بلوچی اور براہوئی زبان بولنے والوں کا معاشرتی مماثلت

ڈاکٹر زاہد دشتی
بلوچی اور براہوئی بولنے والوں کا سب سے بڑا مسکن پاکستان کا صوبہ بلوچستان ہے جو سیاسی اور جغرافیائی لحاظ سے اس خطے کا سب سے اہم اور حساس ترین صوبہ ہے۔ جو سندھ وپنجاب کے مغرب ایران کے مشرق اور افغانستان کے جنوب میں 3 لاکھ47ہزار کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔وقت کے ساتھ یہاں پر مختلف اقوام اور زبانوں کے لوگ آکر آباد ہوگئے۔اس مقالے میں بلوچستان کے دو بڑی زبانوں بلوچی اور براہوئی بولنے والوں کے معاشرتی مماثلت پر نظر دوڑائیں گے۔ اور محققین اور دانشوروں کی مختلف رائے شامل کریں گے۔ اس سے پہلے کہ ہم بلوچی اور براہوئی بولنے والوں کی معاشرتی مماثلت کی بات کریں آئیں ان کے مسکن بلوچستان کی بات کریں۔ جہاں تک اس کی قدرتی تقسیم ہے اس میں بلوچستان جغرافیائی لحاظ سے لق و دق صحرائوں، چٹیل میدانوں اور پر شکوہ پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ بلوچستان کا وسطیٰ علاقہ کوہستانی سلسلوں پر محیط ہے جبکہ کچھی، سبی اور نصیر آباد ایک وسیع و عریض میدان میں پھیلے ہوئے ہیں اور ضلع چاغی کی جانب سرحدی علاقہ بے آب و گیاہ صحرا اور لق و دق ریگستان ہے۔ کوہ سلیمان جو بلوچستان کو پنجاب اور شمال مغربی سرحدی صوبہ سے جد اکرتا ہے ڈھائی سو میل لمبا ہے۔ یہ پہاڑ کئی سلسلہ ہائے کوہ پر مشتمل ہے اور اس کی سب سے بلند چوٹی تختِ سلیمان سطح سمندر سے گیاہ ہزار دو سو بانوے فٹ بلند ہے۔ کوہ چلتن جو اسی سلسلے کی ایک پہاڑی ہے اس کی بلندی دس ہزار چا رسو اسی فٹ ہے۔ کوہ بروہی وسطیٰ، جس کے سلسلے ساراوان اور جھالاوان کی جنوب مشرقی اور مشرقی سمت میں تقریباً شمالاً جنوباً پھیلا ہوا ہے دو سو اسی میل لمبا ہے اور بلوچستان کے مشہور درے بولان اور مْولا اسی پہاڑ کے سلسلوں میں واقع ہے۔ اس کی مشہور بلند چوٹیوں میں زرغون سطحِ سمندر سے گیارہ ہزار سات سو اٹھاسی فٹ، خلیفت گیارہ ہزار چار سو فٹ، زرگٹ گیارہ ہزار دو سو انچاس فٹ، ماران دس ہزار سات سو تیس فٹ بلند ہے۔
اسی طرح کیر تھر کا سلسلہ کوہ، پب کا سلسلہ کوہ، سلسلہ کوہ سیاہان، راسکوہ، کوہ وسطیٰ مکران، کوہ توبہ کے سلسلے جبکہ دروں میں بولان درہ، مولہ کا درہ.. دریائوں میں ہنگول ناڑی ندی رخشان، دشت کور، لوہڑہ، دریائے ژوب، بولان ندی، مولہ دریا زہری، حب دریا، دریائے پورالی، دریائے لہڑی، دریائے بڈو … بندر گاہوں میں سونمیانی، اورماڑہ، بندرگاہ کلمت، پسنی بندرگاہ، گوادر بندر گاہ… پیشے جو کہ بلوچستان یا بلوچی اور براہوئی بولنے والوں نے اختیار کئے ہیں۔ ساحلی قصبوں کی آبادی کا بیشتر حصہ کا پیشہ ماہی گیری جبکہ اندرون بلوچستان کے لوگ مالداری، کاشتکاری، دستکاری اور ملازمتوں سے وابستہ ہیں۔ بلوچستان میں بیش بہا قیمتی معدنیات پائے جاتے ہیں جن میں بیرائٹ، کرومائٹ، سنگ مرمر، فلورائٹ، مینگانیز، سْرمہ، تانبا، میگنا سائیٹ، کوئلہ، جپسم، گندھک، تیل اور قدرتی گیس، کھریا مٹی شامل ہیں۔
جہاں تک بلوچی اور براہوئی زبان بولنے والوں کے روزگار، سیاست، ثقافت اور ادب کو دیکھا جائے تو اس سے قبل دونوں نے خانہ بدوشانہ زندگی گزاری ہے۔ خاص کر براہوئی بولنے والے گرمیوں میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں رہائش اختیار کرکے اپنی زمینداری، مال مویشی میں زندگی گزارتے ہیں۔ جبکہ سردیوں میں یہاں سخت سردی پڑتی ہے۔ ماضی اور موجودہ دور میں یہاں پر گیس اور ایندھن کے دیگر ذرائع ناپید ہونے کے سبب تو وہ مجبوراً سندھ کی طرف بولان کے راستے ہجرت کرتے ہیں۔
ہجرت یا خانہ بدوشانہ زندگی میں سفری سہولیات نہ ہونے اور سفر کے دوران بارشوں کے آگھیر لینے سے بہت تکلیف اْٹھاتے ہیں۔ ان کے مال مویشی جن میں اونٹ کو وہ اپنے سامان اٹھانے کے لئے اور دیگر بھیڑ بکریوں کو اپنی گزر بسر کے لئے ساتھ رکھتے ہیں اور ان کی حفاظت کرتے ہیں۔ ان کی خوراک کے لئے وہ راستوں میں سبزہ وغیرہ جبکہ پڑائو کی جگہ پر کٹے ہوئے فصل کی باقیات کو خرید کر یا انسانی ہمدردی کے تحت حاصل کرکے اپنی مال مویشی کو چراتے ہیں۔
بلوچی اور براہوئی معاشرے کی تہذیبی رنگ اپنی خوبصورتیاں لئے دنیا کے لئے منفرد بنتے جارہے ہیں۔ محفلوں میں، ادب، سیاست، ثقافت اور سیر و تفریح کی گفتگو انسانی ذہن کو ترو تازہ کرتی ہے۔
بلوچی ثقافت کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر تحریر کرتے ہیں۔
’’بلوچی ثقافتی اقدار میں ان روایات کو بہت اہمیت حاصل ہے جن کی بنا پر بلوچوں کا نہ صرف الگ تشخص قائم ہے بلکہ دیگر ہمسایہ اقوام میں یہی اقدار اگر موجود بھی ہوں تو اس قدر شدت سے نہیں پائی جاتی جس قدر بلوچوں کے ہاں ہوتی ہیں۔ ان میں باہوٹ کی حفاظت، مہمان نوازی، انتقام جوئی، بہادری اور میدان جنگ میں بھاگنے سے گریز وغیرہ شامل ہیں‘‘ ( ۱)
بلوچی اور براہوئی زبان کے بارے میںعبدالقیوم بیدار اپنی کتاب ’ ’ براہوئی زبان و ادب ، ایک جائزہ ‘‘ میں اظہارِخیال کرتے ہیں۔
’’ بلوچی ، بروہی ، مری ایک ہی نسل کے لوگ ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی زبانوں میں اختلاف ہے۔ اس سلسلے میں جب تاریخ کے عمل او ر رد عمل پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ دو چیز ہیں ، ایک نسل ہے ایک زبان ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ نسل نہیں بدلتی اور زبانیں بدل جاتی ہیں۔ ایک ہی نسل کے لوگ جب مختلف تاریخی عوامل کے ہاتھوں مختلف ممالک میں سکونت اختیا ر کرتے ہیں تو ان ممالک کی بولیاں بولنے لگتیہیں‘‘(۲)
دور جدید میں انسانیت کی معراج یہی ہے کہ تمام انسانوں کے درمیان فرق کو ختم کیا جائے مگر یہ ایک کائناتی حقیقت بھی ہے کہ ہر گروہ اپنے گروہ کے لوگوںکے ساتھ تعلقات بناتا ہے اور انہی کے مقصد کا خیال رکھتا ہے۔ اگر ہم اس سلسلے میں براہوئی بلوچ معاشرے کی مماثلت کی بات کریں تو ان کی زبان ،ثقافت اور ادب کے درمیان بہت مماثلت پایا جاتا ہے ۔براہوئی زبان کی ابتداء اور سفر کی بات کرنالازمی ہیکیونکہ یہی چیز دونوں کی اہمیت کو دنیا میں اجاگر کرتا ہے۔ اور اس سلسلے میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی اور علمی
او رادبی تحقیق کی ضرورت ہے۔ کامل شاہ قادری اپنی کتاب’’ جواہرات براہوئی ‘‘ میں براہوئی زبان کی ابتداء کے بارے کہتے ہیں کہ
’’براہوئی زبان کے آغاز کا نظریہ محض ایک علمی بحث کی حیثیت رکھتا ہے۔ ابھی اس نظریے کی صحت سے متعلق وثوق کے ساتھ کوئی رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ جہاں تک اس زبان کے موجودہ مواد کا تعلق ہے۔ اتنا اشارہ کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اس کے ذخائر مطالعہ اور اس کی کوتاہیوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے منظم علمی مجاہدے کی ضرورت ہے۔ ‘‘(۳)
ڈاکٹر عبدالرزاق صابر اپنی پی ایچ ڈی مقالہ ’’ بلوچی او ربراہوئی زبانوں کے روابط ‘‘ میں براہوئی اور بلوچی ثقافت کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں۔
’’بلوچی اور براہوئی ثقافت میں تمام اقدار (سوائے بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں آباد بلوچ قبائل کے رسم و رواج میں سے چند ایک کے) تقریباً مشترک ہیں۔ لہذا جسے براہوئی ثقافت کہاجاتا ہے وہ در اصل بلوچی ثقافت ہے او رجو بلوچی ثقافت ہے وہی براہوئی ثقافت ہے۔ اس مشترکہ ثقافتی ورثے کو’’ بلوچیت ‘‘کا نام بھی دیا جاتا ہے ‘‘(۴)
جب ہم سائنسی اور جدید دور کے مطالعے اور تحقیق کو سامنے رکھتے ہیں تو بلوچستانی معاشرہ ( بلوچی اور براہوئی ) کے متعلق یہ تجزیہ کیا جاسکتا ہے کہ انھوں نیاپنی سفر میں کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں۔ مگر اس خطے کی معاشروں اور اس سرزمین پر زمین کی سفر کے متعلق جو رائے ہیں اس میں سب کا اتفاق اس بات ہے کہ بہت سے تہذیبوں اور معاشروں کی طرح یہ بھی انتہائی قدیم ہے۔
بلوچی اور براہوئی معاشرے کی قدیم تاریخ اور اس کی مزید وضاحت نذیر شاکر براہوئی اپنی کتاب ’’ بلوچ اور براہوئی ‘‘ میں اسطرح کرتے ہیں۔
’’ہم سمجھتے ہیں کہ اسم براہوئی یا بروہی در اصل بلوچی لفظ ’’ برزکوہی ‘‘ جس کے معنی ہیں ’’ اونچے پہاڑوں کے رہنے والے ‘‘ کی بگڑی ہوئی صورت ہے۔ براہوئی دراصل ان کوشانیوں کی اولاد ہیں جو کہ کوچ و بلوچ کہلاتے تھے اور جو ایران کے مشہور پہاڑ البرز کے گرد و نواح میں آباد تھے۔ او ربقول فردوسی جن پر نوشیروان بادشاہ نے فوج کشی کی او ر ان کا قتل عام کیا ‘‘ ( ۵)
براہوئی اور بلوچی زبان کی مماثلت میں یہ بھی انتہائی اہم خصوصیت ہے کہ دونوں کا تقریباً ایک ہی جغرافیہ میں پڑائوہیں جہاں وہ اپنی سیاسی ، ثقافتی ، تاریخی ، ادبی اور تہذیبی سفر کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دونوں زبان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد کا ایک دوسرے کے ساتھ خصوصی تعلق ہے۔ اس حوالے سیخصوصی طورپرادبا ئ کا ذکر کرنا ضروری ہیں۔جو ایک دوسرے کے کتابوں کی تقریب رونمائی ، مشاعرہ اور مذاکروں میں شرکت کرتے ہیں اور اپنے مقالے اور شاعری سناتے ہیں۔ایک سلسلے میں براہوئی اکیڈمی پاکستان کوئٹہ ، بلوچی اکیڈمی کوئٹہ او ربراہوئی ادبی سوسائٹی کا ذکر کرنا انتہائی ضروری ہیں۔ مذکورہ ادبی ادارے ایک دوسرے کے کتابوں کو شائع کرتے ہیں اور ادبی مواد کے حصول میں ایک دوسرے کے ادبائ اور سکالر ز کی مدد کرتے ہیں۔بلوچ اور براہوئی معاشرے کی بہت سی مماثلت پر ہم بات کرچکے ہیں۔ بلوچی او ربراہوئی بولنے والوں نے اپنی انفرادیت کو ہر جگہ برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان دونوں کے قبائل او ررسم و رواج کے متعلق بہت مقالے اور کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جبکہ بلوچ او ربراہوئی دانشور اس ضمن میں میڈیا پر گائے بگائے بحث او ر گفتگو کرتے ہیں۔ بلوچی اور براہوئی معاشرے کی آپس کی مماثلت کے بارے میں عبد القیوم بیدار اپنی کتاب ’’ براہوئی زبان و ادب ، ایک جائزہ ‘‘ میں تحریر کرتے ہیں۔
’’ مغربی بلوچستان میں بروہی اور بلوچی دونوں زبانیں یک وقت بولی جاتی ہیں۔ اگر اس بات کو تسلیم کرلی جائے کہ بروہی او ربلوچ ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں تو اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ براہوئی اور بلوچ عربی النسل ہیں او ر ان کا اصل وطن ریگستانِ عرب بحیرہ عرب کے آس پاس اور موجودہ بلوچستان ہے۔ چونکہ بلوچ او ر بروہی قدیم دور سے اپنے آبائو اجداد عربوں کی طرح بھیڑ بکریاں چراتے تھے اور چراتے ہیں۔ مختلف علاقوں میں موسم کے ساتھ ساتھ چلتے گئے او رمختلف خطوں میں جہاں انہیں پانی اور سبزہ زار نظر آیا آباد ہونا شروع ہوئے۔ اور ان کی زبان مختلف علاقوں میں مختلف زبانوں کے میل ملاپ سے متاثر ہوئی۔ بلوچی زبان میں زیادہ تر الفاظ عربی او ر فارسی کے ہیں ۔‘‘( ۶)
جب ہم اس سوچ اور خیال کو سامنے رکھ کر دیکھیں کی کس قسم کی خصوصیات ہیں جن کی بناء پر بلوچ اور براہوئی بولنے والوں کی معاشرے میں مماثلت پیدا ہوتی ہے۔ جس میں بہت اہم دونوں زبانوں کے بولنے والوں کے آپس کی تعلقات ہیں۔ ان کا مسکن اور معاشی او رسیاسی ، ثقافتی ، ادبی اور تاریخی پس منظر کے متعلق واضح طور پر کہا گیا ہے مگر بعض محققین اور دانشور ا ن کو الگ الگ زبان کے ساتھ ساتھ الگ حیثیت بھی دیتے ہیں۔ مگر مجموعی طو رپر تعلیمی دفاتر اور عام معاشرے میں بلوچ اور براہوئی ایک ہی اخلاقیات ، ثقافت اور دیگر زندگی کے اصولوں کے تحت بندھے ہوئے ہیں۔اس بندھن کے ساتھ ساتھ ان کا ادب بھی اتنا ہی قدیم ہے۔ جس پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے جو کہ مکمل محفوظ نہ ہونے کی صورت میں قیمتی خزانے کا ضائع ہونے کا خدشہ ہے اس سلسلے میں پروفیسر سوسن براہوئی اپنی کتاب’’قدیم براہوئی نثری ادب ‘‘ میں لکھتے ہیں۔
’’ خلقی ‘‘ عربی اور براہوئی کا وہ لفظ ہے جس کے معنی پیدائشی ، قدرتی یا فطری کی ہے۔اسی معنی و مطلب کے لحاظ سے براہوئیوں نے اپنی اس بنیادی او رقدیم اور پہلے دور کے ادب کو ’’ لوک ادب ‘‘ کا نام دیا۔ لوک ادب ، قدیم ماحول کا آئینہ دار ہے۔ ا س کے مطالعے سے جہاں ایک قوم کے پہلے دور کی گفتگو اور فکر کے متعلق تجزیہ کیاجا سکتا ہے وہی ان کے اخلاق ، تہذیب ، رہن سہن، رسم و رواج اور معاشی ذریعہ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ لوک ادب جیسے کہ نام سے ظاہر ہے گا?ں، جنگل ، میدان اور پہاڑوں میں پیداہوا ہے۔اس کے تخلیق کرنے والے زیادہ تر ان پڑھ، ادبی قانون سے ناواقف تھے اسی لئے اس ادب میں لفاظی اور تکلف کم ہے۔سادگی ، سچائی اور فطری جذبات نگاری زیادہ ہے۔ مگر اس تخلیق کرنے والوں کے بارے میں وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔براہوئی لوک ادب کا خلق پوری براہوئی معاشرہ ہے۔ اس کو تحریری صورت میں بڑی دیر کے بعد لایا گیا۔نہ صرف براہوئی لوک ادب بلکہ عام براہوئی ادب بھی براہوئی حکمرانوں اور اعلیٰ طبقات سے پذیرائی نہ پا سکا۔یہی سبب ہے کہ براہوئی ادب نیکا اپنی میراث کو عام لوگوں ، چرواہوں ، کسانوں نے سینہ در سینہ ہم تک پہنچایا بصورت دیگر بہت سارا خزانہ محفوظ نہ ہونے کی وجہ سے مدفون ہوگیا۔ ‘‘( ۷)
بلوچ اور براہوئی ثقافت کے مشترکہ اقدار کے حوالے سے پروفیسرڈاکٹر عبدالرزاق صابر تحریر کرتے ہیں۔
’’زمانہ قدیم سے ایک دوسرے کے ہمسایہ ہونے کے ناطے جہاں بلوچی اور براہوئی زبانوں نے ایک دوسرے پر گہرے اثرات مرتب کئے ہیں اسی طرح دونوں زبانوں کے بولنے والوں کی ایک دوسرے سے نسلی ، تاریخی اور جغرافیائی روابط ہے۔ نہ صرف دونوں کا ثقافت متاثر ہوا ہے بلکہ ایک ہی مشترک ثقافت نے جنم لیا ہے جو دونوں زبانوں کے بولنے والو ں کے ہاں یکساں طور پر مروج ہے۔ جدید تاریخی حوالے سے بلوچ اور براہوئی دونوں زبانوں کے بولنے والوں کو کرد بتاتے ہیں او راس سلسلے کی ایک اہم تاریخی دستاویز’’ کورد گال نامک ‘‘ نہ صرف کرد قبائل کی تاریخی حیثیت کو واضح کرتی ہے بلکہ ان کے رہن سہن اور طرز معاشرت پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالتی ہے اور تقریباً ان تمام رسوم و رواج کا بھی ذکر کرتی ہے۔ جو موجودہ وقت میں بھی بلوچ اور براہوئی قبائل کے ہاں یکساں طور پر مستعمل ہیں۔ ‘‘ (۸)
جہاں تک بلوچی کا تعلق ہے صوبے کے نام کے لحاظ سے بلوچ آبادی نے اپنی زندگی اور معاشرے کی خصوصیات کو نہ صرف برقرار رکھا ہے بلکہ موجودہ دور کے سائنسی اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کر رہی ہے۔ اس زبان کے ادب اور ثقافت دنیا کے گلوبل ویلج بننے کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے زیادہ سے زیادہ تحقیق اور کام کی ضرورت ہے۔ جب ہم براہوئی زبان کی بات کرتے ہیں تو یہاں یہ بات کرنا انتہائی ضروری ہے۔ کہ براہوئی زبان کے بارے میں بہت سارا تحقیقی کام ہوچکا ہے۔
کسی بھی زبان کے الفاظ کے ذخیرہ کو محفوظ رکھنا جہاں اْس دور کے ادیبوں اور محققین کی ذمہ داری ہے۔ وہیں کسی زبان کے حوالے سے کام کرنے والے اداروں کا بھی اتنا ہی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے نہ صرف کام کریں بلکہ وہ نوجوان اسکالرز کو وہ تمام مواقع مہیا کریں جو آگے چل کر زبان و ادب کی معدومیت کے خطرات سے نمٹنے کے لئے اپنی صلاحیتیں بروئے کار لا کر اْس زبان و ادب کو زندہ و جاوید رکھ سکیں۔
بلوچی اور براہوئی زبان و ادب کے لئے موجودہ دور میں کئی شخصیات اپنی بساط کے مطابق اور ادبی ادارے اپنے محدود وسائل کے اندر رہتے ہوئے کتابیں شائع کر رہے ہیں۔ مذاکرے منعقد کر رہے ہیں اور آنے والی جدید دور کے تقاضوں کے مطابق زبان و ادب میں نئی نئی اصطلاحات متعارف کروارہے ہیں۔
