بلوچستان کی پسماندگی کی اصل ذمہ دار سرکار یا ہم خود؟
تحریر: ذکیر ذکریا
اگر ہم بلوچستان کے اندر پسماندگی کو دیکھیں، تو آج یہ ہمیں اپنی عروج پر نظر آتی ہے۔ اس وقت بلوچستان کے لوگ زندگی کے ہر شعبے میں خواہ وہ تعلیم ہو، صحت ہو یا کوئی اور ملک کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں دہائیوں سے پیچھے ہیں۔ اس پسماندگی نے ہر غریب گھرانے کا جینا حرام کرکے رکھا ہوا ہے۔ خیر یہ تو اب ہمارا مقدر بن چکا ہے لیکن کیا ہم نے کبھی یہ بات گہرائی سے تجزیہ کرنے کی جدوجہد کی ہے کہ اس حالتِ زار کا اصلی قصور وار کون ہے؟ کیا ہمیں کبھی یہ احساس ہوا کہ ہماری اس پسماندگی کے اصل ذمہ دار سرکار یا حکمران نہیں؟ اب ایسا بھی نہیں کہ ہمارے سرکار اور حکمران دودھ کے دھلے ہوئے ہیں، وہ صرف 20 فیصد ذمہ دار ہیں یہ سب کے۔ کوئی اس بات کو ماننے یا نہ مانے لیکن بلوچستان کی پسماندگی کی ذمہ دار نہ تو سرکار ہے اور نہ ہی حکمران بلکہ ہم خود 80 فیصد ذمہ دار ہیں، ہمارے اپنے ہی لوگ اس کے ذمہ دار ہیں۔ اس بات پر شاید کسی کو حیرانی ہو، شاید کوئی اتفاق نہ کرتا ہو مگر یہی سچ ہے۔ میں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ مجھے کوئی بھی اِدھر اْدھر کی بات کرنے کا شوق نہیں ہے، میں کچھ بولتا ہوں، اس کے دلائل بھی پیش کرتا ہوں بلوچستان کی پسماندگی میں جب تک ہم اپنی غلطیاں نہیں مانتے اور ان کو بہتر کرنے کی کوشش نہیں کرتے، تب تک بلوچستان کی پسماندگی نہیں جائے گی۔
سب سے پہلے میں بلوچستان کے اندر تعلیم کے بارے میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ کس قدر ہم نے خود بلوچستان کے تعلیمی نظام کا بیڑا غرق کیا ہوا ہے۔ اگر بلوچستان کے اندر تعلیم کے میدان میں سرکار کی ذمہ داری کو دیکھا جائے، تو اس نے اپنی ساری ذمہ داریاں پوری کی ہوئی ہیں۔ سرکار نے بلوچستان کے ہر ضلعے میں تعلیمی ادارے جیسے اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں وغیرہ قائم کی ہوئی ہے۔ اسکول تو تقریباََ گائوں گائوں میں آپ کو دیکھنے کو ملیں گے اور اِن تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے لیئے سرکار نے ہر علاقے کے باسیوں کو اعلیٰ درجے کے عہدوں میں فائز کرکے موٹی موٹی پگار بھی ماہانہ دے رہا ہے، لیکن اِتنی سہولیات ہونے کے باوجود آج تک بلوچستان کا تعلیمی نظام باقی دنیا کے مقابلے میں صدیوں سے پیچھے ہے۔ اِس کی واحد وجہ ہمارے اساتذاہ کرام کا بچوں کو نہ پڑھانا ہے۔
جو ہمارے بلوچ بھائی ہیں بلکہ رشتہ دار ہیں، یہاں میں ایک مخصوص اسکول یا علاقے کی بات نہیں کررہا ہوں، پورے بلوچستان کی بات کررہا ہوں کہ کس طرح اساتذاہ کرام نے اسکولوں میں بچوں کو پڑھانا چھوڑ دیا ہے۔ بلوچستان کے اساتذاہ کرام یا تو اسکول میں آکر جان بوجھ کر بچوں کو نہیں پڑھاتے یا اسکول چھوڑکر کسی ان پڑھ کو اپنی جگہ ڈیوٹی پر لگا کر خود دوسرے شہروں میں جاکر عیاشیاں کرتے ہیں۔ اب بھیا جب اساتذہ ہی تعلیمی اداروں میں نہیں ہوں گے تو کیا بچے سفید دیواروں سے پڑھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امتحان میں اساتذہ طالب علموں کو نقل کرنے کی بخوبی اجازت دیتے ہیں۔ اگر اتنا سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ہم خود بلوچستان کی پسماندگی کا اصلی ذمہ دار نہیں تو اور کون ہے؟ میری بات یہ سن کر شاید آپ کے ذہن میں یہ سوال اْٹھ جائے کہ سرکار کیوں اِن کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرتی؟ تو میرا جواب یہی ہے کہ بھائی کارروائی کرنے کی نوبت ہی کیوں آنے دی جائے؟ کیوں نہ اپنے لوگوں کی زندگیوں کو سنوارنے کے لیے اپنی بے ایمانیوں سے باز آیا جائے؟
دوسری جانب اگر ہم بلوچستان کی یونیورسٹیوں کی حالت دیکھیں تو ہمیں وہاں پڑھائی کا دور دور تک کوئی نام و نشان تک نظر نہیں آتا۔ اس کے اصل ذمہ دار آپ کے خیال میں کون لوگ ہوسکتے ہیں؟ انتظامیہ؟ جی نہیں۔ اس کی اصل ذمہ دار ہماری کچھ مفاد فرست طلبہ تنظیمیں ہیں جو اپنی ہٹ دھرمی سے چھوٹی سی بات پر انتظامیہ سے بھِِڑ جاتے ہیں اور انتظامیہ کیخلاف احتجاج میں لگے رہتے ہیں۔ تنظیموں کی اس طرح کی حرکتوں کی وجہ سے بلوچستان کی سارے یونیورسٹیوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ بدبختی سے آج بلوچستان میں ایسی کوئی یونیورسٹی نہیں رہی جہاں کوئی غریب کا بچہ جاکر اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔ بلوچستان کے اندر اس وقت 9 یونیورسٹیاں قائم ہیں لیکن اس کے باوجود یہاں کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے دوسرے صوبوں میں جاکر ہزراوں روپے ماہانہ خرچہ کرتے ہیں ان کے گھر کے خرچے سے بھی زیادہ ہے۔ کیوں؟ کیونکہ کچھ مفاد پرست تنظیموں نے یونیورسٹیوں کے ماحول کو برباد کیا ہے۔ تنظیم والوں کا جب بھی دل کرے گا، وہ یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے لیے احتجاج کرتے ہیں۔ اب ان سب حالات میں اگر بلوچستان کے پسماندگی کے اصل ذمہ دار ہم نہیں تو پھر کون؟
تعلیم کے بعد اگر ہم صحت کے حوالے سے بات کریں، تو سرکار نے تقریباََ ہر ضلعے میں بہت ہی عالی شان اسپتال دیے ہیں اور اْن میں ساری سہولیات بھی موجود ہیں، یہاں تک کہ سرجری وغیرہ کے سازو سامان بھی مہیا کیے گئے ہیں اور ان اسپتالوں میں علاج کے لیئے ہر ضلعے کے مقامی لوگوں کو ایم بی بی ایس کی پڑھائی بھی سرکار نے مفت میں اپنے کالجوں میں کرائی ہے لیکن جب یہی لوگ ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اپنے ضلعے کے عالی شان سرکاری اسپتالوں میں فائز ہوتے ہیں، تو وہ لوگوں کا علاج نہیں کرتے کیونکہ ان کے اپنے ذاتی کلینکس ہوتے ہیں جہاں وہ غریبوں کو لوٹتے ہیں۔ اب جب مفت میں ملنے والی صحت کی خدمت کو کاروبار بنایا جائے گا، تو ظاہر ہے عوام پسماندہ ہی ہوں گے اور بلوچستان اس عمل کا بیحد شکار ہے۔ آج بلوچستان کے مریض اسپتالوں کو چھوڑکر کراچی جاکر پرائیویٹ اسپتالوں میں لاکھوں روپے دے کر اپنا علاج کرانے پر مجبور ہیں۔ اگر ہمارے اپنے لوگ ایماندار ہوتے اور مریضوں کا ایمانداری سے علاج کرتے، تو کیا انہیں کراچی جاکر علاج کرنا پڑتا؟ نہیں۔ تو اس کا ذمہ دار کون؟ یقینا ہم خود ہیں۔
ہم اکثر یہ گلا کرتے ہیں کہ سرکار بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے لیئے فنڈز نہیں دیتی لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ وفاقی حکومت سالانہ اربوں روپے بلوچستان میں ترقیاتی کاموں کے لیے منظور کرتی ہے مگر ہمارے اپنے ہی بلوچ بھائی جنہیں ہم اپنے ہی نازک ہاتھوں سے ووٹ کرتے ہیں، وہی سارا فنڈز ہڑپ جاتے ہیں۔ اور یہ ہر سال ہوتا رہتا ہے۔ یعنی ہمیں معلوم ہے کہ جس حکمران کو ہم ووٹ دے رہے ہیں وہ ہمیشہ کی طرح ہمارے ترقیاتی کاموں کے فنڈز اور دیگر وسائل کو ہڑپ لے گا لیکن پھر بھی ہم اسے ووٹ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ ہمیں لوٹتے ہیں اور ایسے میں نہ کوئی اچھی سڑکیں بن سکتی ہیں، نہ ڈیم، نہ روزگار ملتا ہے لوگوں کو، اور نہ ہی ہماری بدحالی بدلتی ہے بلکیں ہر چیز دن بہ دن بگڑتی جاتی ہے۔ اس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ ہم جتنی جلدی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں، ہمارے لیے اتنی ہی بہتری ہوگی۔ اگر ہم ہمیشہ سرکار کو اپنی غلطیوں کا ذمہ دار ٹہراتے رہیں گے اور ان کو تسلیم نہیں کریں گے، تب تک بلوچستان کی پسماندگی نہیں جائے گی۔