تو کون ، میں خواہ مخواہ

انور رخشانی

م ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں ہر ایک کو اپنے کام کے علاوہ ہر اس کام میں دلچسپی رہتی ہے جس سے اسکا دور دور تک واسطہ نہ ہو۔ کسی پر بھی تنقید کرتا ہے تبصرے کرتا ہے کوئی اُس کی ُسنے نہ ُسنے اِس کی باتوں سے کسی کو فرق نہ بھی پڑھتا ہو اسکی بات کو کون کتنا اہمیت دیتا ہے یہ بھی سوچنے سمجھنے سے قاصر رہتا ہو لیکن پھر بھی وہ ہر میدان میں، تو کون ، میں خواہ مخواہ، بنا رہتا ہے۔ اگر کسی کو اپنے کام کے علاوہ کسی اور کام میں مہارت حاصل ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ وہاں مثبت کردار نبھائے۔

آج کل پاکستان میں ایک ترک ڈرامے کا چرچہ ہر زبان زد عام ہے اس ڈرامے میں ایک حقیقی اسلامی تاریخ کو ڈرامے کی شکل دی گئی ہے تیرہویں صدی میں ایک ترک جنگجو قائی قبیلہ جو کہ پہلے اپنے سردار سلمان شاہ اور بعد میں سلمان شاہ کے بیٹے ارطغرل غازی کی سربراہی میں نہ صرف صلیبی قوتوں اور منگولوں کے خلاف صف آراء رہتے ہیں بلکہ قائی قبیلے سمت مختلف ترک قبائل میں چھپے اُن افراد کے خلاف بھی نبردآزما ہیں جو اقتدار اور مراعات کی خاطر اپنے ہی لوگوں اور قبیلوں کو جانی اور مالی نقصان پہچانے کے لیے صلیبی اور منگولوں کے آلہ کار بنے ہیں اور یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہتی ہے جب تک سلمان شاہ کے پوتے اور ارطغرل غازی کے بیٹے عثمان سلطنت عثمانیہ کا قیام میں عمل میں لاتے ہیں۔
اس ڈرامہ میں جہاں حقیت سے قریب تر ہونے اور سلطنت عثمانیہ کی بنیاد رکھنے کی تاریخ کو ڈرامائی انداز میں پیش کیا گیا وہ قابل تعریف ہے ساتھ ہی یہ بھی طے شدہ ہے کہ یہ ڈرامہ ان چند ایک ڈرموں میں سے ہے جسے کو کوئی بھی اپنے فیملی کے ساتھ دیکھنے میں کوئی آر محسوس نہیں کرتا۔
مجھ سمت اکثر بلوچستان خاص کر بلوچ قوم کی اس ڈرامے میں دلچسپی کی ایک وجہ تو بحثیت مسلمان ایک عظیم مسلم سلطنت کے لئے ایک عظیم سپہ سالار کی بہادر اور شجاعت کی داستان ہے تو دوسری جانب اس ڈرامہ میں کچھ اسے چیزیں بلوچ قوم کے دلچسپی کا باعث بن رہے ہیں جو کہ بلوچ قوم کی تاریخ سے ممانعت رکھتے ہیں چونکہ تاریخ سے نابلد ہونے کی وجہ سے شاید میں ان چیزوں کی تاریخی اہمیت کو بیان نہ کرسکوں خاص کر جب کچھ سینئر کالم نگار اس بارے میں اپنی اعلی تحقیق کے زریعے اپنے خیالات اپنی تحریروں میں قلم بند کرچکے ہوں یقینا ان اعلٰی قلمی ذوق رکھنے والوں کے سامنے میں تاریخی اعتبار سے کچھ لکھنے سے قاصر ہوں۔

ارطغرل غازی ڈرامہ میں میرے دلچسپی کا باعث بنے والے چند ایک چیزیں جو مجھے اس ڈرامے کے ہر قسط کے اگلی قسط دیکھنے پر مجبور کررہیں وہ ایک تو ڈرامے میں مسلم روایات کی پاسداری ، رہین سہن ، لباس ، اپنے شمیشر کے ذریعے انصاف بہادری شجاعت اور اسلام کی سربلندی کے لئے شہادت کے اعلی درجے پر فائض ہونے کے لئے کسی بھی قربانی سے درغ نہ کرنا شامل ہے۔

پھر بحثیت بلوچ میرے دلچسپی کا باعث ڈرامے میں خواتین کے لئے ڈیزائن کیا گیا مخصوص لباس ہے۔ جس خطے میں بلوچ آبادی ہیں غالبا اس خطے میں خواتین کے لئے اس طرح کی مخصوص لباس صرف بلوچ قوم کے خواتین ہی زیب تن کرتی ہیں گوکہ داڑھی پگڑی اور تلوار کو بھی بلوچ ثقافت کا. حصہ سمجھا جاتا ہے جو ترک ڈرامے کا حصہ ہیں لیکن داڑھی پگڑی اور تلوار دیگر کئی مسلم اقوام کے ثقافتی ورثے میں شامل ہیں۔ اور ساتھ ہی اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بلوچ ایک بہادر اور باوقار قوم ہے اور اکثر بلوچ تاریخ پر تحقیق کرنے والوں کی رائے اس حد تک کافی متفق ہے کہ بلوچ قوم کسی زمانے میں حلب میں آبادی رہے لیکن اس پر ایک جامع تحقیق کی ضرورت ہے کہ بلوچ قوم حلب میں کب اور کہاں سے آکر آباد ہوئی اور خاص کر بلوچ قوم کی تاریخ کتنی پرانی ہے۔ یقینا اب تک بلوچ قوم جس خطے میں بھی آباد رہی ہے بدقسمتی سے پسماندگی اور شرح ناخواندگی میں اضافے کی وجہ سے بلوچ قوم کا طرز زندگی اتنا مقبول نہیں رہا کہ ترک اپنے ڈرامے میں بلوچ قوم کے ثقافت کو اپنائے۔

اس ڈرامے میں بلوچ قوم کے ثقافت سے منسلک چیزوں کے نظر آنے سے صاف ظاہر ہے کہ بلوچوں کا ترک قبائل اور سلجوق سلطنت سے قریبی تعلق رہا ہے یہ تعلق کس بنیاد پر تھا یہ ضرور حل طلب سوال ہے اور مجھے امید ہے کہ بلوچ تاریخ سے منسلک افراد اس پر ضرور کام کریں گے۔
ایک جانب جہاں اس ڈرامے کو پاکستان میں خوب پذرائی ملی تو دوسری جانب ڈرامے پر تنقید کرنے والوں کی بھی کمی نہیں میرے رائے میں یہ تنقید بلاجواز ہے کیونکہ جو بھی ہو برحال یہ ایک ڈرامہ ہی تو ہے اگر کسی کو اس ڈرامہ سے اپنے قومی تشخص کھونے کا خطر ہے تو پھر اس قوم کا قومی تشخص کا مٹ جانا ہی بہتر ہے جو محض ایک ڈرامہ بھی برداشت کرنے کا متحمل نہیں۔
اس کے علاوہ بلوچ قوم کے چند نوجوانوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر کچھ حیران کن پوسٹ میرے نظر سے گزارے جن کا موضوع تھا کہ ، ہم بلوچ کیوں ارطغرل غازی کی تاریخ پر فخر کریں ہمیں تو اپنے بلوچ قوی ہیروز پر فخر ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچ تاریخ عظیم بہادر سپوتوں سے بھری پڑی ہے۔ جن کی ایک طویل فہرست ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچ صدیوں سے اس سرزمین پر اگر آباد ہے تو اپنے اِنہی بہادر شہداء اور غازیوں کی بدولت۔ لیکن ارطغرل غازی کی شجاعت اور سلطنت عثمانیہ کا قیام مسلمانوں کی صرف اور صرف کفار کے خلاف جدوجہد کا نتیجہ ہے نہ کہ بلوچ قوم کی خلاف۔
بلوچ قوم کی بہادری دراصل اسلام کے انہی شہداء اور غازیوں کی تسلسل ہے بلوچ تاریخ اسلامی تاریخ سے وابستہ ہیں اگر ہم بلوچ قوم کی تاریخی ثقافتی اور طرز زندگی کا جائزہ لیں تو ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بلوچ قوم کی طرز زندگی ہی اصل اسلامی تاریخ و تمدن کے عین مطابق ہے۔
یعقیناَ بحثیت بلوچ ہمیں بلوچ قوم کے عظیم بہادروں اور جانثاروں سے محبت ہے لیکن یاد رکھیں اس محبت کو صرف فرضی دانشوروں کی بھنٹ چڑا کر تو کون ،میں خواہ مخواہ کا کردار ادا نہ کریں اور کسی بھی پوسٹ کو شئیر کرنے سے پہلے اس کی گہرائی پر نظر ضرور رکھیں کیونکہ اگر آج ہم بغض میں ارطغرل غازی پر فخر کرنے سے کترائیں گے تو وہ وقت بھی دور نہیں کہ ہم حضرت عمر فاروق رضہ اللہ ،شیر خدا حضرت علی رضہ اور حضرت خالد بن ولید رضہ اللہ سمت اسلام کا پرچم سر بلند کرنے والوں کی بہادری اور شجاعت پر فخر کرنے سے کترائیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں