ایک اور ڈاکٹرائن

تحریر: انور ساجدی
آرمی ایکٹ میں ترامیم سمیت سینیٹ نے جو قوانین منظور کئے ہیں ان کے اطلاق کے بعد پاکستان میں فریڈم آف ایکسپریشن قصہ پارینہ بن جائے گا اور آزادی اظہار کے حوالے سے پاکستان ترکی،ایران، روس اور چین کا ہم پلہ ہو جائے گا۔بظاہر آرمی ایکٹ میں تبدیلی کا ایکٹ فوج کے حاضر سروس اور ریٹائرڈ افراد کو سخت ترین ڈسپلن میں لانا ہے لیکن توہین کے ضمن میں الیکٹرانک سرگرمیوں اور پیکا قوانین کا نفاذ بہت بڑی اور بنیادی تبدیلی ہے۔ بنیادی حقوق کو ضرر پہنچا نے والے اور ان قوانین کی منظوری کا سہرا اس پارلیمنٹ کے سر ہے جو آئندہ دو ہفتوں کے دوران تحلیل ہو جائے گی۔ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے آزادی اظہار رائے کو جس طرح بلڈوز کیا ہے ان کے ماتھے پر یہ داغ کبھی مٹ نہ سکے گا۔دونوں جماعتوں نے یہ قدم کسی بڑے دباﺅ کے تحت کیا ہے۔جہاں تک ترامیم کی تفصیلات کا تعلق ہے جو منظر عام پر آنا شروع ہوگئی ہیں پوری تفصیلات ہوش ربا ہیں۔بظاہر ان اقدامات کا مقصد اہل یوتھ کے اثرات کو ختم کرنا ہے لیکن بالآخر بے شمار لوگ اس کی زد میں آئیں گے جیسا کہ پیکا کا قانون عمران خان نے پاس کروایا تھا لیکن آج وہ قانون انہی کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔اسی طرح نوازشریف نے دہشت گردی کی جو عدالتیں قائم کیں۔1999 میں انہی عدالتوں نے انہیں تاعمر نااہل اور عمر قید کی سزاسنائی۔نہ صرف یہ کہ نوازشریف نے18 ویں ترمیم میں نیب کے اختیارات میں کمی کی مخالفت کی ۔پھر یہی نیب ان کے گلے کا ہار بن گیا۔آرمی ایکٹ کا اطلاق فوجیوں پر ہوناالگ بات ہے لیکن گھوم پھر کر اس کے اثرات پورے معاشرے پر پڑیں گے۔حال ہی میں آزادی اظہار کے بارے میں جو قانون منظور کیا گیا ہے وہ ایک طرح سے پریس فریڈم کے لئے کورٹ مارشل کی حیثیت رکھتا ہے۔پیمرا قوانین کوئی معمولی قوانین نہیں ہیں۔بنیادی اور اہم بات یہ ہے کہ نوازشریف اور آصف علی زرداری جو کچھ کر رہے ہیں اس کا مقصد کیا ہے۔کیا وہ آئندہ اقتدار کے لئے کمپرومائز پر کمپرومائز کریں گے۔کیا عارضی اقتدار کے لئے وہ سب کچھ کھو دینا چاہتے ہیں۔؟ماضی میں کئی مرتبہ ایسا ہوا ہے نوازشریف کی تو تاریخ یہ ہے کہ 1985 سے لے کر 2017 تک انہوں نے مسلسل سہولت کار کا کردار ادا کیا۔جب جنرل باجوہ نے اپنی ڈاکٹرائن کا نفاذ کیا تو نوازشریف نے ان کی توسیع کی منظوری دے کر اس میں معاونت کی۔وہ8 اپریل2022 کو ایک بار پھر باجوہ ڈاکٹرائن کے سہولت کار بن گئے حالانکہ تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز اس بات پر متفق ہیں کہ جنرل باجوہ نے پروجیکٹ عمران خان کو پایہ تکمیل پر پہنچا کر جمہوریت کو شدید نقصان پہنچایا۔معیشت پر کاری ضرب لگائی۔انہوں نے ریکوڈک کی نیلامی کر کے پاکستان کو اس کے سب سے بڑے اثاثہ سے محروم کر دیا۔
انہوں نے 2018 کے انتخابات میں جھرلو پھیر کر جس طرح عمران خان کی کامیابی کا اعلان کیا یہ ان کے ناقابل فراموش کارنامے ہیں۔ابھی جنرل باجوہ کی ڈاکٹرائن کے اثرات باقی تھے کہ ایک اور ڈاکٹرائن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔اصل صورتحال کا تو علم نہیں لیکن نگراں حکومت کو وسیع اختیارات دینے سے یہ اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ نوازشریف خود یا کسی دباﺅ پر نگراں حکومت کی معیاد کو طول دینا چاہتے ہیں ان کا وقتی مفاد تو یہ ہے کہ عمران خان کی عفریت اپنے انجام کو پہنچے تب عام انتخابات ان کی جماعت کے لئے سود مند ثابت ہوں گے ورنہ ن لیگ اتنی کامیابی حاصل نہیں کر سکے گی جو نوازشریف چاہتے ہیں
