سازشیں اور ہمارے تاریخی کارنامے

تحریر: محمد صدیق کھیتران
پاکستان میں فوج نوکر شاہی، عدلیہ، میڈیا ،معیشت اور مذہبی تنظیموں کو صرف اپنے قابو میں نہیں رکھتی ۔بلکہ وہ ان اداروں کو کلائینٹ کے طور پالتی ہے۔اس قوت کو وہ مقبول سیاسی جماعتوں اور سیاست دانوں کے خلاف استعمال کرتی ہے۔باقی ملک میں یہ کام کسی پردے میں کیا جاتا ہے مگر بلوچستان میں سرعام کیا جاتا ہے۔مکران میں ایک استاد عبدالرؤف بلوچ کو توہین مذہب کے نام پر 5 اگست کو قتل کیا گیا اور سب کو معلوم ہے کہ اس ڈیتھ اسکواڈ کے تانے بانے کہاں سے ہلتے ہیں۔ عبدالرؤف کے بھائی اور بھابی کو دھمکایا جارہا تھا کہ وہ عدالتی چارہ جوئی سے باز آجائیں۔ 9اگست 2023کو دونوں میاں بیوی کومغربی بلوچستان کے علاقے پہرہ محمد آباد سے مسلح افراد نے اغوا کیا ۔اس کی بھابی ہانی گل بلوچ اور ان کے شوہر سمیر بلوچ کو مغربی بلوچستان میں بے دردی سے قتل کردیا گیا۔ محترمہ ہانی گل بلوچ ،بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی خلاف توانا آواز تھیں۔ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے سرگرم اور اپنے سابقہ منگیتر نسیم بلوچ کی بازیابی کے لئے کراچی، اسلام آباد، کوئٹہ، حیدرآباد سمیت دیگر شہروں میں احتجاج کرتی رہیں۔ 14 مئی 2019 کو رمضان کے مہینے میں نسیم بلوچ سمیت ہانی گل کو کراچی سے لاپتہ کیا گیا تھا۔ چھ ماہ قید میں رکھنے کے بعد ہانی گل کو چھوڑ دیا گیا مگر نسیم بلوچ تاحال لاپتہ ہیں۔ ہانی گل نے رہائی کے بعد نسیم بلوچ کی بازیابی کے لئے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ جس پر سندھ ہائی کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نوٹس بھیجے تاہم اغواکاراتنے طاقتور تھے کہ وہ خود کو عدالت کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے ۔ جس کے باعث عدالت بھی بے بسی ہوگئ اور خاموشی اختیار کرلی۔ ہانی نے بلوچ لاپتہ افراد کے کیس کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کو فرانسیسی نیوز ایجنسی (اے ایف پی) نے لاپتہ افراد کے حوالے سے اپنی ایک فیچر اسٹوری میں کریکٹرکے طور پر بھی چنا۔ یہ اسٹوری اے ایف پی کراچی کے بیورو ہیڈ اشرف خان اور ایک غیر ملکی صحافی نے کی تھی۔ ۔اسٹوری عالمی میڈیا کی زینت بنی۔ہانی گل ایک سال گھریلو زندگی گزارنے کے بعد 5 اگست 2023 کو اپنے دیور عبدالرؤف بلوچ کے قتل کے بعد دوبارہ منظر عام پر آگئی ۔ اس نے سوشل میڈیا پر ویڈیو پیغام جاری کیا جس میں عبدالرؤف کے قتل کی نہ صرف مذمت کی بلکہ بلوچ قوم سے اپیل کی کہ وہ عبدالرؤف کے قاتلوں کی گرفتاری میں اپنا کردار ادا کریں۔ ہانی گل کی اس دوران سمیر بلوچ سے شادی ہوگئی۔ ہانی کا تعلق ضلع کیچ کے مرکز تربت شہر سے تھا جبکہ ان کے شوہر کا تعلق ضلع کیچ کے جت بلنگور سے تھا۔دونوں میاں بیوی کو 9اگست 2023 کو مغربی بلوچستان سے اغوا کیا گیا۔ اغوا کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں بلوچستان میں طرح طرح کے کھیل جاری ہیں۔ایک طرف جعلی قوم پرستی کے نام سے راتوں رات سیاسی جماعتیں بنائی جاتی ہیں۔جن کوڈیتھ اسکوڈ،اسمگلرز،لینڈ گریبرز، منشیات کے سپلائرز، صوبے کے وسائل خاص کر سینڈک، ریکوڈک،گیس،کوئلہ اور پی ایس ڈی پی پر پلنے والے قبائیلی سرداران و ٹھیکیداران اور الیکٹیبلز سے بھر دیا جاتا ہے۔جہاں پرکچھ مشکل پیش آتی ہے وہاں پرحقیقی قوم دوست جماعتوں کو توڑ کر تحصیل کی سطح پر الگ الگ نئی تنظمیں تخلیق کی جاتی ہیں۔دوسری صورت میں مذہبی شدت پسندوں اور مختلف مسلکی بیانئے سامنے لائےجاتے ہیں۔مثلا” دیوبند مکتبہ فکر کی بنیاد جمیعت علمائے ہند سے ہے۔جن کے ذیلی مدارس چاروں ملکوں پاکستان، ہندوستان، بنگلہ دیش اور افغانستان میں ہیں۔یہ مکتبہ فکر ہندوستان اور بنگلہ دیش میں سیکولر جمہوریت چاہتا ہے۔پاکستان میں اسلامی مذہبی جمہوریت چاہتا ہے اور افغانستان میں وہ جمہوریت کی کسی بھی شکل کی مخالفت کرتا ہے۔ جماعت اسلامی گوادر میں خالصتا” بلوچ مسئلے کی سیاست کرتی ہے مگر اس کی ذیلی طلبا تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ ،بلوچ طلبا کو پنجاب میں لگاتار تشدد کا نشانہ بناتی رہتی ہے۔پاکستان کی وفاقی تینوں بڑی سیاسی جماعتیں بلوچستان کو اپنے اسٹرٹجیک اثاثے سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ان کو اپنا اثاثہ بچانے کیلئے روزانہ کی بنیاد پر نوجوانوں کی گمشدگی ،قتل عام اور سلگتی زندگی جیسے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ اس ایک نقطے پر بلاول سے لیکر احسن اقبال، مریم ،شہباز شریف ،آصف زرداری، ڈار ،عمران سب ایک ہی صف پر ملیں گے۔حالیہ مردم شماری جو کہ بڑے شہروں خاص کر لاہور اور کراچی کی کم شماری کو بڑھانے کےلئے 7 سال کے اندر دوبارہ کرائی گئ۔ جب اس کی تکمیل ہوئی تو پتہ چلا بلوچستان کی اصل آبادی تو کہیں زیادہ ہے تو تینوں بڑی سیاسی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ نے ملکر بیک جنبش قلم 67 لاکھ آبادی کو بلوچستان کی مجموعی آبادی سے خارج کردیا۔ وجہ صاف ظاہر ہے چند قومی اسمبلی کی نشستوں کا اضافہ روکنا تھا۔اور نیشنل فنانس کمیشن سے بلوچستان کا حصہ بڑھنے نہیں دینا تھا۔ اس وقت قومی محاصل کی تقسیم کو آبادی کی بنیاد یعنی پنجاب کو %54.71, سندھ کو %24.55,خیبر پختونخواہ کو %14.62 اور بلوچستان کو% 9.09 کے تناسب سے بانٹا جا رہا ہے۔ اصل میں قانون، اصول پنجاب اور اس کی اشرافیہ کو ہرگز پسند نہیں۔ نیشنل فنانس کمیشن کی تقسیم چار بنیادی عنصر پر کھڑی ہے۔جو کہ تمام تہذیب یافتہ دنیا کی مروج پالیسیوں سے متضاد ہے۔مثلا” عالمی اقوام مسلسل تشویش کا اظہار کرتی آ رہی ہیں کہ پاکستان اور خاص کر پنجاب کی آبادی تشویشناک حد تک بڑھ چکی ہے۔ مگر ریاست پاکستان قومی وسائل اور سیاسی طاقت آبادی پر تقسیم کرنے میں بضد ہے۔ یعنی وہ ملکی آبادی کو بڑھانے کیلئے حوصلہ افزائی کرناچاہتی ہے۔ اس وقت قومی وسائل کا% 82 آبادی پر تقسیم کیاجاتا ہے۔ یعنی آبادی بڑھانے کو صوبائی حکومتوں کا مقصد "cause” بنا کر انعام سے نوازا جاتا ہے۔ کم آبادی کو ایک موقع یا” Opportunity” کی بجائے جرم بنادیا گیا ہے۔ البتہ ایک معمولی سی رقم یعنی صرف %2.7 کا تناسب کم آبادی کا فائدہ "Incentive” رکھا گیا ہے۔اگر پنجاب کی آبادی کم ہوئی ہے تو وہ اس متبادل "Incentive "کا فائدہ خود کیوں نہیں اٹھا لیتا ۔کیا پنجاب کے ارسطو احسن اقبال کے پاس اس کا جواب ہے؟اصل لڑائی تو ہی محاصل اور سیاسی کیپیٹل کی تقسیم ہے۔غربت اور پسماندگی دور کرنے کیلئے برائے نام تناسب قومی محاصل میں رکھا گیا ہے۔یہ کیسے ممکن ہوگا کہ آپ اپنے قومی محاصل کا صر ف % 10.3 پسماندگی اور غربت کیلئے رکھینگے۔اور پسماندہ علاقے جلد ہی ترقی کرکے پنجاب کے برابر ہوجائینگے ؟ کبھی کسی ماہر منصوبہ بندی نے اندازہ لگایا ہے اس ناہمور روئیے سے کب بلوچستان اور فاٹا میں غربت ختم ہوگی۔ دوسری طرف صوبوں کیلئے محاصل جنریشن کی مد میں % 5 رکھے گئے ہیں۔اس سے مخبوط الحواس سوچ کہیں دیکھی نہیں ہے؟ جن خطوں میں وسائل ہونگے وہاں کے صوبے کو صرف 100 میں 5 روپے ملینگے۔ جبکہ ان وسائل کی تمام دستاویزات کو بھی خفیہ یعنی کلاسیفائیڈرکھا جائےگا۔ گوادر پورٹ کا ریونیو بلوچستان کو نہیں ملے گا!!سیندک ،سوئی گیس اور ریکو ڈیک کی دستاویز تک رسائی پر پابندی ہے۔ اخباروں میں تبصرے چل رہے ہیں کہ اب تو ریکوڈک کی سونے کان کے بقیہ% 50 حصص بھی سعودی عرب کو بیچ دیئے گئے ہیں۔ادھر وزیرستان میں کاپر اور سونے کے ذخائر کے ساتھ یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے۔ ان علاقوں کے تو یہی وسائل ہیں۔ ان پر پانچ فی صد محاصل اور کلاسیفائیڈ کہانی ڈال کر کس طرح حق ملکیت کا احساس دلا پاوگے۔ہمارے پڑوسی ملک بنگلہ دیش نے اپنے قومی مالیاتی محصولات کی تقسیم کو % 60 علاقائئ آبادی کی بنیاد پر رکھا ہے ۔ جبکہ ہندوستان نے تو صرف %15 آبادی پر رکھا ہے۔خود متحدہ پاکستان میں یہ تقسیم جغرافیہ اور غربت پر رکھی گئی تھی جیسی ہی بڑی آبادی نے تنگ آکر اپنی جان چھوڑائی تو بڑے بھائی نے بچے کھچے پاکستان میں محاصل کی تقسیم کا نیا فارمولا آبادی پر رکھ دیا ہے ۔جس کا سب سے زیادہ نقصان بلوچستان کو ہورہا ہے۔این ایف سی کا یہ بنیادی فارمولا اس ملک میں رہنی والی قوموں کا سب سے بڑا تنازعہ ہے اس نے بلوچستان کے پولیٹکل کیپیٹل اور معاشی کیپیٹل کو ہائی جیک کر رکھا ہے۔ 1925میں امریکی صدرکالون نے کہاتھا کہ ایک امریکی شہری کا سب سے بڑا اصول اس کا کاروبار ہے۔ مگر پاکستان کا سب سے بڑا اصول اس کا من گھڑت نظریہ پاکستان ہے۔اور اس یوٹوپیائی نظریئے کا دفاع ریاست کا کاروبار ہے۔اقتصادی بحالی اس کی ترجیح کبھی رہی نہیں۔اس کی ترجیح میں کشمیر کا تنازعہ، ہندوستان سے دشمنی، نیا اوردنیا کے مذاہب سے الگ تھلگ اسلامی تصور کا احیا ہے ۔ان جنگوں کیلئے ایک تصوراتی خطرے سے بچنےکی روز مرہ کی سرگرمی اس کا کاروبار ہے۔ اسٹیفن کون نے 1984 میں اپنے ایک تجزیئے میں پاکستانی افواج کے بارے میں لکھتے ہوئے کہا تھا۔کہ دنیا کی ہر ایک فوج تین میں سے کوئی ایک کام اپنے ملک کیلئے ضرور کرتی ہے۔ زیادہ تر وہ اپنے ملک کی سرحدوں کا دفاع کرتی ہے۔دوسری صورت میں کچھ افواج اپنے معاشرے میں بالادستی قائم رکھنے کیلئے کام کرتی ہے۔اور تیسرے درجے کی فوج اپنے ملک کا نظریہ بناتی ہے اور پھر اس کا دفاع کرتی ہے۔ مگر پاکستان کی افواج یہ تینوں کام بیک وقت کرتی ہے۔ ہمارے ملک کی بنیاد ہی مفروضوں پر بنی ہے۔ فروری 1948 کو محمد علی جناح نے آسٹریلیا کے ریڈیو پر نو آزاد پاکستانی عوام کے بارے میں تعارف کراتے ہوئے کہا۔کہ پاکستانی بہت سادہ ،غریب، نیم خواندہ لوگ ہیں اور اپنی کھیتی باڑی کے علاوہ کم ہی کسی اور سرگرمی کا حصہ بنتے ہیں۔اس نے صلاح دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایک سخت جان قوم ہے وہ غربت سے نکل آئے گی۔کیونکہ ان کے بڑوں نے دونوں عالمی جنگوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ مشرقی بازو کے بارے میں انہوں نے کہا مشرقی پاکستان میں پٹ سن ہوتی ہے۔جو ہمیں زرمبادلہ دے گی۔مختصر یہ کہ محمد علی جناح نے اپنا معاشی منصوبہ دنیا کو یہ دیا کہ ہم یورپ اور دنیا کو جنگجو اور پٹ سن کی مصنوعات دے کر اپنے ملک کی صنعتی بنیاد رکھیں گے۔یہ جنگجوؤں والی بات صحیح تھی۔پاکستان ساوتھ ایسٹ ایشین ٹریٹی آرگنائزیشن SEATO کا ممبر بنا جبکہ پاکستان مشرقی بعید کا حصہ بھی نہیں تھا۔دوسرا واقعہ یہ ہوا۔ 1933 میں ترکی میں ایک کتابی مواد چھپا۔جس میں خیالی تصایر نما عکس دکھائے گئے۔ان عکس سے یہ اخذ کیا گیا کہ یہ حضور اکرم کی شخصیت کو نشانہ بنانے کی کوشش ہے۔جوکہ ظاہر ہے توہین رسالت کے زمرے میں آتا تھا۔۔جماعت اسلامی پاکستان نے 1970 کے انتخابات میں بری طرح شکست کھائی تھی ۔اس نے اپنے نظریئے کو مصنوعی تقویت دینے کے لئے 1971 میں پاکستان میں اس کتاب کے خلاف مظاہرے شروع کر دیئے۔ ان مظاہروں میں عیسائی آبادی کی املاک اور مذہبی عبادت گاہوں کو نشانہ بنایا گیا۔کتاب ترکی میں 39 سال پہلے چھپی۔پاکستان بعد میں وجود میں آیا اور ہنگامے عیسائیوں کے خلاف ہونے لگے۔وجہ اس کی یہ تھی کہ ان دنوں بی بی سی کا ریڈیو چینل اطلاعات کا سب سے مستند ذریعہ مانا جاتا تھا۔وہ بنگلہ دیش میں پاکستانی فوج کے مظالم پر بنگالی زبان میں رپورٹ نشرکیا کرتا تھا۔ اس لیئے مزہب کے نام جماعت اسلامی اور پاکستان نے اپنی پیدائش سے پہلے کے معاملات کو بھی نظریہ پاکستان کا حصہ بناڈالا۔خبریں تو اور بھی عالمی میڈیا میں چھپتی تھیں ایک تو ادھر جاتے ہوئے ٹانگیں کانپتی تھیں دوسرا وہاں کی اطلاعات تک رسائی عام آدمی کے بس سے باہر تھی ۔مثلا” ان دنوں نیویارک ٹائمز کے صحافی سڈنی سچانبرگ "Sydney Schanberg”نے ڈھاکہ سے 4 جولائی 1971 کو اپنے اخبار کو ہیڈ لائن دیتے ہوئے لکھا تھا۔کہ مغربی پاکستان کی افواج اپنی مرضی مشرقی پاکستان پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔دنیا کو یہ خبر نہیں ہے کہ وہ فوجی نہیں بلکہ قصائی ہیں؟ وہ اپنی تحریر میں مزید لکھتا ہے یہاں انسانوں کا مسلسل قتل عام ہو رہا ہے۔