ٹیچنگ اسپتال پنجگور کے توجہ طلب مسائل

تحریر: حضور بخش قادر
ڈاکٹر منظور احمد بلوچ، ڈاکٹر نصرت اللہ بلوچ، ڈاکٹر انور عزیز، ڈاکٹر شبیر احمد کشانی، ڈاکٹر عنایت بلوچ، ڈاکٹر طارق بلوچ، ڈاکٹر الہی بخش، ڈاکٹر ایوب مراد، ڈاکٹر عبدالغفار ڈینٹل سرجن چند ایک ینگ ڈاکٹرز بالاچ اسلم اور لیڈی ڈاکٹر ز نے جن نا مساعد حالات میں طب کے شعبے میں خدمات سرانجام دی اور دے رہے ہیں وہ قابل تعریف ہے۔ خصوصاً ڈاکٹر بتول جو غیر مقامی ہوتے ہوئے کنٹرکٹ بنیادوں پر ڈیوٹی انجام دیتی رہی ہیں یہ وہ مسیحا ہیں جب پنجگور بارود کے ڈھیر پر کھڑا تھا یہ پنجگور میں اپنے لوگوں کی خدمت میں مصروف رہیں نہ انکو یہ کہتے سنا گیا کہ جی پنجگوریوں کا رویہ ٹھیک نہیں ہے وہ یہاں خدمات سرانجام نہیں دے سکتیں آج دن تک یہ حضرات پنجگور میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں، ان کے مقابلے میں ہمارے جو ینگ ڈاکٹر صاحبان ہیں اللہ تعالی انکی زندگیوں میں برکت دے میڈیکل کی سیٹیں پنجگور سے لیتے ہیں مگر جب بات پنجگور آنے کی ہوتی ہے تو انکو پنجگوریوں کا رویہ کچھ نامناسب سا لگتا ہے وہ پنجگور میں پوسٹنگ ہونے پر پھر دوبارہ اپنا تبادلہ کرواتے ہیں کہ جی انہیں کسی بھی قیمیت پر اب پنجگور نہیں جانا ہے پنجگوریوں کا رویہ مناسب نہیں ہے، وہ جاہل ہیں، ڈاکٹروں کی عزت نہیں کرتے انکے ساتھ گزارا نہیں ہوسکتا اگر یہ کوئی جواز ہوتا تو ہمارے سینئر ڈاکٹرز یہاں کیوں ڈیوٹی کرتے وہ بھی اس بات کو بنیاد بناکر یہاں سے باآسانی نکل سکتے تھے مگر انہوں نے ازخود ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے لوگوں کے درمیان رہ کر خدمت کے جذبے کو زندہ رکھا آج یہی سینئر پنجگور کے عوام کو دستیاب ہیں، جن جوانوں پر تکیہ تھا وہ اپنے لوگوں کی خدمت سے کترا رہے ہیں، 100 سے زائد ڈاکٹرز صوبے کے مختلف علاقوں خصوصاً صوبائی دارالحکومت میں بیٹھ کر ڈیوٹیاں کرتے ہیں مگر اپنے عزیز اور رشتہ داروں کی تکالیف اور مصیبتوں سے خود کو الگ تھلگ کیے ہوئے ہیں۔ شام 3 بجے سے لیکر اگلی صبح 8 بجے تک پنجگور کے اسپتالوں کی جو حالت ہوتی ہے مریض اور انکے رشتہ دار کسی مسیحا کی تلاش میں جس طرح پریشانیاں جھیلتے ہیں اس کا احساس ہمارے ینگ ڈاکٹر صاحباں نہیں کرینگے تو کوئی دوسرا آکر تھوڑی ہمارے زخموں پر مرہم رکھے گا خدارا اپنے عزیز واقارب پر ترس کھائیں اور یہاں آکر خدمات سرانجام دیں۔
دوسری جانب پنجگور ٹیچنگ اسپتال سمیت بی ایچ یوز میں میڈیکل آفیسرز کا بحران بدستور جاری ہے، ٹیچنگ اسپتال پنجگور میں ڈاکٹر کی کمی کے ساتھ ساتھ ادویات کی قلت اور سہولیات کا فقدان ہے، ٹیچنگ اسپتال پنجگور کی 93 پوسٹس عرصہ دراز سے خالی ہیں اور صرف 24 ڈاکٹرز تعینات ہیں جوکہ دس لاکھ کی آبادی کے لیے ناکافی ہیں، پنجگور کے دور دراز کے علاقوں کے مکین معمولی بیماری کے لیے پچاس، سو میل کی مسافت برداشت کرکے شہر آنے پر مجبور ہیں مگر شہر میں بھی صورتحال کچھ ٹھیک نہیں ہے سب سے بڑے سرکاری اسپتال میں سیکنڈ اور نائٹ شفٹوں میں کوئی میڈیکل آفیسر موجود نہیں ہوتا جس سے مریض اور انکے لواحقین وقتی ریلیف حاصل کرسکیں۔ پنجگور میں برسوں سے عوام طبی سہولتوں کے لیے در در بھٹک رہے ہیں، ٹیچنگ اسپتال کے لیے چند ماہ پہلے 36 ڈاکٹروں کی تقرری کے احکامات جاری ہوگئے تھے مگر ان ڈاکٹروں نے تاحال اپنی جائے تعیناتیوں پر جوائنگ نہیں دی ہے پنجگور چونکہ صوبے کا ایک پسماندہ اور دور دراز علاقہ ہے عوام کے لیے طبی سہولتوں کے لیے واحد ذریعہ سرکاری اسپتال ہیں، سرکاری اسپتالوں میں بنیادی سہولتوں کے فقدان اور ڈاکٹرز نہ ہونے کی وجہ سے شہر کی دس لاکھ آبادی پتھر کے دور سے گزر رہی ہے معمولی بیماری، روڈ حادثات اور گن شاٹ کے کیسز میں پنجگور کے لوگ تربت، کوئٹہ کراچی جانے پر نہ صرف مجبور ہیں بلکہ انہیں شدید ذہنی اذیتوں سے دوچار رہنا پڑتا ہے کیونکہ اکثر لوگوں کے پاس اتنے وسائل بھی نہیں ہوتے کہ وہ اپنے مریضوں کو فوری طور پر کسی دوسرے شہر میں ریفر کرائیں، نجی سطح پر بھی پنجگور طبی سہولتوں کے حوالے سے کافی پیچھے ہے، کوئی ایسا میڈیکل سینٹر، میٹرنٹی ہوم نہیں جہاں شہری کسی ایمرجنسی میں وقتی طور پر ریلیف حاصل کرسکیں، شہر میں طبی سہولتوں کے فقدان شہری اور دیہی اسپتالوں میں میڈیکل آفیسرز کا نہ ہونا تاریخی المیہ ہے جس کی وجہ سے روزانہ عوام کو اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں علاقے کے منتخب نمائندوں تمام سیاسی پارٹیوں علمائے کرام سماجی شخصیت سمیت معاشرے کے تمام ذمہ دار طبقے کو چاہیے کہ ٹیچنگ اسپتال پنجگور کی بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں اور پانچ سال تم پانچ سال ہم والی پالیسی کو عوام کے ذہنوں میں مسلط کرنے کے بجائے حقیقت کو تسلیم کیا جائے، ٹیچنگ اسپتال کے شعبہ ایمرجنسی کو اب بھی پیرا میڈیکل اسٹاف اور ٹرینی چلارہے ہیں اس سے ابتر صورتحال کیا ہوسکتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں