بلوچ، پارلیمان، زندگی اور موت

تحریر: نصیر عبداللہ
پْرامن جدوجہد پر جب کان دھر لیئے جائیں تو بالاآخر قومیں غیر سیاسی جدوجہد کی طرف جانے پر مجبور ہوجاتی ہیں اور انہیں پھر کسی منطق سے قائل نہیں کیا جاسکتا کہ گوریلا جنگوں سے قومیں زوال پذیر ہوجاتی ہیں۔ خاص کر ایک ایسے ملک میں جہاں سیاسی و پْرامن جدوجہد بے سود ثابت ہوئی ہو۔ بلوچ قوم میں بغاوت کا مادہ پہلے سے موجود ہے اور ریاستی غیر سنجیدگی نے اِسے دوام بخشا ہے۔
مسلح لوگ انقلابی کرداروں کی مثالیں دیا کرتے ہیںکہ کس طرح گوریلا کمانڈو چے گویرا نے کاسترو کے ساتھ مل کر کیوبا کو آمریت اور سامراج سے نجات دلانے میں سالہا سال تک گوریلا جنگ لڑی، امریکی سامراج اور ملکی رجعت پرستوں کیخلاف آئینی جدوجہد کے بجائے مسلح عوامی جہاد کا راستہ اختیار کیا اور آخر انقلابی قوتوں کی اس جدوجہد نے اس کے نظریہ کو صحیح ثابت کیا کہ ظلم و استحصال کا خاتمہ کرنے کے لیے گوریلا جنگ موثر ترین ذریعہ ہے۔ اگرچہ ہم جیسے لوگ ہر کالم و آرٹیکل میں پْرامن سیاسی جدوجہد کا درس دیتے ہیں لیکن انہیں کیسے باور کرایا جائے، کیونکہ دوسری جانب وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو بیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن آج تک احتجاج میں بیٹھے لوگوں کو ریاست نے سنجیدہ نہیں لیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچوں میں 80 فیصد لوگوں کا پارلیمانی سیاست سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ جس کی دوسری بڑی وجہ لوگوں کی ووٹوں کے برعکس سلیکٹڈ قیادت کو ان پر مسلط کردینا ہے۔ اگر بلوچ قوم کی تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ بلوچ قوم لڑائی کرنے کے لیے کبھی پیچھے نہیں ہٹی ہے۔ برٹش بلوچستان کے زمانے میں بلوچستان پر انگریزی سامراج کا قبضہ کرنا بلوچ قوم کے غیر متحد ہوجانے کی وجہ سے ممکن ہوسکا ہے۔ وگرنہ بلوچ قوم ہمیشہ جنگ کے لیے تیار رہی ہے اور دوسری اہم اور تاریخی بات یہ ہے کہ بلوچ قوم جیسے پہلے تھی وہ آج ویسی نہیں ہے۔
مسلسل ظلمتوں سے گزر کر وہ ایک مضبوط و مستحکم قوم بن چکی ہے۔ بلوچوں میں صرف نظریاتی اختلافات کا عنصر موجود ہے جو انہیں الگ رکھے ہوئے ہے۔ بلوچ قوم ہمیشہ سازشوں اور چٹ پٹی باتوں میں آکر بہکی ہے۔ برٹش بلوچستان کے دور میں بھی بلوچ انگریز سامراج کی انہی لالچی باتوں میں آکر آپس میں مدلل ہوگئے جس سے وہ ان پر قبضہ پانے میں کامیاب ہوگئے۔ لیکن آج کا پڑھا لکھا بلوچ مصنوعی قیادتوں کی ان باتوں میں نہیں آنے والا۔ کیونکہ جب سے اس نے ہوش سنبھالا ہے بس قیادتوں کی باتیں سنتے آرہے ہیں۔ ان کا کوئی عملی کام دِکھتا نظر نہیں آتا۔ جعلی قیادتوں سے کام کی توقع کرنا بھی فضول ہے چونکہ ان کو مسلط ہی اس لیے کردیا جاتا ہے تاکہ ان سے اپنے حساب سے کام لیا جاسکے۔ وہ بے چارے تو خود بے اختیار ہیں اور ہر دورِ حکومت خود بے اختیاری کا راگ الاپتے ہیں۔ برِصغیر کی سرزمین آزادی کے لحاظ سے بڑی بدقسمت ثابت ہوئی ہے۔ 11 اگست کو انگریزوں کی جانب سے آل انڈیا ریڈیو سے قلات کی آزادی کا اعلان ہوا۔ پاکستان نے 14 اگست 1947 کو، 15 اگست کو بھارت نے ’’شبھ‘‘ گھڑی کے حوالے سے اپنی اپنی آزادیوں کے دن متعین کیے۔ اسی دن سے پورا برِصغیر (استخاروں، ڈنڈا، پیروں، برے اچھے خوابوں اور پنڈتوں کی ’’شبھ گھڑیوں‘‘ کے حوالے ہے) الیکشن قریب ہیں اس لیے سلیکشن کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔ تمام پارٹیاں اپنی وفاداریاں دکھانے میں لگ گئے ہیں۔ پشین گوئی کی جارہی ہے کہ بلوچستان اس بار پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دی جائے گی۔ دوسری جانب ایک اسکول آف تھاٹس یہ کہہ رہی ہے کہ چونکہ نیشنل پارٹی ن لیگ کی فیورِٹ پارٹی ہے، اس لیے ن لیگ کی کوشش یہی ہوگی کہ جیسا تیسا کرکے نیشنل پارٹی کو اقتدار دلایا جائے۔ حال ہی میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی مریم نواز سے ملاقات بڑی وائرل ہوئی تھی، جسے اس کے واضح ثبوت کے طور پر دکھایا جارہا ہے۔ بہرحال محفل دیکھ کر نہیں لگتا اختتام ہوچکا ہوگا جو بھی ہو اگر واقعی مقتدرہ حلقے بلوچستان کے حالات کو لیکر سنجیدہ ہیں تو انہیں اس بار عوامی مینڈیٹ سے آئی قیادت کو آگے آنے دینا چاہیے تاکہ بلوچ قوم میں پارلیمانی سیاست میں امید کی نئی کرن روشن کی جاسکے۔
بلوچ آج جِن حالات سے دوچار ہیں اِن کے لیے مرگ و زندگی معنی نہیں رکھتی۔ بلوچ قوم ظلم و جبر سے نبرد آزما ہوچکے ہیں۔ ریاست اب دلاسوں سے بلوچ قوم کو قائل نہیں کرسکتی۔
1995 سے لیکر آج دن تک وفاق صرف طفل، تسلی اور دلاسا دیتا رہا۔ واضح رہے کہ دلاسا دینے کی زحمت جعلی قیادتوں نے نہیں بلکہ اپوزیشن پارٹیز نے کی ہے۔ آخری بار 25 اکتوبر 2020ء کو مریم نواز ’’بلوچی دوچ‘‘ کپڑے پہن کر کوئٹہ آئی تھیں۔ لاپتہ افراد کے لواحقین سے مل کر انہیں طفل، تسلی اور دلاسا دیتی رہیں۔ انہیں اسٹیج ملا تو اس جبر و ظلم کیخلاف انہوں نے ایک دو ایک تقریر کرڈالی۔ جس پر بعد میں انہیں مقتدرہ سے معافی مانگنی پڑی۔ ایسا پہلی بار نہیں ہوا، مریم صاحبہ نے بارہا بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر پر ٹوئٹس بھی کیے جنہیں فوراً ڈلیٹ کردینے کا آدیش ہوا۔ موصوف شہباز شریف بلوچ معاملات پر پہلے ہی اپنی بے اختیاری کا اعتراف کرچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا ریاست دہائیوں سے چلتی ’’فارورڈ پالیسی‘‘ کو برقرار رکھتی ہے، یا حالات کی سنگینی کو محسوس کرکے اس کو موڈیفائی کرے گی۔ دہائیوں سے چلتی غیر سنجیدگی کا رویہ یوں برقرار رہا تو آنے والے دنوں میں بلوچستان کے حالات سنگین تر ہوجائیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں