتی ہے۔ ورنہ دوسری صورت کو نامور صحافی مقبول رانا اپنی کتاب ’’ بولان نامہ ‘‘ میں کچھ اس طرح بیان کرتے ہیں۔
’’ہر قوم کا اپنا مزاج ، اس کی ثقافت، روایات ، تشخص زندگی گزارنے کے طور طریقے ، غم اور کوشیوں کے اپنے پیمانے عادات و اطوار ، دوستی اور محبت کے اپنے دائرے ہوتے ہیں اور جب کوئی قوم اپنے ان دائروں سے باہر نکل آتی ہے تو مفلس بن جاتی ہے۔ اقوام عالم کی تاریخ ان حقائق سے بھری پڑی ہے کہ جب کوئی قوم اپنی اصل سے دست بردار ہوگئی تو اس کے دامن میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی مزاحمت کی تحریکیں چلی ہیں اور ان میں اقلیم گیری کے ہوس او رسیم و زر کے انبار اکٹھے کرنے سے کہیں زیادہ اپنے وجود کا اقرار اور اس پر اصرار کو اہمیت رہی ہے ‘‘ ( رانا 2016: ، ص 29)
مہمان نواز ی :۔
اس بات میں کوئی شک و اختلاف نہیں کہ مہمان نوازی ہر قوم کی اقدار میں شامل ہے لیکن بلوچ سماج میں مہمان کے لئے جان کی بازی لگانے کے واقعات کثیر تعداد میں ہیں۔ بلوچ سماج میں میزبان خود بھوکا ہوسکتا ہے لیکن مہمان کی خدمت کے لئے ہر وہ کوشش کی جاتی ہے جو ان کی استطاعت و قوت میں ہے۔نووارد مہمانوں او رمسافروں کو بلوچ معاشرت میں دریا دلی و خندہ پیشانی سے مہمان نوازی کی جاتی ہے اس جذبہ احساس کا بنیادی سبب بلوچ قوم کی انسان دوستی ، دریا دلی و محبت ہے۔
بلوچ سماج میں عورت کا مقام :۔
عور ت کو جتنی عزت و احترام بلوچ سماج میں ہے شاید کسی اور سماج و معاشرے میں نہ ہو اگر دو قبائل یا دو فریقوں کے درمیان لڑائی یا جنگ و جدل ہوا گر کوئی خاتون میدان جنگ یا لڑائی کے درمیان آجائے یا وہ جنگ کو ختم کرانے کے لئے مداخلت کرے توخاتون کی عزت و احترام کی خاطر فریقین جنگ کو ختم کر دیںگے۔ اسی طرح کوئی عورت کسی بلوچ کے گھر خون کا عوضیانہ معاف کرانے کے لئے میڑھ کے طورپر چلی جائے تو اس کی عزت کی خاطر خون کو بخش دیا جائے گا۔ اس قسم کے واقعات سے بلوچ تاریخ بھری پڑی ہے۔ بلوچ سماج میں جہاں دریا دلی اور انسان دوستی کے اوصاف موجود ہیں وہاں انتقام جوئی کے جذبات ایک پہاڑ کی شکل میں قائم ہیں۔ اگر دو قبیلوں کے درمیان کوئی لڑائی چھڑ جائے تو یہ جنگ کئی نسلوں تک چلتی ہے۔ کشت و خون کے ایسے درد ناک معاملات کو ختم کرانے میں خاتون کی خدمات ،عزت و احترام کام میں لایا جاتا ہے واقعی مسئلہ کا حل خاتون ادا کرتی ہے چند خاندانوں کے علاوہ بلو چ قبائل میں پردے کا رواج نہیں ہے اور مکمل آزادی ہے وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں مردوں کے شانہ بشانہ شریک کار ہیں اور تعلیم حاصل کرنے میں پیش پیش ہیں۔ غرض یہ کہ بلوچ سماج میں خواتین کو بلند حیثیت حاصل ہے خصوصاً سماجی حوالے سے تاریخ پر نظر دوڑائیں تو گوہر جتنی کی بے شرمی کو ناقابل تصو رسمجھ کر بلوچ یعنی رند و لاشار 30سالہ جنگ کے دردناک حالات سے گزرے ہیں اسی طرح سمو کی عزت کی خاطر دودا گورگیج کی ماں نے دودا کو جان کا نذرانہ پیش کرنے کا حکم دیا یہ تاریخ کے سنہری حروف بن کر رہ گئے ہیں۔ بعض جگہوں میں انہوں نے سپہ سالار کے فرائض سرانجام دیئے ہیں۔ جس وقت ہمایوں لشکر سوری لشکر کے ساتھ حالت جنگ میں تھا تو بلوچوں نے ہمایوں کی مدد کے لئے اس جنگ میں شریک ہوئے اس جنگ کا سہرا بلوچ خاتون بانڑی کے سر تھا بانڑی چاکر اعظم کی بہن تھی۔
باہوٹ میار جلی :۔
باہوٹ میار جلی کا مطلب کسی شخص پر کوئی ذاتی دشمنی یا قبائلی جنگ کے سبب کسی کے ہاں پناہ لینا ہوتا ہے۔ بلوچ سماج میں پناہ دینا قابل فخر کام تصور کیا جاتا ہے۔ بلوچ کی تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے کیونکہ کمزور شخص اپنی حفاظت و دفاع نہ کرسکنے کے سبب مجبوراًکسی دوسرے فرد یا قبیلہ کے ہاں میار بن جاتا ہے اور وہ فرد قبائل کسی شرط و معاوضے کے بغیر اس کی جان و مال کی حفاظت کے لئے ہر قسم کی قربانی سے دریغ نہیں کرے گا بلکہ وہ اسے اپنا قومی فرض سمجھتا ہے اس باہوٹی او رمیار جلی کے سبب چند مالدار خواتین کو ہر جتنی او سمی کی خاطربڑی بڑی لڑائیاں لڑی گئیں ہیں گوہر جتنی ایک مالدار اور بیوہ خاتون تھی اپنی عزت او اپنی بھیڑ بکریوں کی حفاظت کے لئے چاکررند کی پناہ میں آئی ایک روز میلہ میں رامین لاشاری اور ریحان رند کے درمیان گھڑدوڑ کا مقابلہ ہوا رند مصنفین کی طرف سے ریحان رند کو کامیابی ہوئی تو رامین لاشاری ناکامی کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنے دوستوں کے ہمراہ راستے میں چاکر رند کے باہوٹ گوہر جتنی کے بھیڑ بکریوں کو ذبح کردیا اور بعض کو بہت زخمی کر دیا گوہر جتنی کی ا س بے عزتی پر چاکر رند کو بہت غصہ آیا اورناکامی کے غصہ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اپنے دوستوں کے ہمراہ راستے میں چاکر رند کے باہوٹ گوہر جتنی کے بھیڑ بکریوں کو ذبح کردیا اور بعض کو بہت زخمی کر دیا۔ گوہر جتنی کی اس بے عزتی پر چاکر رند کو بہت غصہ آیااور انہوںنے طیش میں آکر ایک جرار لشکر سے لاشاریوں پر حملہ کر دیا۔بعد میں یہ جنگ30سال تک جاری رہی اس طرح کی واقعہ بیان کرنا ضروری ہے۔ سمی بھی ایک مالدار خاتون تھی جب اپنی عزت و مال کی فکر ہوئی تو اس نے گورگیج قبیلہ کے نو عمر سردار دودا کے ہاں پناہ لی۔ دودا نے بلوچی روایات کے مطابق اس کی عزت و مال کی حفاظت کی ذمہ داری لے لی۔دودا کی شادی ہوئی تھی ایک دن گرمیوں کی تپتی ہوئی دوپہر کو جب وہ حجلہ عروسی میں گہری نیند میں سورہا تھا تو اس کی ماں کو خبر ملی کہ کچھ راہزن سمی کی بھیڑ بکریوں کو ہانک کرلے گئے ہیں تو انہوں نے دودا کو نیند سے جگا دیا اور کہا کہ ’’ آں مرد کہ داراں باہوٹا نم روشاں نہ پساں کلاں ‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بہادر بلوچ کسی کو اپنی پناہ میں قبول کرلے وہ دوپہر کو یوں غفلت کی نیند نہیں سوتے۔ اس کی ماں نے مزید کہاکہ میں نے نو مہینہ تمہیں پیٹ میں رکھا 2سال تک دودھ پلایا اس کے بدلے تمہارے ذمہ یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ یا تو سمی کی بکریوں کو واپس لا، یا پھر اپنی جان قربان کر دے دودا ماں کی طنزیہ باتیں سن کر غصہ میں اٹھا اور اس نے راہزنوں کا پیچھا کیا لیکن افسوس وہ سمی کی بھیڑ بکریوں کو نہیں لا سکا لیکن اپنی والدہ کی دوسری بات پر عمل پیراہوکر جان کا نذرا نہ پیش کیا۔ ان دونوں واقعات کے علاوہ ایک اور تاریخی واقعہ اس طرح ہے کہ جب شہنشاہ ہمایوں شیر شاہ سوری سے شکست کھاکر ضلع چاغی کی طرف آیا تو مرزا کامران والئی قندھار کی طرف سے چاغی کے بلوچ سردار ملک خطی کو حکم ملا تھا کہ ہمایوں کو اپنے علاقے میں ڈھونڈ کر گرفتار کرکے قندھار لائیں۔ سردار ملک خطی نے حکم کی فرمانبرداری کے لئے مختلف جگہوں پر تلاشی شروع کردی جب وہ ناکام ہوکر گھر پہنچا تواس نے دیکھا کہ ہمایوں اس کے گھر تشریف لاچکے ہیں تو یہ حالت دیکھ کر وہ آزمائش میں پھنس گئے لیکن انہوں نے بلوچی روایا ت کو مد نظر رکھ یہ طے کرلیا کہ وہ اپنی مہمان کی جان و مال کی حفاظت کرے گا انہوں نے باعزت طریقے سے ہمایوں کو ایران کی سرحد کے پار پہنچایااور ایک غیور بلوچ کی حیثیت سے اپنا قومی واخلاقی فرض سر انجام دیا۔
بلوچوں کی امن پسندی اور اپنی سر زمین او رروایت سے محبت کا عکس نامور تاریخ دان ملک سعید دہوار ’’ تاریخ بلوچستان ‘‘ میں تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔
’’جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے یہاں گزشتہ پانچ ہزار سال سے برابر منظم اور ترقی یافتہ حکومتیں قائم چلی آئی ہیں یہاں کے باشندے زمانہ قدیم سے منظم حکومتوں کے تحت زندگی بسر کرتے چلے آئے ہیں او رہزاروں برسوں میں تاریخ کے کسی بھی مرحلے میں یہاں کبھی بھی کوئی ایسا حادثہ یا صورت حال پیش نہیں آئی کہ منظم حکومت کا وجود خطرے میں پڑگیا ہو اور اس کی جگہ لاقانونیت نے لے لی ہو اور یہاں کے باشندے سیاسی شعور سے پوری طرح بہرہ ور ہیں او رآمریت اور جمہوریت کے درمیان فرق کرنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں اور اسے اپنی زبان میں زبر واجگی اور استمان واجگی کا نام دیتے ہیں ‘‘ ( دہوار 2007:ئ ص 48-49)
خانہ بدوشی:۔