آپریشن "جیک پاٹ” میں بنگالی دانشوروں اور پروفیسروں کو ان کے گھروں اور دفتروں میں مارا جاتا ہے۔اب تو وہ عام عوام کو بے رحمانہ انداز میں مار رہے ہیں۔ پاکستانی فوج نے گاوں کے گاوں مٹا دیئے ہیں۔وہ صبح ہوتی ہی عوام پر فائر کھولتے ہیں اور اس وقت ختم کرتے ہیں جب تھک جاتے ہیں۔ان کوبنگالی عوام سے زیادہ مشرقی پاکستان کی سر زمین پر قبضے میں دلچسبی ہے۔مگر بنگالی عوام بھی آخری حد تک مزاحمت کر رہے ہیں۔عوام کی طاقت عوامی تحریک کے ساتھ تھی وہ غالب ہوگئی۔ آخر کار 16 دسمبر 1971 کو مکتی باہنی اور ہندوستانی افواج نے ڈھاکہ پر قبضہ کرلیا۔جبکہ اس دن کے پاکستانی ڈان اخبار کی سرخی یہ تھی کہ ہم ہر فوجی محاذ پر دشمن کو شکست دے رہے ہیں۔4 دن بعد پاکستانی جنرلوں نے 20 دسمبر 1971 کو جنرل یحیئی کو ہٹا کر ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپ دیا۔اس نے آتے ہی سب سے پہلے سویلین مارشل لا مغربی پاکستان میں لگایا۔شیخ مجیب الرحمان کو با عزت طریقے سے مغربی پاکستان میں رہا کرنا پڑا کیونکہ 93000 پاکستانی فوجی اس کے قیدی بن چکے تھے۔ذوالفقار علی بھٹو کے پاس وقت تھا وہ بہتر اور سیکولر آئین لاسکتا تھا۔مگر اس نے اپنے منشور میں بنیادپرستی کی پیوندکاری کرنے کو سیاسی چال بنایا ۔آگے چل کر جب یہی جنرل ان کو پھانسی گھاٹ تک لے جانے میں مصروف تھے تو اس نے کہا میری مجبوری یہ تھی۔کہ اسلام اس ریاست کی بنیادتھی۔جوبھی سیاسی جماعت، اسلام کو اپنے پروگرام سے نکالتی اس کو یہاں کی مقتدرہ اقتدار تک پہنچنے نہیں دیتی۔ ۔اچھائی اور برائی دو متضاد عمل ہوتے ہیں ان کے بھی چین ری ایکشن ہوتے ہیں۔بھٹو نے 1973 کے آئین میں مذہبی انتہا پسندی کو جگہ دی۔جنانچہ کچھ مہینے بعد مئی 1974 میں پنجاب کے ایک گاوں” ربواہ” کے ریلوے اسٹیشن پر احمدی اور سنی مسلک کے پیروکاروں کے درمیان فساد ہوا۔حالانکہ احمدی مسلک نے انتخابات میں بھٹو کی حمائت کی تھی۔مگر بھٹو کو اپنا اقتدار عزیز تھا اس نے مذہبی شدت پسند بیانیئے کا ساتھ دینے کا اعلان کیا۔جن شدت پسندوں کو لاہور ہائی کورٹ اور قرار داد مقاصد میں شکست ہوئی تھی۔ اس کا نتیجہ ایسے بھونچال کی شکل میں نکلا کہ ان کو بغیر کسی بڑی لڑائی کے ایک بہت بڑی فتح مل گئی۔جس کے تباہ کن اثرات آج مکران جیسے روادار علاقے تک پھیل گئے ہیں ۔جدید دورمیں سیاست ایک پولیٹکل سائنس ہے۔آپ اگر اس سائنس کو روائیت ،جاگیردار ذہنیت اور جنرلوں کی چھڑی کے ساتھ اکٹھا کر کےطچلاو گے تو ایسا ہی ہو گا نا اقتدار بچےگا اور ناہی مروج جمہوری اقدار بچیں گی ۔اس کا اظہار دنیا کے سامنے ہو رہا ہے۔ہندوستان کا خلائی مشن چاندپر پہنچ چکا ہے۔مگر ہم 60 فٹ پر معلق فلائی کشتی(ڈولی) میں سوار 8 پھنسے اسکول کے بچوں کو پورا دن لگا کر نہیں اتار سکے۔دنیا اس ٹیکنالوجی کے دور میں ہمارے تماشے دیکھ رہی ہے۔ہماری دید کمزور ہے تو اس کی سزا جلد یا بدیر ہم سب کو بھگتنی ہوگی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں