تاریخ کا سب سے بڑا ڈاکہ

تحریر: وسعت اللہ خان
پندرہ نومبر 1884ءکو برلن میں جرمن چانسلر بسمارک کی سرکاری رہائش گاہ کے ہال میں انگریزی حرف یو کی شکل کی میز کے ارد گرد چودہ مغربی ریاستوں کے مندوب بیٹھے اور پھر اگلے 104 دن کی کاوشوں کے نتیجے میں براعظم افریقہ کے نقشے کو اسکیل اور پنسل کی مدد سے سرحدیں کھینچ کے آپس میں بانٹ لیا گیا۔
کسی افریقی کو اس کانفرنس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ زنجبار کے سلطان کی جانب سے شرکت کی درخواست کو ٹھٹھول میں اڑا دیا گیا۔ کسی قبیلے کو خبر تک نہ ہوئی کہ ہزاروں میل پرے ایک میز کے اردگرد بیٹھے چند اجنبیوں نے بنا پوچھے مصنوعی لکیریں لگا کے انہیں علاقہ بہ علاقہ قبیلہ در قبیلہ تقسیم در تقسیم کردیا ہے۔ صرف ایک ملک اس کاٹ چھانٹ سے بچ پایا۔ ایتھوپیا۔
1884ءسے پہلے تک چند ساحلی نوآبادیاں چھوڑ کے لگ بھگ 80 فیصد افریقہ میں مقامی حکومتیں تھیں۔ افریقیوں کو تب پتہ چلا جب یورپی سامراجی طاقتوں نے برلن کانفرنس میں طے کردہ جغرافیائی اکھاڑ پچھاڑ کو عملی جامہ پہناتے ہوئے خود الاٹ کردہ خطوں کا انتظام سنبھالنا اور مقامی معیشت و قدرتی وسائل کو باپ کا مال سمجھ کے برتنا شروع کیا۔ فرزندانِ زمین کی مزاحمت کو یا تو سفاکی سے کچل دیا گیا یا ترغیب، لالچ و رقابت کے ہتھیار پکڑا کے آپس میں لڑوا دیا گیا۔
مقامی ثقافت کو جبراً مغربیانے کی مہم شروع ہوئی، مقامی مذاہب و روایات و زبانوں کو گنوار اور پسماندہ ثابت کر کے سامراج پسند عقائد و ثقافت کو تھوپا گیا اور اس کے بل بوتے پر ایک مصنوعی تنگ نظر سامراج نواز شناخت و قوم پرستی ابھارنے کی کوشش ہوئی۔ کہیں یہ کوشش ناکام ہوئی تو کہیں کامیاب۔
اور پھر یہی ملغوبہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں نام نہاد آزادی کے بعد سرحدی، نسلی و اقتصادی تنازعات اور خانہ جنگیوں کی شکل میں ہمارے سامنے پھیلتا چلا گیا۔ بیشتر افریقی ممالک پر ان حکمران طبقات کا تسلط ہے جنہیں آزادی کے بعد بھی وسائل لوٹنے اور اس لوٹ میں سابق نوآبادیاتی مفادات کا حصہ الگ کرنے اور کاسہ لیسی کی پالیسی نئے لبادے میں جاری رکھنے کے لئے تیار کیا گیا تھا۔
برلن کانفرنس افریقیوں کی نظر میں کیا تھی اور ہے؟ اس بابت نائجیریا کے ایک جریدے لاگوس آبزرور نے کانفرنس کے خاتمے کے فوراً بعد لکھا کہ ’اس سے بڑا ڈاکہ تاریخ میں کبھی نہیں پڑا۔ پہلے انھوں نے ہمیں جبری غلام بنا کے باہر بیچا۔ اب غلاموں کی آبائی سرزمین کی بھی کاٹ پیٹ کی جا رہی ہے۔‘
آج برلن کانفرنس کے انعقاد کے 139 برس بعد بھی افریقہ کا خام مال افریقیوں کے خون سے زیادہ قیمتی ہے۔ افریقہ کی مالی و اقتصادی و سیاسی قسمت کے بنیادی فیصلے آج بھی افریقہ سے باہر ہوتے ہیں۔
ہم بھی بظاہر ہر افریقی ملک کی طرح آزاد ہیں۔ پر ہم پچیس کروڑ عوام کو بھی نہیں معلوم کہ ہماری قسمت کے فیصلے کہاں ہوتے ہیں؟ دوبئی، ریاض، بیجنگ، لندن، واشنگٹن؟ کہاں؟
ہم نہیں جانتے ہمارے کس رہنما کے تار کہاں کہاں جڑے ہوئے ہیں؟ اس کھیل میں دیسی اور بدیسی ایجنسیوں، اعلیٰ آئینی و سٹرٹیجک، مقدس، نیم مقدس اداروں، کارپوریٹ سیکٹر اور لینڈ ڈویلپرز کے درمیان کیا رشتہ ہے اور کس کو کس سے کیا فائدہ یا نقصان پہنچ رہا ہے۔
یہ گیم کتنی بڑی یا اوپر کی ہے یہ بھی نہیں معلوم۔ ہمارے سامنے تو بس چند معزز پیادے ہیں۔ ان کے اوپر کون کون سے مہرے ہیں۔ چال چلتے ہوئے ہاتھ تو نظر آتے ہیں پر ماسک زدہ شاطر دکھائی نہیں دیتے۔
کب بساط الٹ جائے، کب نئی بچھ جائے۔ کون سا مہرہ اب کس خانے میں فٹ ہو گا اور اگلی کتنی چالوں تک کارآمد ہوگا، کتنے گھر بدلے گا، کسی اور مہرے سے خود پٹے گا یا پیٹ دیا جائے گا۔ حاشا و کلا کچھ نہیں پتہ۔
جانے کون کب آنکھیں چندھیانے والی سفید روشنی میں دھم سے لا کھڑا کیا جاوے اور ایک لمحے پہلے تک جو چہرہ اسی چندھیا دینے والی روشنی میں تماشائیوں کے سامنے پراعتماد انداز میں ہاتھ ہلا رہا تھا کب اسے سٹیج کے بائیں کونے کے اندھیروں میں دھکیل دیا جائے اور اس کی تصویر میں سے چہرہ غائب ہو جائے، بس واسکٹ رہ جائے؟
حتٰی کہ ہم میڈیائی ڈھولیے بھی جو جھوٹا، سچا، کچا پکا، تحقیقی و تحقیری، نیلا پیلا مصالحہ جان کاری، آگہی و تجزیے کا لیبل لگا کے اخبار در اخبار چینل بہ چینل، گلی گلی، گھر گھر فروخت کر رہے ہیں، اس کی سپلائی اور پیکیجنگ بھی کس کارخانے سے بن کے آرہی ہے، یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
آٹھ لاکھ مربع کلومیٹر کا یہ ملک غلام طبیعت اشرافیہ نے آپس میں کب بانٹ لیا پتہ ہی نہ چلا۔ جیسے افریقیوں کو 139 برس پہلے اپنی سیاسی، اقتصادی، جغرافیائی، ثقافتی، علاقائی و نسلی بندر بانٹ کا پتہ ہی نہیں چلا۔
نقشے میں آپ کو آج بھی پورا افریقہ یکجا خطہِ زمین کے طور پر نظر آتا ہے۔ نقشے میں تو آپ کو میرا ملک بھی ایک اکائی کی شکل میں نظر آتا ہے۔ بس دور سے دیکھتے رہیے۔ ذرا سا بھی کھرچیے گا ہرگز نہیں۔
محسوس کرو گے تو گزر جاﺅ گے جاں سے
وہ حال ہے اندر سے کہ باہر ہے بیاں سے ( جاوید صبا )

اپنا تبصرہ بھیجیں