اس سلسلے میں جب ہم براہوئی زبان و ادب کے حوالے سے باقاعدہ کام کے شروعات کا جائزہ لیتے ہیں تو اس سلسلے میں ہمیں مکتبہ درخانی کا انتہائی اہم کردار نظر آتا ہے۔ جن کی اْس وقت وسائل کی کمی جیسے پریس ،کتابت اور تقسیم کے باقاعدہ سہولیات نہ ہونے کے باوجود اپنی خدمات سر انجام دی۔اور نہ صرف انہوںنے مردوں کے تخلیقات اور تحقیق کو سامنے لایا بلکہ انہوں نے خواتین کے حوالے سے نہ صرف کئی نام سامنے لائے بلکہ ان خواتین نے آگے چل کر براہوئی زبان و ادب کے تاریخ میں اہم نام بن گئے۔
’’بلوچستان میں بلوچ ، براہوئی ، جدگال اورپشتون قبائل کے علاوہ ہندو بھی سکونت پذیر ہیں جو یہاں کے قدیم باشندے ہیں۔ انگریزوں کی آمد کے ساتھ ساتھ یہاں پنجابی ،اردو اورفارسی بولنے والے افراد زیادہ تر ملازمت او رتجارت کے سلسلے میں آئے اور پھر ان کی تعدا دمیں اضافہ ہوتا گیا۔فارسی بولنے والوں میں دہوار یہاں کے اصل باشندے ہیں جبکہ مغل نسل کے ہزارہ لوگ عبدالرحمن خان امیر کابل کے خلاف بغاوت میں شکست کھانے کے بعد ہجرت کرکے یہاں آئے اور زیادہ تر کوئٹہ شہر میں آباد ہوئے۔ ‘‘ ( (9
یہاں کے ادب پر وقت کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کی زبانوں کے اثرات مرتب ہورہی ہیں ساتھ ساتھ یہاں کے مقامی زبانوں کے اثرات سے بھی براہوئی زبان بچی نہیں۔ مگر جہاں تک لوگوں کی بات ہے وہ گا?ں اور میدانوں میں رہنے والے وہ باشندے ہیں جنہوں نے اپنی زبانوں کو ان اثرات سے محفوظ رکھا ہے بلکہ وہ اپنی زبان کے قدیم خزانے کو بھی محفوظ رکھے ہوئے ہیں۔ آج بھی گا?ں اور ویرانوں میں رہنے والے خانہ بدوش افراد روز مرہ زندگی میں نہ صرف خالص براہوئی زبان بولتے ہیں بلکہ وہ ضرب الامثل کو بھی اپنی گفتگو میں زندہ رکھے ہوئیہیں اور اگر کوئی مہمان شہر سے ان کے پاس جاتا ہے تو وہ نہ صرف وہ ان خزانوں کے متعلق بتاتے ہیں بلکہ یہ بھی کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ ان کے آبائو اجداد نے براہوئی ضرب الامثل کو کس طرح تخلیق کیا اور کس طرح ان کو زندہ رکھا۔ اس لئے ضرورت آج پھر ان ادبی اداروں ، دانشوروں اوران حضرات کی ہے جو اپنی زبانوں سے محبت کرتے ہیں اور ان کو صاف اور اصل حالت میں سننا اور پڑھنا پسند کرتے ہیں ان کی ذمہ داری ہے وہ اپنی وسائل یا مختلف اداروں کی معاونت سے لوک ادب کے خزانے کو محفوظ رکھنے کے لئے اقدامات کریں۔جیسے کہ ہم جانتے ہیں کہ پوری دنیا میں ہر قوم نے اپنے ادب خاص کر لوک ادب کے حوالے سے مختلف تحقیق اور کوششیں کی۔ مگر انسانی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہرزبان کی تخلیق اور اس کی تاریخ بہت ہی پرانی ہے۔
بحث کو اگر آگے لے جاکر یہاں پر عبدالقیوم بیدار کے ’ ’ براہوئی زبان و ادب ، ایک جائزہ ‘‘ میں ایک تحریر کا جائزہ لیں تو ہمارے لئے مزید آسانی ہوگی۔
’’ تاریخ مردوخ کے مصنف اور میر گل خان نصیر کی رائے میں بہت قریبی مماثلت پائی جاتی ہے۔ تورانی اور کوشانی دونوں قبائل نے مرکزی ایشیائ سے جنوبی علاقوں میں نقل مکانی کرکے اپنی حکمرانیاں قائم کی تھیں۔ او ر دونوں کا قبضہ تاریخی دستاویزات کی رْو سے بلوچستان پر ثابت ہے۔ لہذا ان شواہد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ براہوئی زبان مرکزی ایشیائ کے تورانی زبانوں کے خاندان سے ہے۔ نہ کہ دراوڑی زبانوں کے خاندان سے۔ اصلی براہوئی زبان اس وقت سے فارسی زبان سے متاثر ہوئی جبکہ 853 سال قبل از میسح براخوئی کردوں نے بلوچستان میں سکونت پذیر ہوکر اپنی حکومت قائم کرلی۔ اور اصلی تورانی قبائل ان میں مدغم ہوگئے۔اور انہوں نے اس ادغام سے موجودہ براہوئی زبان کو جنم دیا۔ کیونکہ کْردی زبان خود قدیم فارسی یعنی پہلوی زبان کی ایک شاخ ہے۔ جس کے الفاظ اب بھی کردی اور بلوچی زبانوں میں اپنے اصلی حالت میں محفوظ ہیں‘‘(۰۱)
بلوچستان کے باشندے چاہے جو بھی ان کو اپنے لوگوں کی زیادہ سے زیادہ سے زیادہ خدمت کرنی چاہئے اور زیادہ سے ادب اور ثقافت او رتاریخ کے حوالے سے اپنی خدمات کو سامنے لانا ہوگا۔ مقالے کے اس حصے میں ہم نے جائزہ لیا کہ بلوچ اور براہوئی معاشرے کے حوالیجتنے بھی خاص کام ہوئے تھے ان کو ا?گے لانا چاہے۔ مگر ایک چیز کہنا انتہائی ضروری ہے۔ اس ضمن میں اس بات کا ذکر ضروری ہے دونوں زبانوں کے بولنے والے ایک ہی خطہ زمین پر آباد ہونے کی وجہ سے اپنی معاشرتی عوامل پر بہت حد تک اثرات ہوئے اور تقریباً تمام شعبوں میں یکتا نظر آتے ہیں۔ مگر کچھ لوگ دونوں زبانوں کے معاشرے اور زبانوں کے حوالے سے اپنی اپنی خیالات رکھتے ہیں جوکہ ایک فطری عمل ہے مگر ایک ہمسایہ او ر برادر زبان ہونے کی وجہ سے ہمیں ایک دوسرے کے ادب اور ثقافت پر زیادہ سے زیادہ تحقیقی کام کرنا چاہئے تاکہ ہم تاریخ میں زندہ رہ سکیں او رہماری آنے والی نسلیں ہم یہ الزام نہ لگائیں کہ ہم آپسی اختلافات کی بنا پر اپنا بہت سارا توانائی ضائع کیا بلکہ مثبت اور نتیجہ خیز قدم اٹھا کر ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔
’’بلوچی اور براہوئی بولنے والے قبائل تاریخ کے مختلف ادوار میں کہیں کوچ و بلوچ کی صورت میں ، کہیں براخوئی اور زنگتہ یا ادرگانی کی صورت میں اور اب بلوچ کانفیڈریسی کی صورت میں ایک دوسرے کے شانہ بہ شانہ رہتے چلے آرہے ہیں۔ اس تمام تاریخی اور تہذیبی سفر میں نہ صرف ان دونوں زبانوں کے بولنے والوں کے رسم و رواج نے مشترک صورت اختیار کرلی ہے بلکہ ان رسوم کے بیشتر نام بھی دونوں زبانوں میں مشترک ہیں۔ جس کی وجہ سے دونوں زبانوں میں مشترک ثقافتی لفظ کا ایک وافر ذخیرہ تشکیل پا چکا ہے۔ ان الفاظ میں سے اکثر کے ماخذ کے بارے میں بتانا مشکل ہے کہ اس لفظ کا اصل ماخذ بلوچی ہے یا براہوئی ، اس کے علاوہ دونوں زبانوں نے ایک دوسرے سے مستعار لئے ہوئے الفاظ میں اپنے اپنے صوتی مزاج ، اور ضرورتوں کے تحت صوتی اور ترکیبی تبدیلیاں بھی لائی ہیں۔( ۱۱)
بلوچ ثقافت پر بلوچ ثقافت کی بنیاد واساس ،محبت انسان دوستی ، احترام وعزت یکجہتی خوشی و تفریح کے طرز پر قائم ہے جو کہ بلوچ قوم کے لئے باعث فخر ہے اور پاکستانی کلچر کے خوبصورت اجزائ ہیں۔بلوچ ثقافت مادی او رغیر مادی لحاظ سے بہت امیر ہے بلوچ ثقافت کی پہچان اور اس کے اہم اجزائ اور تاریخی حوالے اور مختلف ماہرین ،تاریخ دان اور دانشوروں او رادیبوں کے اس حوالے سے رائے کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔
بلوچ زبان :۔
زبان ایک متحد معاشرہ کی تشکیل و علامات کا اہم جزو ہے بلوچی زبان ایک قدیم زبان ہے یہ زبان ایران کی قدیم زبان پہلوی او راوستا زبان کی ہم عصر ہے یہ بات تحقیق کے بعد منظر عام پر آئی ہے بعض نے بلوچی زبان کی قدامت کو برداشت نہ کرکے یہ رائے سامنے لائے کہ بلوچی فارسی کا کوئی مسخ شدہ حصہ و شکل ہے لیکن یہ خیال و رائے سراسر بے بنیاد ہے اس بات پرکوئی شک نہیں کہ بلوچی نے دوسری زبانوں کے ساتھ یکجا و اکٹھاہونے کے سبب کبھی بخل و کنجوسی کام نہیں لیا بلکہ دوسرے زبانوں سے کچھ الفاظ محاورے و اصلاحات اسی طرح بہت کچھ اس نے زبانوں کو دیا ہے مورخین کے مطابق بلوچوں کا تاریخی عہد تین ادوار پر مشتمل ہے پہلا دور اس کے جنوبی عرب ، دوسرا ایران و سیستان اور تیسرا دور حال ان تینوں ادوار کے اثرات زندگی کے دوسرے پہلو?ں کے ساتھ زبان پر بھی پڑے۔
بلوچی زبان یوں تو خلیجی ممالک ، ترکمانستان ، افغانستان ، ایران او ر پاکستانی بلوچستان میں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ بلوچی زبان کے ساتھ یہاں ( بلوچستان میں ) دیگر زبانیں بھی بولی جاتی ہیں۔
نتائج
ایک قوم کے مختلف زبان یا ثقافتی اثاثہ کا متفرق ہونا کوئی انہونی یا نئی بات نہیں،اسی طرح بلوچ قوم بہت قدیم قوم ہے۔اْنھوں نے زمانیکے بہت منازل طے کئے ہیں۔اوراس سفر میں بہت لسانی و ثقافتی اثرات پائے ہیں۔ اس مقالے سے یہ بات واضع ہوئی کہ بلوچی و براہوئی بولنے والے ایک قوم یعنی بلوچ کے دو بڑی ا?بادی ہیں۔دونوں کی الگ زبان ہیں لیکن معاشرتی و ثقافتی حوالے بہت مماثلت پایا جاتا ہے۔
حوالہ جات
۱۔صابر،ڈاکٹرعبدالرزاق (1994)بلوچی اور براہوئی زبانوں کے روابط،غیر مطبوعہ،پی ایچ ڈی مقالہ،ص،۹۲۳
۲۔ بیدار،قیوم(1986) براہوئی زبان وادب ایک جائزہ،براہوئی ادبی سوسائٹی کوئٹہ،ص،۱۴
۳۔ قادری،کامل شاہ (2010) جواہرات براہوئی،براہوئی اکیڈمی پاکستان کوئٹہ،ص،۷۱
۴۔ صابر،ڈاکٹرعبدالرزاق (1994)بلوچی اور براہوئی زبانوں کے روابط،غیر مطبوعہ،پی ایچ ڈی مقالہ،ص،۱۳۳
۵۔ براہوئی،نذیر شاکر (2015) براہوئی و بلوچ،براہوئی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ پاکستان،ص،۸۲
۶۔ بیدار،قیوم(1986) براہوئی زبان وادب ایک جائزہ،براہوئی ادبی سوسائٹی کوئٹہ،ص،۲۴-۳۴
۷۔ براہوئی، پروفیسر سوسن(2016) ’ ’ براہوئی قدیم نثری ادب ‘‘ براہوئی اکیڈمی ( رجسٹرڈ ) پاکستان کوئٹہ،ص،۹۱
۸۔ صابر،ڈاکٹرعبدالرزاق (1994)بلوچی اور براہوئی زبانوں کے روابط،غیر مطبوعہ،پی ایچ ڈی مقالہ،ص،۳۳۳
۹۔ بیدار،قیوم(1986) براہوئی زبان وادب ایک جائزہ،براہوئی ادبی سوسائٹی کوئٹہ،ص،۹
۰۱۔ ایضّا،ص،۱۳
۱۱۔صابر،ڈاکٹرعبدالرزاق (1994)بلوچی اور براہوئی زبانوں کے روابط،غیر مطبوعہ،پی ایچ ڈی مقالہ،ص،۶۵۳