۔ن لیگ کی حکومت نے اپنے خاتمہ سے قبل قومی اثاثوں کو جس طرح نیلام کیا ہے وہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔مثال کے طور پر کراچی پورٹ کے ٹرمینلز کو ابوظہبی کے حوالے کرنا، اسلام آباد کراچی اور لاہور کے ائیرپورٹس کو غیر ملکی تصرف میں دینا۔پسنی سب ڈویژن کو غیر ملکی آئل ریفائنری کے لئے مختص کرنا اورمتعدد خفیہ سودے جن کا انکشاف بعد میں ہوگا۔اگر ان اثاثوں کو تلف کرنے کا مقصد معیشت کو فائدہ پہنچانا ہے تو ان سودوں کے ذریعے کبھی معیشت اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکے گی کیونکہ اتنا بڑا ملک چند ارب ڈالر کی سرمایہ کاری سے دوبارہ نہیں اٹھے گا۔بہت جلد لوگ سنیں گے کہ ایک کروڑ اسی لاکھ ایکڑ زرعی زمین بھی غیر ملکی سرمایہ کاروں کے حوالے کی گئی ہے۔ان تمام اقدامات کا مقصد پاکستان کو معذوری، محتاجی اور لاچاری سے نکالنا ہے لیکن یہ کام ناممکن سطحی اقدامات سے نہیں ہوگا۔
پاکستانی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لئے انڈیا کے سابق وزیر خزانہ اور 12 ویں وزیراعظم من موہن سنگھ کے اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہے کیونکہ موصوف جدید بھارتی معیشت کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔جب وہ وزیر خزانہ تھے تو انہوں نے کانگرس کی قیادت کو سمجھایا کہ جب تک انڈیا کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے اوپن نہیں کیا جائے گا معیشت ٹھیک نہیں ہوگی۔من موہن سنگھ جب اقتدار میں آئے تھے تو بھارت کی معیشت کا وہی حال تھا جو ان دنوں پاکستانی معیشت کا ہے۔انہوں نے زبردست ری اسٹرکچرنگ کی ایک سال تک وہ قرضے لیتے رہے سونے کے ذخائر گروی رکھے جس کے بعد معیشت اٹھنا شروع ہوگئی۔من موہن سنگھ نے غیر ملکی بڑی کمپنیوں سے سرمایہ کاری کے ساتھ ٹیکنالوجی کے معاہدے بھی کئے۔کانگریس کی سرکار کو گئے 10 سال ہوئے ہیں لیکن من موہن سنگھ کی حکمت عملی آج بھی کارگر ہے جس کی وجہ سے انڈیا دنیا کی چوتھی بڑی معاشی پاور بن گیا ہے۔پیشن گوئی کے مطابق2030 تک بھارت جاپان کی جگہ لے کر تیسری معیشت بن جائے گا۔اگرچہ پاکستان کی طرح بھارت کے لوگوں میں ڈسپلن اور سمجھ بوجھ کی کمی ہے اس لئے بھارت کی ترقی کسی بھی وقت رک سکتی ہے لیکن فی الحال بھارت دنیا کا تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔بھارت کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ وہاں آئین مستقل نافذ ہے۔جمہوریت کا تسلسل 75 سالوں سے قائم ہے۔وہاں پر ملک چلانے کے ذمہ دار سیاستدان ہیں اور کسی کی جرات نہیں کہ وہاں کی جمہوریت پر قدغن لگائے یا سیاستدانوں کو کسی بھی معاملے میں ڈکٹیشن پر چلائے۔ دونوں ممالک کے درمیان فرق صرف یہی ہے۔اس کے برعکس پاکستان میں مسلسل تجربات ہو رہے ہیں یہاں جنرل ضیاءالحق مارشل لاءکے ذریعے اپنی انوکھی ڈاکٹرائن لائے جنرل اسلم بیگ نے1990 کے انتخابات میں جھرلو پھیرا اور آئی جی آئی قائم کی۔2002 میں جنرل پرویز نے ایم ایم اے قائم کی جسے مخالفین نے ملا ملٹری الائنس کا نام دیا کیونکہ پرویز مشرف نے آئین کی معطلی کا جو اقدام کیا تھا پارلیمنٹ سے جان بخشی کے عوض اس نے پختونخوا اور بلوچستان کی حکومت ایم ایم اے کو دی جبکہ کراچی کو ایم کیو ایم کے حوالے کر دیا۔
مشرف نے ایک تباہ کن ڈاکٹرائن نافذ کی جس کے تحت فاٹا اور بلوچستان پر فوج کشی کی۔نواب اکبر خان کو شہید کیا اور ایم کیو ایم کے ذریعے12مئی2007 کو کراچی میں درجنوں لوگوں کو قتل کیا۔مشرف کے ڈاکٹرائن کے اثرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ جنرل کیانی ایک اور ڈاکٹرائن لائے ان کے دور میں جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔معلوم نہیں کہ جنرل باجوہ کو کیا سوجھی تھی کہ وہ ملک کا بیڑہ غرق کر کے عمران خان کو لائے۔انہوں نے سیاست ،معیشت اور فارن پالیسی کو اپنے کنٹرول میں لے کر ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔
ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اگلے ماہ جب نگراں حکومت آئے گی تو ایک اور ڈاکٹرائن یا نظریہ ضرورت جنم لے گا جس کے تحت نہ صرف نگراں حکومت کو طول دینے کی کوشش کی جائے گی بلکہ قرعہ اندازی کے ذریعے جسے الیکشن کا نام دیا جا ئے گا چند جماعتوں کو نشستیں تقسیم کی جائیں گی تاکہ نظریہ ضرورت ایک اور انداز میں نافذ ہوسکے جبکہ ملکی معیشت کو کاسمیٹک اقدامات کے بجائے موثر حکمت عملی،مضبوط منتخب حکومت اور کارگر پالیسیوں کی ضرورت ہے۔