شعور اور ہمارا معاشرہ
تحریر: ڈاکٹر عمران زمان
جب بھی اپنے ارد گرد کے ماحول پہ نظردوڑاتا ہوں تو ایک عجیب سی کفیت مجھ پہ طاری ہو جاتی ہے۔میں خیالوں میں گم ہو جاتا ہو ں کہ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جہا ں دنیا کی مختلف اقوام چاند پر ایک نئی آبادی کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں تو کئی کسی قوم نے ویران براعظم انٹارکٹیکا کو اپنا مسکن بنا یا ہوا ہے اور ادھر تک بھی وہ محدود نہیں بلکہ دن بہ دن وہ اپنے خیالات میں وسعت لا رہے ہیں۔
تو اسی جدید دنیامیں ایک معاشرہ ہمارا بھی ہے جو ہزاروں سالوں کی ثقافت اور شناخت رکھنے کے با وجود ایک پسماندہ ہے افسوس اس بات کا ہر گز نہیں کہ یہاں کے لوگ پسماندہ زندگی گزار رہے ہیں بلکہ حیرت تو اس بات پہ ہوتی ہے کہ وہ شعور اور حقیقت سے نہ آشنا ہیں۔اسی طرح وہ شعور آگاہی اور سوچنے کو گنا ہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے معاشرہ کی سوچ یہی تک محدود ہے کہ ہم جو زندگی گزار رہے ہیں یہی زندگی بہترین ہے اور عملی بھی ۔ ہم ایک غیرت کی زندگی گزار رہے اور ایک غیرت مند قوم ہیں لیکن افسوس کی ساتھ کہنا پڑتا ہے کو صرف لفظ” غیرت "نے ہم سے ہمارے کئ ہزار جوان ہم سے جدا کیے ہیں اور سوچنے والی بات یہ نہیں کہ غیرت نے ہم سے ہزاروں لال جدا کیے مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ اس لفظ” غیرت” نے ہمیں دیا کیا ہے؟
اور اسی طرح ہمارے معاشرے کو اس بات پہ بھی بیوقوف بنایا گیا ہے کہ ہماری جو حالت ہے وہ ہمارے اپنے اعمال کا نتیجہ ہیں ہم غربت کی زندگی گزار رہے ہیں تو یہ ہمارے اپنے اعمال ہیں ابھی میں اپنے اس معا شرہ کو کیسے سمجھاؤ کہ جو اقوام ترقی کر رہے ہیں یقین جانیں ان سے ہمارے اعمال دینی اور دنیاوی اعتبار سے بہت اچھے ہیں ۔ لیکن وہ پھر بھی ترقی کر رہے ہیں اور ہم پسماندہ ہیں کیوں ؟
اور لمحہ فکر تو یہ ہے کہ آج بھی ہمارا معاشرہ نت نئے ایجادات سے ناواقف ہے ہمارا معاشرہ آج بھی سائنس کو ایک عزاب سمجھتی ہے اور اس کو مغرب کی وراثت کہتے ہوئے رد کرتی ہے میں اپنے اس معاشرہ کو کیسے سمجھاو کہ سائنس کسی کی جا گیر نہیں ہے بلکہ یہ تو مشاہدات اور تجربات کا نام ہے ایک سوچ و فکر کا نام ہے اور ہمیں تو خالق نے پیدا بھی تو سوچ و فکر کے لئے کیا ہے کیوں کہ عبادت کے لئے تو فرشتے ہی کافی ہیں !!!!
جدید دنیا نئے نئے ایجادات سے استعفادہ ہو رہے ہیں لیکن ہمارے معاشرہ میں ایک دوسرے پر الزام تراشی کرتے ہوئے وقت ضائع کیا جا رہا ہے۔ آج بھی جدید ٹیکنالوجی کی آلات ہمارے گھروں اور جیبو ں میں ہیں جن کو ہم استعما ل کررہے ہیں جو کہ باھر ممالک سے آتے ییں لیکن مجال ہے کبھی بھی یہ سوچا ہو کہ ان ایجادات کو کسی باھر کہ دنیا کہ مخلوق نے نہیں بنایا بلکہ اپ کہ ہمارے جیسے کسی دماغ نے بنایا ہے۔ اور اگر وہ بنا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں ؟
میں اپنے معاشرے کو کس طرح یہ سمجاؤں کہ اس وقت جب یہ جدید دنیا،بایئولوجیکل وار ،سائبر وار ،کلون وار اور روبوٹ وار
کی تیاری کر رہی ہے تو ادھر ہمارا معاشرہ اپنے دادا پر دادا کی تلوار دیوار پر لٹکانے پر فکر کرتے ہوئے فخر کرتی ہے اور ساتھ ساتھ سنلیں انہی کے قصہ سن کر زندگی گزارتی ہے۔ میں مانتا ہوں وہ بہادر تھے مگر اب جدید دنیا کی جنگیں طاقت سے نہیں بلکہ دماغ سے لڑی جا ہنگے!!!!!
ہمارے معاشرہ میں ایک قول یہ بھی مشہور ہیں کہ یہ دنیا کافروں کاہیں ہمارا تو جنت ہیں وہ اپنے تمام ناکامی اور پسماندگی کو اس قول میں چھپانے کی ناکام کو شش کرتے ہیں ۔
اور اگر واقعی میں میں اس دنیا سے نفرت ہیں اور جنت عزیز ہیں تو زرا سا قرآن پاک خود معنی کے ساتھ پڑھ لو کہ کیا حکم آیا ہے جنت کمانے کے لیے ۔
ساقی سے لہو لعب ہمراہ ابلیس قیام
تیرا خالی نہ ہو پیما نہ کوثرکا جام
آج ہمارے معاشرے میں اگر کوئی چیز تبدیلی لا سکتا ہیے تو وہ ہے کتابیں میں اپنے تمام طالب علم اور فکر کرنےوالے دوستوں سے ایک ہی گزارش کرتا ہوں کہ اگر اپنے معاشرہ میں تبدیلی لانا چاہتےہو تو کتابیں پڑھو چاءے وہ جو بھی کتاب ہو لیکن کتاب پڑھو!! کیونکہ کتابیں ہی اپ کو حقیقت بتاہینگے وگرنہ ادھر ہر کوئی سکندر اعظم ہے ۔