بلوچ قوم تاریخی طورپر خانہ بدوش قوم ہے وہ پہاڑ وں ، صحرائوں او ردشت و بیابان میں زندگی گزارتے رہے ہیں دشت و بیان میں معاشی ضروریات و مسائل کا کوئی مستقل انتظام نہیں تھااس لئے زندگی کی ضروریات کی بنیاد پر بلوچ قبائل ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل مکانی پر مجبور تھے۔ عہد جدید کے ترقی یافتہ ذرائع نقل و حمل کے باوجودبولان او رمولہ سے اونٹوں کے قافلوں کے قطاریں بلوچوں کی خانہ بدوشانہ زندگی کی عکاسی کرتے ہیں۔
بلوچستان کے معروف لکھاری عابد میر اپنی کتاب ’’ بلوچستان کا عکس‘‘ میں بلوچستان کے خانہ بدوشوں کا ذکر کرتے ہوئے یوں تحریر کرتے ہیں :۔
’’ بلوچستان اورخانہ بدوشوں کا تعلق کچھ ایسا ہی جڑا ہے جیسے کسی بھی سر زمین کے ساتھ وہاں کی لوک داستانوں کا تعلق ہوتا ہے۔ بلوچستان کے خانہ بدوشوں کا رشتہ بھی اس سر زمین کے ساتھ رومانوی داستانوں جیسا ہی قدیم او رحسین بھی ہے۔بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ یہاں خانہ بدوشوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود بلوچ سر زمین کی تاریخ۔ ہجرت کا عنصر تو ویسے بھی بلو چ سرشت میں تاریخی طورپر شامل رہا ہے۔(میر 2011:۔ ص 11)
اس صحرا نشینی کے باعث بلوچوں کے رویہ میں جستجو ، تلاش و تحقیق کے جذبات پیدا کئے ہیں جو کہ ابھی تک قائم و دائم ہیں۔اور وہ جسمانی طورپر مضبوط اور بہت جنگجو بہادر ہیں۔
بلوچ خانہ بدوشی کو مزید جاننے کے لئے تاریخ دان فاروق بلوچ کے دیئے ہوئے حوالے کو جانتے ہیں وہ لکھتے ہیں
’’ خانہ بدوش کبھی بھی زمین کے تکڑے یا کسی پہاڑی پتھر کے لئے نہیں لڑتا اسے مٹی کے ذروں یا پہاڑی لعل و جواہر کی قدر کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا اس کی لڑائی تو عموماً کسی چراہ گاہ یا پہاڑی چشمے کے لے ہوتی ہے اور کوئی خانہ بدوش کسی عالمی طاقت سے کبھی ٹکر نہیں لیتا اس کی لڑائی تو عموماً اپنے جیسے کسی دوسرے قبیلے سے ہوتی ہے جو کسی چراگاہ یا پانی کے چشمے پر قابض ہوا ہو۔ وہ تو ایک جگہ ٹک کے بیٹھتا نہیں اسے زمین کی قدر و قیمت کا کیا پتہ ہوگا اور اس کا کوئی وطن نہیں ہوتا اور جس کا وطن نہیں ہوتا تو بھلا وہ پرائی زمین کے لئے کیوں لڑے اوراسے وطن کی قدر و قیمت کا کیا اندازہ۔ بلوچوں کی تاریخ تو یہ ہے کہ آرین حملوں1500 ق م سے لے کر موجودہ دور تک اپنے وطن کی دفاع کی خاطر عالمی طاقتوں سے نبرد آزما ہیں۔ بھلا ایک بے وطن چرواہا یہ سب کچھ کیسے کر سکتا ہے۔ ‘‘( بلوچ : 2019ئ ص ،49)
اندازہ کیجئے کس طرح وقت اور حالات نے بلوچ کو کسی ایک چشمے اور چراگاہ کے لئے لڑنے سے لے کر اپنی ثقافت اور بہتر زندگی کے لئے محنت ،جدوجہد ، تعلیم اور ہنر مندی کی طرف رفتہ رفتہ سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ خانہ بدوشانہ زندگی بلو چ قوم کے زندگی کا ایک پہلو ضرور ہے مگر آج بھی شہروں اور دیہاتوں میں بہتر سہولتوں اور بہتر زندگی کے لئے دن رات کوشاں ہے۔
بجار و پوڑی:۔
بلوچ ثقافت میں مدد و تعاون کے عناصر بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ یہ مدد و تعاون خصوصاً خوشی اور غمی کی حالت میں دیا جاتا ہے۔بجار بلوچ سماج میں شادی کے موقع پر دیاجاتا ہے۔ یہ مدد نقد رقم ، خورد نوش کے سامان او ربھیڑ بکریوں کی شکل میں رضاکارانہ طورپر دیا جاتا ہے کسی ضرورت مند غریب کے لئے بروقت بجار یعنی مالی امداد ناقابل فراموش، خوشی کی بات ہوتی ہے کیونکہ کسی غریب کے لئے لب دینا اور شادی کے دوسرے اخراجات پورا کرنا بہت مشکل و کٹھن ذمہ داری ہے اسی طرح مقدمہ کی صورت میں جرمانہ کی ادائیگی یا مشکل گھڑی میں پیسہ دینا ہر کسی کی استطاعت وقوت سے باہر ہے تو وہ خود یا اس کے عزیز و اقارب اپنے برادری یا قبیلہ کے لوگوں سے مالی مدد و تعاون کا اظہارکرتے ہیں اور اس امداد طلبی کو پوڑی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک قسم کا چند ایعنی امداد ہے سماجی تقریبات یا کٹھن مواقعوں پر امداد باہمی بلوچ سماج میں محبت، دوستی و انسانیت کا مظہر ہے بلوچ ثقافت میں اس کی اہمیت و افادیت پر جس قدر فخر کیاجائے کم ہے اس امداد باہمی سے قبیلہ کے لوگ نہایت خندہ پیشانی سے پیش پیش ہوتے ہیں اس مددو تعاون سے محبت و اخوت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے ایسی امداد باہمی کو لینے یا دینے پر کوئی سماجی و مذہبی عیب ، شک نہیں۔ بجار اور پوڑی میں بنیادی فرق یہ ہے کہ پھوڑی کے لئے خود لوگوں کے پاس جانا پڑتا ہے جبکہ بجار قبیلہ کے لو گ یا عزیز و اقارب رضاکارانہ طورپر ایک دوسرے کو دیتے ہیں۔ یہ رسم خاص انسانی ہمدردی اور مدد و تعاون کے مقصد قائم ہے۔ یہ منافع گداگری سے مکمل پاک ہے۔
حشرکاری یا آواچکی :۔
بجار اورپھوڑی کے ساتھ ساتھ بلوچ سماج میں مدد و تعاون کی ایک تیسری رسم عام ہے بلوچی میں اس کو حشر کاری کہتے ہیں۔مگر کچھ علاقوں میں اسے آواچکی کہا جاتا ہے ایک کاشتکار یا زمیندار آلات کاشتکاری کی عدم موجودگی یا انسانی وسائل کی کمی کے سبب اپنی زمینوں پر بروقت بوائی او رکٹائی کے لئے مدد و تعاون کا مطلوب ہوتا ہے تو وہ علاقہ او رقبیلے کے زرات پیشہ افراد کی طرف سے مدد و تعاون کا طلبگار ہوتا ہے اس طرح بروقت یا موسمی کاشت کے لئے بلوچ سماج میں جب بھی ایک دوسرے کو پکار اجاتا ہے حشر کاری کہاجاتا ہے اس پکار و مدد کے لئے تمام زمیندار و کاشتکار مقرر ہ وقت پر اپنے بیل ، دوسرے ضروری آلات اور لوگوں کے ساتھ مذکورہ زمین پر آپہنچتے ہیں سب اکٹھے ہوکر بخوشی امداد طلب کرنے والے فرد کے ساتھ یکجہتی و محبت کا مظاہر کرتے ہیں یہ مدد و تعاون ایک دوسرے کے ساتھ محبت و اخلاق کا احساس و جذبہ پیدا کرتا ہے یہ بھی ایک قسم کی حشر کاری ہے اس کے علاوہ بلوچ سماج میں زندگی کے دوسرے شعبوں میں مدد و تعاون کیا جاتا ہے۔ کاشتکاری کے علاوہ جب کسی لرکے کی شادی قریب ہو اور شادی کا لباس تیار نہ ہونے کی صورت میں سب علاقے کی لڑکیاں و خواتین دلہن کے لباس کو تیار کرنے میں رضاکارانہ طورپر مددکرتے ہیں
قول و اقرار :۔
بلوچ قوم قدیم دور کسی قسم کی ہمت جرات و شخصیت کو پرکھنے کا واحد ذریعہ استعمال کیا جاتا ہے کہ وہ شخص اپنے قول و اقرار کو نبھانے کے لئے کسی حد تک کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔ یہ با ت تاریخ میں شاندار الفاظ میں موجود ہے بلوچ قوم نے قول و اقرار کو پورا کرنے میں شاندار روایات قائم کی ہیں بلوچ سماج میں قول واقرار پر قائم نہ ہونے والے شخص کم درجہ ، بے عزت تصور کیا جاتا ہے ان باتوں سے بلوچی قول اقرار کا نام ایک روایت بن گئی جس طرح لوگ قول و اقرار کرنے والے سے پوچھتے ہیں کہ آپ کا قول بلوچی قول ہے اس کا مطلب بلوچی قول لازمی طورپر پورا کیاجاتا ہے کیونکہ قول و اقرار پر عملدرآمد ہونے پر لوگوں نے بہت قربانیاں دی ہیں۔
قربانیوں کی جہاں تک بات ہے تو بلوچ نے اپنی ثقافت ، ادب ، تاریخ کے لئے جتنی قربانیاں دی ہیں وہ دنیا کے نظروں سے پوشیدہ نہیں۔ اس جذبے کو ڈاکٹر ظفر اللہ اپنی کتاب ’’ بلوچستان آپ بیتی ‘‘ میں بلوچ کو پکارتے ہوئے تحریر کرتے ہیں :۔
’’بلوچ اس حقیقت سے بخوبی واقف اور آگاہ ہیں کہ ان کی سر زمین بے شمار قدرتی خزانوں سے مالامال ہے اور اس کے وسائل اور آمدنی ان کی اپنی ضرورت سے بہت زیادہ ہیں لیکن ضرورت اس وقت ہمیں اپنے اندر تبدیلی کی ہے ہمیں ایک مذہب با تہذیب اور جدید سائنسی علوم کے ساتھ ایک نئے معاشرے کی تشکیل کے لئے جہاں انفرادی حوالے سے انسانیت کے عالمی حقوق کی پاس داری ، انصاف اور مساوات کی بنیاد پر ایک پر امن سماجی ماحول پیدا کرنے کی جدوجہد میں اپنا حصہ شامل کرنا ہے یہی ہمارا مقصد حیات ہے اور رب العزت کی صفت اور توحید کی پہنچان ہے۔ ( ظفر اللہ 2013:، ص۔ 162)
قول و اقرار کے حوالے سے بلوچ تاریخ میں ایک لازول داستان عشق نے جنم لیا جو شے مرید حانی کی داستان کے نام سے بہت مشہور ہے شے مرید نے قول کیا تھاکہ جمعرات کی صبح میرے پاس جو سوالی آکر جو کچھ بھی مانگے وہ اسے دے دیں گے۔چاکر رند نے کچھ ڈھول بجانے والوں کو شے مرید کے ہاں بھیجا اور کہا کہ وہ میرے لئے حانی کو مانگ لے۔ جب وہ لوگ شے مرید کے دربار میں آئے اور حانی کو مانگا تو شے مرید نے اپنی محبوبہ و منگیتر حانی کو بخش دیا حانی کو دینے کے بعد شے مرید نے مجنوں کی طرح پوری زندگی تڑپ تڑپ کر گزاری۔
مجرم اور چور کے بارے میں پڑتال :۔
بلو چ معاشرے میں چورکو ثابت کرنے کے طریقے نہایت عجیب ہیں۔ یہ عمل زیادہ تر عینی شاہد نہ ہونے کی صورت میں کیا جاتا ہے بعض قبائل میں ملز م کو آگ او رپانی کے ذریعے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔اسے بلوچی میں ’’ آس آپ ‘‘ کہتے ہیں۔ان دونوں میں سے چنائو کا حق ملزم کو دیا جاتا ہے آگ پر سے گزرنے کی صورت میں انگاروں پر چل کر اپنی بے گناہی ثابت کرنا ہوتی ہے۔ اگر آگ نے ملزم کے پائوں جلائے تو وہ مجرم ٹھہرتا ہے اگر نہیں تو وہ بے گناہ ٹھہرتا ہے۔
بلوچستان اور بلوچ کی ان رسومات او رروایات کو ان کے علاوہ بہت کم لوگ اس حوالے سے معلومات رکھتے ہیں یا جانتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں بسنے والے اقوام کو ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے اور امن او ر دوستی سے ملنے کے مواقع نہیں دیئے گئے جس کی شکایت ہر کوئی کرتا ہے۔ اسی کمی کو ملک کے ممتاز صحافی مجید اصغر اپنی کتاب ’’ مقدمہ بلوچستان ‘‘ میں اور واضح کرکے بیان کر دیا وہ لکھتے ہیں :
’’ پاکستان میں چھپنے والی کتابوں او رتحقیقی حوالوں میں بھارت کی تاریخ ، ثقافت اور دوسری سماجی حقیقتوں کا ذکر تو کثرت سے ملتا ہے مگر بلوچوں کی تاریخ اور تہذیبی روایات کو کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ عمومی سوچ یہ ہے کہ بلوچوں یا دوسری وفاقی اکائیوں کے تاریخی و سماجی خدوخال اجاگر کرنے سے مملکت کمزور ہوجائیگی۔ یہ بڑاعجیب و غریب فلسفہ ہے۔ آخر بلوچوں کی تاریخ ، بلوچی زبان کے محاوروں او رضرب الامثال ، بلوچی ادب ، شاعری او رسماجی اقدار کا ذکر کیوں نہیں کیا جاتا ؟ بلوچستان اگر پاکستان کا حصہ ہے تو ماضی و حال میں اس کا جو بھی ورثہ تھا یا ہے اسے بھی پاکستان کا حصہ ہونا چاہئے اگر ہماری نصابی کتب میں میر تقی میر کا ذکر کیا جاتا ہے تو ملا فاضل یا مست توکلی کاحوالہ کیوں موجود نہیں ؟ اگر ہمیں مغل بادشاہوں کے بارے میں پڑھنے پر مجبور کیا جاتا ہے تو میر چاکر رند او میر گواہرام لاشاری کے متعلق کیوں کچھ نہیں پڑھایا جاتا ملک کے دانشوروں او راہل قلم کو بلوچوں ہی سے نہیں دوسری قومیتوں کے ساتھ بھی یہ نا روا امتیاز نہیں برتنا چاہئے ‘‘( اصغر2014:ئ ص۔211)
چلوں یہ بھی بڑی غنیمت ہے کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افراد بلوچ کی شکایت کا ذکر اپنی کتاب میں کر رہے ہیں۔ دوسری جانب اس سلسلے میں حکومتی سطح پر ان ذکر اور فکر پر غور و غوض کرنی چاہئے۔
فال ، نجومی :۔
بلوچ کے مختلف قبائل میں بکری بھیڑ کے شانے کی لکیروں سے بیماری امن و جنگ، موسمی حالات او دیگر قدرتی آفات کے بارے میں پیشنگوئی کی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار پر بہت سے لوگوں کو مکمل اعتماد ہے۔ اب بھی مشرقی بلوچ علاقوں میں اس طریقہ پر عمل کیا جاتا ہے یہ پیشن گوئی شانے کی لکیروں کو اس فن کے ماہرین کرسکتے ہیں یہ بات قابل ذکر ہے کہ زیادہ تر ایسی پیشنگوئیاں درست ثابت ہوتی ہیں۔
پڑس :۔
پڑس بھی امداد باہمی و تعاون ہے لیکن اسے صرف موت کے موقع پر مرنے والے کے ورثائ کو ان کے طلب نہ کرنے پر رضاکارانہ طورپر دیا جاتا ہے فاتحہ خوانی کے لئے آنے والے لوگ ورثائ کو حسب توفیق نقد رقم بھیڑ بکری ، خورد نوش کی اشیائ رضاکارانہ طورپر پیش کرتے ہیں۔اس کے علاوہ مرنے والے کے ورثائ کو ہمسایہ یا رشتہ دار تین دن تک کھانادیتے ہیں تاکہ وہ اپنا کم از کم تین دن تک چولہا نہ جلائیں۔
ششکان:۔
بلوچ معاشرے میں بچے کی پیدائش کے چھٹے دن اس کا نام رکھا جاتا ہے اس دن کی رسم کو ششکان کہتے ہیں۔ اسی دن بچے کا نام رکھنے کی تقریب میں ہمسایہ ، رشتہ دار اور خاندان کے افراد کثیر تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ شادی کی طرح آنے والے مہمانوں کی تواضح کی جاتی ہے او رڈھول پر رقص کیا جاتا ہے اور مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے۔
بلوچ ثقافت کے یہ توصرف چند ہی نقطے تھے جن کو ہم نے جاننے کی کوشش کی اور اس حوالے سے ملک کے معروف صحافی ، دانشور اور ادیبوں کی رائے بھی جان لی۔ اگر باریکی بینی سے دیکھا او ر پرکھا جائے یا تحقیق کی جائے تو بلوچ ثقافت کی بے شمار نقطے اس قوم میں اپنی صدیوں سے قائم اپنی خوبصورتی اور افادیت کے ساتھ موجود ہیں۔ جہاں ہم نے ملک میں پائے جانے والے رویوں اور نظر انداز کئے جانے والی پالیسیوں اور اقدامات کو تحقیق کرنے والوں کی رائے میں رد کیا بالکل اسی طرح آج بلوچ نوجوان ، ادیب ، صحافی ، دانشور اور سیاست کو چاہئے کہ وہ زندگی کے دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بلوچ ثقا فت کی ان پہلو?ں کو بھی اپنی تحریر اور تقریر میں واضح اور ٹھوس بنیادوں پر بیان کریں۔تاکہ آج اور آنے والی نسلیں اپنی ان قیمتی اثاثوں کے متعلق جان سکیں اور اْن کو اسی حالت میں اچھے اور مثبت انداز میں آگے بڑھا سکیں۔
دوسری جانب ایک بڑی ذمہ داری آج کے محقق اور طالب علم پر یہ آتی ہے کہ وہ ان تاریخی نقطوں کو دیکھیں جانیں اور پڑھیں اور جہاں اْن تشنگی محسوس ہوانہیں کتابوں اور تاریخی حوالے سے معلومات رکھنے والے اور خصوصی طور پر دیہی لوگ جو کہ اصل میں شہری لوگوں سے زیادہ ان ثقافت کو زندہ رکھنے کا امین ہوتے ہیں ان سے بالمشافہ مل کر اور جان کر ان کو اپنی تحریروں کے ذریعے محفوظ کریں۔