مایوس کن حالات
تحریر: عطاءالرحمن بلوچ
بلوچستان کے ہزاروں نوجوان بے حسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مجبوری اور بد حالی انکی مقدر بن چکی ہے۔ کئی آزمائشوں نے انہیں اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے۔ ہزاروں گریجویٹس نوجوان ایم فل اور پی ایچ۔ ڈی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت نہ ملنے پر شدید قسم کی ذہنی اور سماجی دباو¿ کا شکار ہیں۔ یہ دباو¿ ان پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ جس کی واضح مثال آج ہم سب کے سامنے ہے۔ غربت اور پسماندگی کی وجہ سے نوجواں زیادہ تر نشے کے عادی ہو رہے ہیں۔ جب معاشرے میں بے روزگاری عام ہو جاتی ہے۔ تو نوجوان ذہنی نفسیاتی پریشانیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اعلی تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی زندگی کی تلخیوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ آبادی میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بڑی تعداد کے ساتھ نوجوان تلاش روزگار کے لئے تگ و دوکررہے ہیں۔ کہ کئیں سے اچھی خاصی ملازمت مل جائے۔ ہزاروں کے حساب سے تعلیم یافتہ نوجوان اپنی قسمت آزمانے کے منتظر تھے۔ جب حکومت بلوچستان کی طرف سے 9 ہزار ایجوکیشن کی خالی اسامیوں کا اعلان ہوا یہ اسامیاں میرٹ پر لی جائیں گی۔ یہ خبر بے روزگار نوجوانوں کے کانوں پر جب پہنچی تو ان کے لاغر بدن میں طاقت آنا شروع ہوگئی کہ اب ہم زندگی کی تمام تلخیوں اور پریشانیوں سے چھٹکارا پاکر ہم آسودگی اور خوشحالی کی طرف گامزن ہوں گے۔ متوسط طبقے کے لوگوں کے لئے یہ اچھی خبر تھی۔ تاکہ وہ برسر روزگار رہیں۔ خالی اسامیوں کے ٹیسٹ کی ذمہ داری سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی کو سونپی گئی تھی کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر ٹیسٹ لے گی۔ ہزاروں کے حساب نوجوانوں کے ٹیسٹ سردار بہادر خان وومن یونیورسٹی لے چکی ہے۔ 20 جولائی کو رزلٹ آنے والا تھا۔ ہزاروں گریجویٹ نوجوان رزلٹ کے منتظر تھے۔ لیکن ہائے شومئی قسمت کی وجہ سے 17 جولائی کو بلوچستان ہائی کورٹ نے ایجوکیشن کی 9 ہزار اسامیوں پر اسٹے آرڈر لگایا، ہزاروں نوجوان کی امنگوں کو خاک میں ملا دیا اور انہیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دیا۔ SBK پر یہی الزام تراشی کی گئی تھی کہ وہ پوسٹوں کی خرید و فروخت کررہی ہے۔ 12 سے 15 لاکھ تک بولی لگ گئی تھی۔ ہمیں باریک بینی سے دیکھنا ہے۔ بلوچستان کے 70 فیصد لوگ نان شبینہ کے محتاج ہیں۔ وہ لاکھوں روپے دینے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔ اگر جن کے پاس 20 لاکھ پیسے ہوتے تو وہ اپنے لئے اچھے کاروبار کرسکتے تھے۔ ٹیسٹ دینے والے 90 فیصد متوسط طبقے کے لوگ ہیں۔ بلوچستان میں آے روز مختلف جرائم پیش آتے ہیں۔ دن بدن نا انصافی اور تشدد کا بازار اکثر گرم رہا ہے۔ بد قسمتی سے وہ کسی کو نظر نہیں آ رہا ہے۔ ایجوکیشن کے اسامیوں پر اسٹے آرڈر لگانا متوسط طبقے کے لیے لمحہ فکر ہے۔ میں تمام سیاسی سماجی حضرات سے اپیل کرتا ہوں کہ ایسے اقدامات ضرور اٹھائے جائیں جو ہمارے معاشرے کی بہتری کیلئے ہوں جو ظلم نا انصافی کیخلاف ہوں۔ ان اسامیوں پر ہائی کورٹ نے جو اسٹے آرڈر لگایا ہے یہ متوسط طبقے کے لیے نقصان دہ ہے۔ وہ پہلے سے مفلوج زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان ہائی کورٹ کے ججوں سے بدست التجا ہے کہ وہ عدل و انصاف کا بول بالا کریں، بے روزگار نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کریں تاکہ وہ آسودگی کی زندگی گزار سکیں۔ بلوچستان میں اور کوئی خاص ذریعہ معاش نہیں ہے۔ پہلے نوجوان تیل اور ڈیزل کے کاروبار اور دیگر کاموں سے منسلک تھے چونکہ اب وہ روزگار نہ ہونے کے برابر ہے۔ روزگار نہ ہونے کی وجہ سے نوجواں بھٹکنے پر مجبور ہیں۔ موجودہ حالات اور واقعات کی وجہ سے تعلیم یافتہ طبقہ متاثر ہو کر منفی سوچ کا شکار ہوتا ہے۔ جن کے سبب مایوسی اور ناامیدی کے اثرات مرتب ہوچکے ہیں۔ بہت سے نوجوان زندگی سے مایوس ہو کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرتے ہیں۔ جب اسے زندگی میں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ہے تو وہ اس طرح کے اقدامات اٹھاتے ہیں۔ جب اسے زندگی میں کوئی اور امید نظر نہیں آتی وہ زندگی سے مایوس اور نا امید ہو کر بالا آخر وہ اپنی قیمتی جان گنوا بیٹھتے ہیں۔ نوجوانوں کے حقوق کی پاسداری اب عدالت کے ہاتھوں میں ہے ہمیں امید ہے کہ عدالت ان مایوس کن حالات پر نظر ثانی کرکے نوجوانوں کو میرٹ کی بنیاد پر تعینات کرکے اس مایوسی کی فضا کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خیر مقدم کرے گی۔