شہید نواب بگٹی کی شخصیت! بلوچی دوستی و دشمنی کا اعلیٰ پیمانہ !!

تحریر: حفیظ حسن آبادی
1959ءمیں جب نواب اکبر بگٹی جیل میں تھے اس جیل میں نواب نوروز خان زرکز کی اپنے پیاروں کے ساتھ مقدمات کا سامنا کر رہے تھے تو ایک دن ایک وجیہ نو جوان سردار عطاءاللہ مینگل نے ملاقات ہوئی تھی لیکن رکھی ملاقات دوستی اور سیاسی سفر کا آغاز اس وقت ہوا جب 18 مہینے جیل کاٹنے اور 50 ہزار جرمانہ ادا کرنے کے بعد نواب بگٹی کوئٹہ آئے یہاں کوئٹہ میں چار یار کا دور شروع ہوا یہی سے ایوب خان کے الیکشن میں بلوچ قیادت نے حصہ لینے کے فیصلہ کیا اور قلات ڈویڑن کی نشست سردار عطاءاللہ مینگل اور کوئٹہ ڈویژن کی نشست سردار خیر بخش مری نے جیتی۔ انہی دنوں سے بلوچستان کی سیاست کے افق پر یہ چار نام چھا گئے۔ انکی وجہ شہرت یہ نہیں رہی کہ یہ سیاست کرتے یا منتخب نمائندے ہوکر اسمبلیوں میں جاتے رہے یا یہ بڑے سردار تھے (میر بزنجو کے علاوہ) بلک ان کی وجہ شہرت سیاسی مزاحم تھی جو حقیقی طور پر ہوتی تھی جس کی وجہ سے سرکار کے لیے بلوچستان میں اپنی عملداری برقرار رکھنا مشکل نظر آرہا تھا 18 اکتوبر 1958ءکو شروع ہونے والی جنگ تین سال کے وقفے کے بعد ڈیرہ بگٹی، کوہستان مری، جھالاوان کو بھی اپنی لپیٹ میں لینے میں کامیاب ہو گئی نو سال تک مسلح جدوجہد کے بعد بلوچ قیادت پاکستانی حاکموں کے جھانسے میں آگئی۔ بظاہر گفت وشنید وجدوجہد کا میاب رہی کیونکہ ون یونٹ تو ڑا گیا اور صوبے بحال ہوئے لیکن بلوچ قیادت سے اپنی سیاسی زندگی کی پہلی سنگین سیاسی غلطی سرزد ہوئی۔ ڈیرہ غازی خان اور جیکب آباد کو واپس بلوچستان میں شامل کرنے کے مطالبے سے ایسے دستبردار ہوئے کہ بعد میں کبھی اس کی طرف غلطی سے بھی حقیقی طور پر نہیں لوٹے۔ ان چاروں بلوچ سیاسی سربراہوں کی قیادت میں نیپر 1970ءکے الیکشن میں گئی۔ ( گو کہ نواب بگٹی نیپ کے باقاعدہ رہبر نہیں تھے) بلوچستان کی 20 سے 11 نے حاصل کیں جن میں سے 3 نشستوں پر نواب بگٹی کے حمایتی کامیاب ہوئے۔ نواب صاحب نے خود ان انتخابات میں حصہ نہیں لیا کیونکہ آپ ایوب کے مارشل لائی دور میں قیدی رہے تھے اور سابقہ قیدیوں کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن جن جن لوگوں نے درخواست دی۔ انہیں اجازت مل گئی نواب بگٹی کو بھی اجازت مل جاتی اگر آپ درخواست دیتے اس سلسلے میں خود یحییٰ خان کا پیغام بھی انہیں ملا تھا کہ وہ درخواست دے دیں، انہیں اجازت دی جائے گی لیکن نواب صاحب چونکہ اصولی آدمی تھے آپ نے شکریہ کے ساتھ ان کا یہ مشورہ مسترد کر دیا۔ نواب صاحب کی خواہش تھی کہ اگر ایسی بات ہے تو میرے دوست جو ہر روز میرے ہم نشین ہیں وہ بیٹی خان کے پاس اکثر جاتے رہتے ہیں اگر انہیں مجھے اپنی صفوں میں دیکھنے کی خواہش ہے وہ خود بیلی خان سے کہیں گے کہ بگٹی صاحب پر پابندی ہٹاﺅ۔ اگر دوست اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے تو مجھے خواہ مخواہ آگے آنے کی ضرورت نہیں۔ ہمارے خیال میں دوستوں کے درمیان غلط فہمیوں کی ابتداءہی سے ہوئی ایسے میں کسی بھی آدمی کے ذہن میں فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یحییٰ خان خود قاصد بھیجتا ہے کہ آپ درخواست دے دیں ہم پابندی ہٹائیں گے لیکن میرے دوست روز میرے ساتھ بیٹھ کر اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اس ذہنی کوفت کے باوجود نواب بگٹی صاحب نے نیپ کے تمام پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ایک اندازے کے مطابق نیپ کے انتخابی اخراجات کا سب سے بڑابو جھ نواب بگٹی نے برداشت کیا کیونکہ نیپ کی اکثر قیادت مالی طور پر بہت کمزور تھی۔
دوسری دفعہ نواب بگٹی کے اس خیال کو کہ دوست مجھے اپنے درمیان دیکھنا نہیں چاہتے اس وقت تقویت ملی جب 1971ءمیں آپ ڈھاکہ میں دھان منڈی میں شیخ مجیب الرحمن سے ملے، اس ملاقات میں شیخ مجیب نے مکمل پروٹوکول کے ساتھ نواب بگٹی کی آﺅ بھگت کی۔ انہیں اپنی صوبائی خود مختاری کے پروگرام سے آگاہ کر کے اس کی ایک کاپی بھی دی۔ اس دستاویز میں تفصیلی طور پر صوبوں کے اختیارات اور قومیتوں کے حقوق کے تحفظ کی گارنٹ دی گئی تھی لیکن اگلی صبح جب ڈھا کا میں نواب بگٹی نے اخبار کھول کر دیکھا اس میں سرخی تو یہ تھی کہ نواب بگٹی کے مذاکرات واعلانات سے نیپ کا کوئی تعلق نہیں اور اس سے بڑھ کر یہ کہ اکبر خان بلوچستان کا نمائندہ بھی نہیں ورنہ وہ کوئی نتخب نمائندہ ہے۔ یہ ایک ایسی سکی تھی کہ ایسے برداشت کرنے کے لیے بھی اکبر بگٹی جیسا حوصلہ چاہیے تھا۔
نواب صاحب کے بقول اس نے زندگی میں بہت دکھ دیکھے ہیں لیکن دود کھ سب سے شدید تھے ایک یہ دکھ کہ جب میں مجیب الرحمن سے ملا کامیاب مذاکرات کئے مشترکہ پریس کانفرنس کی تو پیچھے سے دوستوں نے میری توہین کر کے ایسا بیان دیا دوسرا بڑا دکھ اس وقت پہنچا جب سلال کی شہادت کی خبر ایک ڈاکٹر نے بے اعتنائی سے دیتے ہوئے کہ ”سلال ہم میں نہیں رہے۔“
حالانکہ نواب صاحب اور مجیب الرحمن کی مشترکہ پریس کا نفرنس میں و با تیں کی گئی تھیں وہ بالکل وہی باتیں تھیں جو نیپ کی قیادت کوئٹہ سے پشاور تک کرتی آرہی تھی۔ لیکن یہی با تیں نواب بگٹی کی زبانی سنتے ہی اس کی بنک کے لیے یہ بیان جاری کیا گیا۔ اس پر یس کا نفرنس کے بعد کار و عمل دیکھ کر آج کل بلوچ قومی تحریک کے ساتھ بی این پی مینگل اور نیشنل پارٹی کا موقف ڈڈ وایولگتا ہے یعنی اگر بات اور بیانات کی بات ہے تو ہم ساتھ ہیں لیکن اگر عملی قدم اٹھانے کی باری آتی ہے تو ہمیں معاف کر دو آپ جائیں آپ کاکام جائے۔ نیپ کی قیادت بنگالیوں کا ساتھ جب جلسے جلوس کی حد تک ساتھ دینا چاہتے تھی جبکہ اکبر خان بگٹی نے چھیتی کا یقین دلا کر ان کا نیپ کی قیادت کا کام بگاڑ دیا تھا نہیں خبرتی کہ پنجاب بنگال کو اقتدار نہیں سونے گا اور جنگ چھڑ جائے گی تب واقعی یکجہتی کی صورت میں بلوچستان اور صوبہ سرحد میں جلسہ جلوسوں سے بڑھ کر کچھ کرنا پڑے گا تا کہ مغربی پاکستان مشرقی پاکستان میں بربریت سے باز رہے۔ آج بھی حقوق مانگنے اور اخباری بیانات کی حد تک تو سب نواب بگٹی کے ساتھ تھے لیکن جب حقیقی چیلنج کا وقت آیا تو سب ہوا میں تحلیل ہو گئے۔
اس شدید دکھ کے باوجود نواب بگٹی نے نیب کو نہیں چھوڑا۔ ساتھ چلتے رہے اس دوران نیپ کی قیات بنگالیوں کے حق میں بیانات دیتی رہی جب جنگ میں شدت آئی اور لاکھوں جانوں کی قربانیوں کے بعد بنگال کی آزادی کا اعلان ہوا تو نواب اکبر بگٹی نے دوستوں کے سابقہ بیانات کو حقیقت سمجھ کر 16 دسمبر 1971ءکی شام کو کوئٹہ میں ایک تاریخی ریلی نکالی جس میں دیکھتے ہی دیکھتے سینکڑوں لوگ شریک ہوئے لوگ فرط جذبات سے سرشار اندرا گاندھی زندہ باد، جنرل اروڑ از زندہ باد جنرل نیازی مردہ باد کے نعرے لگارہے تھے۔ نواب صاحب کا خیال تھا کہ اس رات وہ اپنی زندگی کا خطرناک ترین بازی کھیل کر بلوچستان کی آزادی کا اعلان کریں گے۔ ان کی نظر میں پاکستان اخلاقی اور معاشی طور پر بر باد ہو چکا ہے اس ظالم کے ہاتھ سے نکلنے کا یہ بہترین موقع ہے اگر ہم بلوچ بنگالیوں کی طرح اٹھے تو پاکستان ہمیں مزید مقبوضہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان نے ہمیں بہت دکھ اور دھو کے دیے تھے یہی نجات کا موقع تھا لیکن اسی رات میرگل خان نصیر نے ہنگامی پریس کانفرنس بلا کر اعلان کیا کہ اکبر خان کی سرگرمیوں سے نیپ کا کوئی تعلق نہیں وہ جو کچھ کر رہا ہے اسے ہماری حمایت حاصل نہیں اس کا مطلب ہے وہ اب بھی سیاست اور بیانات کی حد تک پاکستان کو ڈرانا چاہتے تھے حقیقی طور پر انہیں کوئی آزادی نہیں چاہیے تھی۔ چوتھا دکھ اس وقت پہنچا جب نیا پاکستان بنا اور پاکستان سمیت بلوچستان میں حکومت سازی کی نوبت آئی تب بھی دوستوں نے نواب اکبر خان کو یکسر فراموش کر دیا۔ نیپ کو اسمقام تک لانے میں انتھک کوششوں کے بعد بھی کسی نے آپ سے مشورہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی اور نواب بگٹی نے دوستوں کی طرف سے پے در پے جنگ کے بعدشعوری طور پر مفت میں مشورہ دینے کو اپنے لیے مناسب نہیں سمجھا۔ خاموشی سے سب کچھ دیکھتے رہے کہ دوست کہاں تک اسے نظر انداز کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلوچستان کی حکومت بنائی گئی سردار عطاءاللہ مینگل وزیراعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو گورنر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نواب اکبر بگٹی عام انداز سے زیادہ برداشت کرنے والے نکلے اتنی ہتک کے باوجود دوستوں کے خلاف کہیں بھی کوئی بھی شکایت نہیں کی لیکن ان کی ایک ایک بے وفائی کو دل میں ضرور گنتے رہے۔
پانچویں مرتبہ اس وقت اس کی نیکی کی گئی جب نیپ کے ایک اجلاس میں محمود عزیز کرد نے اجلاس سے کہا کہ ہمارے درمیان ایک غیر موجود ہے وہ اس محفل سے اٹھ کر چلا جائے اس کے اس اعلان کے بعد بھی بگٹی صاحب بیٹھے رہے کیونکہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ کوئی اسے محفل سے اٹھ جانے کا کہہ سکتا ہے تو بعد میں ایک سینئر زمرد حسین نے اٹھ کر نواب صاحب کی دوستوں کے بارے میں خوش فہمیوں کو کا فور کرتے ہوئے کہا یہ نیپ کا اجلاس ہے اور اس میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نیپ کے ممبر نہیں ہیں وہ نکل جائیں۔ حالانکہ یہ نیپ کا پہلا اجلاس نہیں تھا اس سے پہلے تمام سر براہی اجلاس نواب بگٹی کی موجودگی میں ہوتے رہے تھے اور کئی ایک بار میٹنگ تو اس کی اپنی بیٹھک میں ہوئے تھے۔ ایک سیلر کے ہاتھوں بلوچستان کی ایک معتبر شخصیت کی ایسی توہین دوستوں کی رضا مندی کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ نواب بگٹی اٹھ کر چلے گئے کسی نے نہیں روکا کسی نے بعد میں اس حرکت پر معذرت نہیں کی۔ نواب بگٹی کے محفل سے باہر نکالنے کی بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی اس وقت نیپ کی حکومت آہستہ آہستہ بھٹو کے لیے ناقابل قبول ہورہی تھی وہی معمولی مراعات جو مینگل حکومت بلوچوں کے لیے حاصل کرنا چاہتی تھی اسلام آباد دینے کو راضی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود وہ براہ راست کسی بڑی قوت کے بغیر انہیں کنارہ نہیں کر سکا تھا لہذا اس کی نظر زخمی شیر پر پڑی جسے دوستوں نے اپنی انا پرستی و نادانی یا کسی شیطانی ذہن کی شرارتوں سے از حد ناراض کیا تھا۔نواب بگٹی اور مسٹر بھٹو ایک دوسرے کو پچاس کی دہائی سے جانتے تھے ان کے والدین نواب محراب خان کئی اور شاہنواز بھٹو ایک دوسرے کو جانتے تھے۔ لہذا بلوچستان کو ہمیشہ کی طرح کچھ دینے کے بجائے مانگنے کی سزا کی تیاری بھٹو کے ذہن میں آئی اور نواب بگٹی کو کوئٹہ میں ہر لحاظ سے تو لفٹ دیکھتے ہوئے انہیں اپنے ساتھ ماسکو جانے کی دعوت دی نواب بگٹی راضی ہوگئے۔ ماسکو پہنچنے کے بعد آپ وہاں بھٹو کے جانے کے بعد بھی کچھ دن رکے بعد میں وہیں سے لندن روانہ ہو گئے ماسکو سے لندن پہنچنے اور یہاں قیام تک کوئی ایسا تاثر نہیں ملا کہ آپ بلوچستان میں نیپ کی حکومت کے خلاف کچھ کرنا چاہتے ہیں یاوہ بھٹو کی کسی سازش کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ معاملہ اس وقت بگڑ گیا جب آپ کا بھائی احمد نواز بگٹی سردار عطاءاللہ مینگل کے خدشات کا اظہا ر لے کر لندن پہنچ گئے۔ حمد نواز بگٹی نے نواب سے کہا کہ سردار مینگل اور دوسرے پی لیڈروں کو شک ہے کہ آپ اندن میں بیٹھ کر ہماری حکومت کے خلاف کوئی سازش کر رہے ہیں۔ ہمیں اس چیز کا علم نہیں کہ اس ملاقات سے پہلے نواب بھٹو کے ساتھ کوئی منصوبہ بنا چکے تھے تا ہم اس پیغام کا جواب سخت لہجے میں یہ کہ کر بھیجا کہ اگر پہلے میرے ذہن میں کسی سازش کا خیال نہیں آیا تھا لیکن اب سردار مینگل کے کہنے کے بعد اس پر ضرور سوچوں گا جن کرسیوں پر وہ بیٹھے ہیں انہیں اچھالوں گا لہذا سردار مینگل اور میر بزنجو اپنے دوست زمرد حسین اور محمود عزیز کرد سے کہہ دیں کہ وہ ا±ن کی کرسیوں کی ٹانگیں مضبوطی سے تھامے رکھیں اور ساتھ میں اپنے بھائی احمد نواز بگٹی کوحکم دیا کہ وہ مینگل کا بینہ سے استعفیٰ دے لیکن احمد نواز نے استعفی نہیں دیا اس پر کئی قبیلے کے کئی میر و معتبر برہم ہو گئے اور انہوں نے احم نواز پر دباو¿ ڈلا کہ وہ نواب کی بات کی بے حرمتی نہ کریں۔ اس کے جواب میں بلوچستان کی صوبائی حکومت نے نواب بگٹی کے گھر کو گھیرے میں لے لیا اور سلیم بگٹی کو غیر پسندیدہ سرگرمیوں کا ملزم قرار دے کر گرفتار کرنے کا حکم جاری کیا۔ لاو¿ڈ اسپیکر کے ذریعے ا±سے گھر سے ہاتھ اوپر اٹھا کر نکلے اورخود کو پولیس کے حوالے کرنے کے اعلانات سے کوئٹہ گونج اٹھ اس وقت جب نواب بگٹی کا گھر چاروں طرف سے گھیرے میں تھا سلیم اکبر بگٹی نے نواب صاحب سے لندن میں ٹیلیفون کے ذریعے بات کی اور پوچھا کہ اس صورتحال میں آپ کا کیا حکم ہے میں گرفتاری دے دوں یا لڑوں تو نواب صاحب نے کہا ”بیشک گولی کھا کر مر جاﺅ لیکن ہتھیار پھینک کر سرنڈر نہیں کرنا۔ ہماری نظر میں یہ وہ آخری قطرہ تھا جب نواب بگٹی صاحب کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور بعد میں وہی ہوا جو نہیں ہونا چاہئے تھا اور جس پر تاریخ میں ہمیشہ بحث ہوتی رہے گی ان واقعات پر بگٹی صاحب نے خود کہا تھا کہ میں نے دوستوں سے بلوچی حساب سے فکر لی جو قدم قدم پر میری بہتک کر رہے تھے اس بلوچی انتقام کی تپش تو تو مہینے تک بلوچستان کو سلگانے میں بھٹو کیلئے کارآمد رہی لیکن جب کراچی میں سردار عطاءاللہ مینگل کے گھر پولیس نے چھاپہ مارا تو نواب صاحب نے استعفیٰ دے دیا کہ میرا سردار مینگل کے ساتھ سیاسی اختلاف ہے میں ا±س کے گھر کی بے عزتی برداشت نہیں کرتا کیونکہ ا±س کا گھر میرا اپنا گھر ہے۔
حرف آخر : لوہا لوہے کو کاٹنا کے مترادف پاکستانی حکمرانوں نے گذشتہ باسٹھ برسوں سے اسی اصول کے تحت ہمارے اندرونی تضادات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں ایک دوسرے کے خلاف دست وگر بیاں کرتے ہوئے اپنا الو سیدھا کیا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری وساری ہے لیکن نواب اکبر خان بگٹی کی عظمت اس میں ہے کہ آپ نے بر وقت جان لیا کہ دوستوں کی تمام بے وفائیوں کے باوجود وہ درست نہیں کر رہا تو خود کو الگ کرلیا اگر آپ چاہتے تو مزید کچھ عرصے کے لیے گورنر رہ سکتے تھے لیکن دوستوں کو یہ احساس دلانے کیلئے یہ نو مینے کا دباﺅ کافی تھا کہ کرسی پر بیٹھنے والا اپنے وقتی کروفر کے گھمنڈ میں نہ رہے اور اس حقیقت کو ہر وقت ذہن میں جاگزیں رکھے کہ جو دوستوں اور محسنوں کی قدر نہیں کرتے انہیں زمانہ بھیانک سزا دیتا ہے۔نواب بگٹی نے دشمن ہو کر سردار عطاءاللہ مینگل کے گھر پر چھاپے کو اپنی تو ہین سمجھ کر گورنری سے استعفیٰ دے دیا لیکن آج ہر بلوچ کی چادر و چاردیواری کا تقدس پامال ہورہا ہے نہ ستر سالہ گلناز کی جان گولیوں سے محفوظ ہے نہ جو انسال زرینہ مری کی عصمت۔ معزز بلوچوں کو مرغا بنایا جاتا ہے ا±ن کی داڑھی اور سر کے بال مونڈ دیئے جاتے ہیں ان کے شلوار تک کاٹ دیئے جاتے ہیں یوں ا±ن کی ہزار سالہ تاریخ وقومی حمیت کا مذاق اڑایا جاتا ہے لیکن کچھ لوگ برسراقتدار ہوتے ہوئے اپنی قومی بے حرمتی پر بے حسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔
اپنے مظلوم بہن بھائیوں کی بجائے ا±س دشمن کے ساتھ میں جو تل تو کرتا ہے لیکن بزدلی سے چوروں کی طرح انکار کرتا ہے ایسے لوگوں کی غیرت و دشمنی دیکھ کر ان لوگوں پر رشک آتا ہے جو نواب بگٹی سے دشمنی کا شرف رکھتے ہیں جس نے کبھی پیٹھ پیچھے وار نہیں کیا جب بھی حملہ کیا پہلے ضرور لگا را آپ دوستی میں اپنی مثال آپ تھے اور دشمنی میں بھی اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے آج کے صاحب اقتدار اور آئندہ اقتدار میں آنے کے لیے بے قرار بلوچ رہنما اگر دوستی نبھانے میں اکبر بگٹی کے برابر نہیں آسکتے تو کم از کم دشمنی کے رموز آپ کے کردار سے سیکھیں۔ اور آخر میں صرف اتنا کہ شہید نواب اکبر خان بگٹی کے شرکت اقتدار کو درست یا غلط کہنا ہر شخص کیلئے اس وقت بہت آسان ہوگا جب وہ مذکورہ واقعات کو ترتیب کے ساتھ نظر سے گزارے اور خود کو نواب بگٹی کی جگہ بیٹھا کر سوچے کہ اگر میں نواب بگٹی کی طرح طاقتور ہوتا اور میرے دوست میرے ساتھ ایسے کرتے تو میں کیا کرتا؟۔
ذاتی مفادات کے حصار میں گرفتار ایک دست نگر قوم اپنی ملکیت پر کہاں کھڑی ہو سکتی ہے اسے حق ملکیت سے ہمیشہ کیلئے دستبردار کرنے کے لیے ایک دھکا کی ضرورت ہوتی ہے اور اس دھکے سے لڑھک کر پستیوں کی طرف جانے کو تیار ہے تو ٹھیک نہیں تو بھر پور طاقت کے ا±سے کچل کر اسے اس قومی حیثیت کے مزید غرور سے محروم کیا جائیگا۔ اسلام آباد کی اس طرح کی سوچ کے پیچھے ا±ن کے قاصدوں کا یہ اظہار یہ بالکل کافی ہے، جو انہوں نے بلا جھجک کہا ہے کہ بلوچستان کے بڑے بڑے لیڈر مجبوری میں سخت بیانات جاری کرتے اور ا±ن کے بیانات سے آگ برستی ہے۔ لیکن اسلام آباد کے اعلیٰ حکام کے سامنے غیر معمولی طور پر غیر متوقع بہت نرم و لچکدار دکھائی دیتے ہیں۔ اس ڈپلو میٹک حملے کو اگر عام زبان میں ترجمہ کیا جائے تو اس کا مطلب ہے یہ ناراضی و مزید برداشت نہیں کریں گے جیسے بیان دینے والے اس قدر ناراض نہیں اور ا±ن کا مزید لا امتناعی ہے وہ اپنے مطالبات پر کبھی بھی ثابت قدم نہیں رہتے۔ وہ اپنے لوگوں کو خوش کرنے کیلئے یہ بیان دیتے ہیں لیکن اسلام آباد سے ا±ن کی خفگی محض لفاظی ہے۔ وہ اسلام آباد کے اشاروں پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے ،شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار نکلتے ہیں۔
ان کم خریدوں کی جھرمٹ میں مرکز نے نواب اکبر بگٹی شہید و بالاچ مری کو ہر حساب سے تنہا سمجھا۔ اس خیال اور ایسے غرور میں مبتلا قوم کمزورونا توان و غلام سمجھے جانے والی قوم کے ساتھ دوسرا رویہ اختیار کرہی نہیں سکتی۔ اس ملک کی سب سے بڑی جمہوری لیڈر بینظیر بھٹو بھی نواب اکبر بگٹی شہید کی جرا¿ت و ایمانداری سے سیخ پا ہوگئی تھیں۔ جب نواب صاحب نے 1988ءمیں صوبے کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی مرکز سے مطالبہ کیا کہ ہمیں گرانٹ فنڈز کے نام پر خیرات نہیں بلکہ ہمیں 1952ءسے لیکر آج تک کے سوئی گیس کے حصے کے واجبات ادا کئے جائیں اور آئندہ آمدنی کا حصہ بروقت ملنے کا میکانزم ترتیب دیا جائے۔ یہ ایک معمولی مطالبہ تھا، لیکن اسلام آباد اس موضوع اور اس نوعیت کے سوال پر سوچنے پر بھی آمادہ نہیں ہوا۔ کئی اخباروں کے اشتہارات صرف اس بات پر بند کئے گئے جو نواب صاحب کے ایسے مطالبے کی تشہیر میں مجرم قرار پائے۔ اگر بلوچستان بارے اسلام آباد کے حاکموں کے ذہن میں غلام کا تصور نہیں ہوتا، گو اس نوعیت کے ہر لحاظ سے جائز سوال و مطالبہ پر برہم ہونے کی قطعتا ضرورت نہیں تھی۔
ایک معمولی مطالبہ کہ گیس کمپنیوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں بلوچستان کو نمائندگی دی جائے، ڈیرہ بگٹی فورسز کے ذریعے گھیرے میں لینے کی کیا ضرورت تھی۔ ایسا ہی درست مطالبہ اسلام آباد کے سامنے رکھنے کی پاداش میں نواب صاحب کے خلاف اسی کی دہائی سے ریشہ دوانیوں میں شدت پیدا کی گئی اور بات آخر میں اس حد تک پہنچ گئی کہ بینظیر بھٹو نے نواب صاحب کا عمل دخل گیس کمپنی سے مکمل طور پر ختم کردیا۔ تمام معاہدات جو نواب صاحب اور ا±س کے والد صاحب کے ساتھ مرکز نے پی پی ایل کی شکل میں کیے گئے تھے۔ سب سے ڈنڈے کی زور پر انکاری ہوئی دوسری طرف نواب صاحب کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان کھڑا کیا گیا اور یہ افواہ پھیلائی گئی۔ جیسے اسلام آباد گیس کے واجبات ابھی تک ادا کرتا آیا ہے لیکن نواب بگٹی نے اسے بلوچوں تک نہیں پہنچایا ہے۔ یہ ایک گھناﺅنا جھوٹ تھا حقیقت یہ تھی کہ جب 1952ءمیں برٹش کمپنی نے نواب محراب خان بگٹی سے جو معاہدہ کیا تھا اس کی رو سے کمپنی اس علاقے میں جو بھی چیز استعمال کرے گی۔ ا±س کا معاوضہ مالک کو ادا کرے گی۔ اس میں لکڑی، پانی، ریت غرض جو بھی چیز استعمال میں لائی جائے گی، اس کا معاوضہ زمین کے مالک کو ادا کیا جائے گا۔ کمپنی نواب صاحب کی زمین کے کرایہ کو معاوضہ کہہ کر مکروہ جھوٹ سے عام بلوچ کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی تھی تا کہ وہ اس سلسلے میں نواب صاحب کے اسٹینڈ کی حمایت نہ کریں۔
اس کے علاوہ بلوچی رواج کے مطابق سردار کے مہمان خانے میں خوشی تھی، بجار قبیلے کے لوگ کہتے ہیں تقریباً پندرہ سو کے قریب بگٹی گیس کمپنی میں ملازم تھے وہ اس خوشی غمی میں اپنی تنخواہ کا دس فیصد نواب صاحب کو دیتے تھے۔ کمپنی اس کو بھی واجبات کی مد میں گن کر غلط افواہیں پھیلاتی رہی۔ اس زہریلے پروپیگنڈے کے ساتھ ساتھ نواب صاحب کے مخالفین کو بینظیر بھٹو کی حکومت نوازنے لگی۔ وہ لوگ جو ضیاءالحق کے زمانے میں اسلام آباد کے قریب آگئے تھے، وہی لوگ پیپلز پارٹی کیلئے نواب صاحب کو کنارہ کرنے کے لیے قابل قبول ہوئے، جس سے یہ بات واضح ہوئی کہ اسلام آباد نواب بگٹی کی آواز کو دبانے کیلئے شیطان سے بھی اتحاد کو راضی ہے تا کہ ایسانہ ہو کہ نواب صاحب اس مسئلے کو ڈیرہ بگٹی کے دائرے سے نکال کر بلوچستان کے سیاسی مسائل سے جوڑ دیں۔ بلوچ قیادت کی کور بینی کہیے کہ بینظیر بھٹو اپنی اس چال میں کسی حد تک کامیاب ہوگئی، گو کہ یہی باتیں سن دو ہزار میں نواب صاحب نے کیں۔ ا±س وقت بھی یہی باتیں کرتا رہا لیکن کئی ایک سیاسی جماعتیں مرکز کی سازشوں کا حصہ بنیں، نواز شریف کو بینظیر بھٹو دونوں کے ادوار میں نواب صاحب کے قلعے پر ایف سی کی طرف سے فائرنگ کے واقعات رونما ہوتے رہے۔ 1997ءمیں نواز شریف کی حکومت تھی۔ صوبے میں بلوچ قوم پرستوں کی حکومت تھی۔ نواب صاحب کے قلعے پر فائرنگ کی خبر ایک دن اخبار میں چھپی تھی ہم نے وہی خبر ایک قوم پرست جماعت کے ایم پی اے کو دکھائی اور کہا دیکھو نواب صاحب اور مرکز کے درمیان ٹھن گئی ہے اور فورسز فائرنگ کر رہی ہیں۔ جب دونوں طرف سے فائرنگ ہوتی ہے تو کسی بھی ناخوشگوار واقع کے رونما ہونے کے امکانات ہر وقت رہتے ہیں لیکن بدقسمتی سے نواب صاحب سے آپ کی جماعت کا اتحاد ٹوٹ گیاہے لیکن بحیثیت بلوچ ا±سے ایسے موقع میں تنہا نہیں چھوڑنا چاہئے“۔ موصوف نے انتہائی اطمینان سے کہا کہ نواب صاحب اسلام آباد کو بلیک میل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام آباد ایسا کرنے نہیں دیتا۔ اس لئے ڈیرہ بگٹی اور اسلام آباد کی جنگ سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔
جب کسی قوم کے رہنما اس حد تک ناعاقبت اندیش ہوتے ہیں تو انہیں کوئی حق نہیں دیتا، بلکہ انہیں خیرات بھی ا±س وقت تک ملتی رہے گی کہ جب تک ا±ن کے درمیان کوئی سردار مری و نواب بگٹی جیسے لوگ ہوں گے۔ انہیں تنہا و الگ کرنے کیلئے سرکار کچھ قبائلی وسیاسی لیڈروں کے سامنے خیرات کے ٹکڑے چھینکتی رہے گی۔ اس چیز کا فائدہ ا±ٹھاتے ہوئے ضیاءالحق کے مارشل لاءکے سیاسی پیداوار نواز شریف نے بھی نواب صاحب کی استقامت کی ڈر سے انہیں صوبے میں بھاری اکثریت رکھنے کے باوجود حکومت بنانے نہیں دیا۔ صوبائی اسمبلی میں 14 نشستیں رکھنے کے باوجود نواب بگٹی کی جمہوری وطن پارٹی (جے ڈبلیو پی) پیچھے اور نواز شریف کی مسلم لیگ، تاج جمالی کی سربراہی میں آگے آگئی۔ تاج جمالی نواب صاحب کی نسبت اسلام آباد کو ہر لحاظ سے سوٹ کرتا تھا۔ ایک تو یہ خاندان جدی پشتی مسلم لیگی ہے، دوسرا تاج جمالی وہ شخص تھا۔ جو اپنے اور اپنے جیسے دوسرے بلوچستان کے تمام لیڈروں (بگٹی صاحب کے بغیر) کے بارے میں اکثر کہتے تھے جب ہم اسلام آباد میٹنگ کیلئے جاتے ہیں تو ہمارے پاس ایک سفید کاغذ ہوتا ہے اور وہ بھی ہم سے پہلے ٹیبل پر رکھا ہوتا ہے جبکہ نواب بگٹی صاحب جب جاتے ہیں تو وہ پوری تیاری کے ساتھ، ہر مسئلے کی الگ فائل بنا کے جاتے ہیں۔ اسلام آباد کے بیورو کریٹ ہمیں اعداد و شمار میں الجھا دیتے ہیں۔ جس سے ہمیں بالکل پتہ نہیں چلتا کہ کیا اچھا، کیا یا ہے۔ لہٰذا اپنی کم علمی کی وجہ سے ہم خاموش ہو جاتے ہیں۔ اس کیفیت میں وہ جو بھی تجویز دیتے ہیں ہم ہاں کر کے واپس آجاتے ہیں، جبکہ نواب بگٹی صاحب کے سامنے اسلام آباد والوں کا منہ نہیں کھلتا۔ اس کے پاس ا±ن کے ہر سوال کا دلیل کے ساتھ جواب موجود ہوتا ہے مختصر یہ کہ ہم اسلام آباد والوں کے سامنے بھیگی بلی بنتے ہیں۔ جبکہ نواب بگٹی کے سامنے ا±ن کی بولتی بند ہوجاتی ہے۔ نواب صاحب کی یہی قابلیت اسلام آباد کے ارباب اقتدار کی آنکھ میں ہمیشہ کانٹے کی مانند شکتی رہی۔ 1990ءمیں نواز شریف نے بینظیر بھٹو کے روکے ہوئے واجبات ادا کئے۔ لیکن مجموعی طور پر نواب صاحب جس طرح زیر عتاب تھے۔ اسی طرح مسلسل دباﺅ میں رہے یا یوں کہا جائے کہ مرکز اپنی مجبوری کے تحت کبھی ہاتھ ڈھیلا بھی سخت رکھتا، لیکن ا±ن کی خواہش ہمیشہ یہی رہی کہ نواب بگٹی کو کیسے راستے سے ہٹایا جائے یا کم از کم سے کم اثر کیا جائے۔ اس کی دہائی میں ضیاءالحق سے لیکر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ دونوں جماعتوں نے ا±ن کے مخالفین کی جی کھول کر مدد کی۔ غلام قادر مسوری، احمدان راہیجہ اور خان محم کلیر کی سرپرستی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی گئی۔ بے شمار سازشیں کی گئیں ایسی ہی ایک گھناﺅنی سازش کے تحت نواب صاحب کے جوان سال بیٹے سلال بگٹی کوکوئٹہ کے بھرے بازار میں 2 جون 1993ءمیں شہید کیا گیا۔ یہ وہ ضرب کاری تھی کہ کسی بھی باپ کو ہمیشہ کیلئے ہر لحاظ سے اپانچ بناسکتی ہے۔ لیکن نواب بگٹی نے انتہائی جرات سے اس غم کو نہ صرف سہنے کی قوت دکھائی، بلکہ دشمنوں کیلئے غیر متوقع طور پر کمزور ہوئے اور نہ ہی آپ کے ارادوں کے قدم لڑکھڑائے۔ بقول نواب صاحب یہ غم اتنا شدید تھا کہ جب ڈاکٹر نے بے اعتنائی سے کہا، سلال ہم میں نہیں رہے تو میں نے محسوس کیا زمین میرے پاﺅں کے نیچے سے کھسک گئی وہ لمحہ اتنا بھاری گزرا کہ میں گر بھی سکتا تھا آپ نے اس غم کی شدت کی یوں وضاحت کی تھی "سلال بیٹا تھا اور ہر باپ اپنی اولاد سے پیار کرتا ہے۔ لیکن ا±س کے غم میں یہ احساس مزید شدت لاتی ہے کہ وہ تو بے گناہ نو جوان تھا۔ ا±س نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا تھا جبکہ نواب صاحب کے دشمنوں کو اس چیز کا بخوبی علم تھا اس لئے انہوں نے پیٹھ پیچھے اس جگہ وار کیا۔ جہاں سب سے زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ نواب صاحب کو اس قتل نے دو طرح کے دکھ دیے ایک بیٹے کا غم دوسرایہ احساس کہ بلوچ معاشرے میں سردار کا خاندان قابل احترام ہوتا ہے۔ سردار کی عزت کی خاطر قبیلے کے لوگ جان دیتے ہیں لیکن یہاں اپنے ہی قبیلے کے لوگوں نے اٹھ کر اپنے بڑے کی بے احترامی کی۔ اس سے نواب صاحب کو یہ اشارہ مل گیا کہ ا±س کے دشمن اپنے آقاﺅں کو خوش کرنے کیلئے کچھ بھی کر سکتے ہیں۔
یہاں ایک بہت ہی اہم بات ضرور ہے وہ یہ کہ سردار کے گھر اور خاندان کا احترام باہمی احترام کی بنیادوں پر استوار ہے۔ اس سے ہرگز یہ سمجھا جائے کہ سردار کا گھر قبیلے کے لوگوں کیلئے قابل احترام ہے اور قبیلے کے لوگوں کی عزت سردار کے ہاں اہمیت نہیں رکھتی۔ بلوچ معاشرے میں سردار کیلئے جو شرط ہمیشہ رہی ہے وہ یہ کہ وہ اپنے قبیلے اور اپنی قوم کے ہر فرد کی عزت کو اپنی عزت سمجھتا ہے وہ اپنے ہر بلوچ کی چادر و چاردیواری کو اپنی چادر و چاردیواری سمجھتا ہے بدقسمتی سے انگریزوں نے ان اقدار کوکسی حد تک بگاڑ کر رکھ دیا اور عام بلوچ سردار کے درمیان طبقاتی لکیریں کھینچی جاسکیں اس کے باوجود بلوچستان کے کئی ایک سردار آج بھی اپنی صفات پر پورا اترتے ہیں جن میں نواب اکبر خان بگٹی کا مقام یقیناً بلند ترین رہا ہے۔ جن صفات کی بنیاد پر بلوچ معاشرے میں سردار کا انتخاب کیا جاتا ہے ا±ن میں دیانتداری، بہادری سخاوت اور قول کی پاسداری لازمی شرائط رہے ہیں نواب اکبر خان بگٹی کے بارے میں بلا جھجھک کہا جاسکتا ہے کہ آپ میں یہ تمام بلوچی صفات حد درجہ موجود تھیں۔ قول کی پاسداری، دیانتدری و بہادری کا ثبوت آپ نے جنگ کے میدان کارزار میں دکھائی۔ سرزمین سے دیانتداری کا بہترین ثبوت دیتے ہوئے، بہادری سے لڑتے ہوئے اس قول کی پاسداری کی کہ وطن سے عشق کرنے والا سر کٹا سکتا ہے لیکن ا±س کا سودالگا کر سر نہیں جھکا سکتا۔
سخاوت کے بارے میں مخصر اتنا کہا جاسکتا ہے کہ آپ بلوچستان کے واحد نواب تھے جس کے دستر خواں پر کوئٹہ، کراچی وڈیرہ بگٹی میں بیک وقت دوسو سے پانچ سولوگ کھانا کھاتے تھے۔ عام دنوں میں دو سو اور خاص دنوں میں ہزاروں بگٹی اپنے نواب کی خدمت میں موجود رہتے تھے۔ مہمان خانے اور اپنے لوگوں کو رکھنے میں بے پناہ خرچہ اٹھتا تھا ایک اندازے کے مطابق نواب صاحب کے اخراجات مہینے میں ڈیڑھ دو کروڑ روپے کے لگ بھگ تھے۔ بے تحاشہ دولت ہاتھ میں آنے کے باوجود کبھی بھی ا±سے جمع کرنے کا خیال نہیں آیا۔ ڈیرہ بگٹی میں اپنے ہاتھوں سے ایک مہمان خانہ بنایا۔ آپ کی پوری زندگی میں یہی واحد تعمیرات تھی۔ کوئٹہ میں آخر تک ا±سی گھر میں مقیم رہے۔ جسے 1935ءکے زلزلے کے بعد آپ کے والد نواب محراب خان نے تعمیر کرایا تھا۔ ایک گھر کراچی میں سلال بگٹی نے اپنی زندگی میں خود خرید تھا اس کے علاوہ نواب صاحب نے کوئی جائیداد نہیں بنائی۔ یورپ یا کسی اور ملک میں کوئی محل نہیں خریدا۔ اپنی جائیداد سانگھڑ کے 3 ہزار ایکڑ اور سیاف ویلی میں 12 ہزارایکٹر زمین کی آمدن۔ پی پی ایل کو دی ہوئی زمینوں کے کرائے کے ساتھ، اپنے لوگوں کے ہمراہ بیٹھ کر سادگی سے بانٹتے رہے۔ جس طرح بلوچستان کے خلاف سازش کی جارہی تھی۔ ا±س پر ایسا شاندار و مثالی بلوچ خاموش تماشائی نہیں بن سکتا تھا۔ لہذا بلوچستان اور خاص کر اکبر بگٹی شہید پرحملہ کوئی حادثاتی نہیں، بلکہ ایک جامع منصوبے کا نتیجہ تھا۔ اسلام آباد اور بلوچستان کے تعلقات شروع دن سے اچھے نہیں رہے ہیں۔ بلوچ شروع دن سے راہ نجات ڈھونڈنے میں سرگرداں رہے ہیں اور پاکستانی حکام انہیں ہمیشہ غلام بنانے کے جنون سے آزاد نہ ہو سکا ہے۔ بلوچ اپنی اندرونی خلفشار اور بے اتفاقیوں کی وجہ سے منظم طور پر مزاحمت نہ کر سکا ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے حکمرانوں نے کسی بھی دور میں اپنی اس خواہش کو نہیں چھپایا ہے کہ وہ بلوچستان کو مال غنیمت سمجھتے ہیں جو بھی اسلام آباد کی اس سوچ کے سامنے رکاوٹ کھڑی کرے گا ا±سے کچل دیا جائیگا۔ آپریشن وقتل عام کے ساتھ ساتھ یہاں کی آبادی کا توازن بگاڑنے کیلئے شروع دن سے سازشیں ہوتی رہیں 1972ءمیں آغا خان کی ایما پر ذوالفقار علی بھٹو نے ساحل بلوچستان پر تین چار لاکھ آغا خانیوں کو آباد کرنے کا پروگرام بنایا۔ جوسردار عطاءاللہ مینگل سے مذاکرات ناکام ہونے کی وجہ سے پایہ کمیل تک نہ پہنچ سکا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے ہی دور حکومت میں دوسری بار پنجاب کی آبادی کا بوجھ کم کرنے کیلئے پٹ فیڈر کے علاقے میں چند لاکھ کی نئی آبادی بسانے کے منصوبے کو سردار خیر بخش مری کے سرمچاروں کے پے در پے حملوں نے ناکام بنا دیا۔ بلوچستان میں ماضی کے آپریشن کی تاریخ پر اگر مخصر نظر دوڑائی جائے تو تمام آپریشنوں کا بنیادی مقصد بلوچوں کو اپنی سرزمین پر حاکمیت کے خواب سے محروم کرنا رہا ہے۔ پہلا آپریشن بلوچستان پر قبضہ کرنے کیلئے کیا گیا، دوسرا ا±س وقت ہوا جب خان قلات اور بلوچستان کے تمام سرداروں نے محسوس کیا کہ پاکستانی حکام نے ا±ن کے ساتھ فراڈ کیا اور انہیں خود مختاری کا جھانسہ دیکر دھوکے سے پاکستان میں شامل کیا گیا لیکن اب وہ اتنے بے بس ہیں کہ پٹواری و نائب تحصیلدار بھی ان کی نہیں سنتے ، اس سلسلے میں خان قلات احمد یار خان نے اسکندر مرزا سے ایک اہم ملاقات بھی کی تھی۔ جس میں بلوچستان، پنجاب و سندھ کے تمام بلوچ سردار و نواب شریک ہوئے تھے لیکن اسکندر مرزا نے ا±ن کی شکایات اور ا±نہیں وعدہ کئے گئے اختیارات دینے کی بجائے ناشائستہ زبان استعمال کر کے ا±ن کی تذلیل کی۔
اس نئے صورتحال پر غور و خوض کیلئے جب خان صاحب نے دوسری میٹنگ قلات میں بلوائی تو پاکستانی حاکم آپے سے باہر ہو گئے، کیونکہ وہ محسوس کر رہے تھے کہ بلوچ اختیارات حاصل کرنے سے باز نہیں آرہے۔ نتیجے میں 16اکتوبر 1958ءکو قلات پر پاکستانی فوج نے لشکر کشی کی، یہ آپریشن اتنا شدید تھا کہ قلات سے کوئٹہ تک تمام راستے پر ہر طرف فوج ہی فوج نظر آرہی تھی، خان صاحب گرفتار کئے گئے ، ان کی چادر و چاردیواری کی بے حرمتی کی گئی، اس کے دو دن بعد یعنی 8 اکتوبر 1958ءکو با قاعدہ آپریشن کا آغاز ہوا جو بعد میں نواب نوروز خان زرکزئی کے سات قریبی سرمچاروں کی پھانسی اور ا±ن کی عمر قید کی سزا پر ختم ہوا۔ تیسرا آپریشن ساٹھ کی دہائی میں جھالاوان، کوہستان مری بگٹی علاقے میں اس لئے شروع کیا گیا کہ تین بلوچ سردار، سردار خیر بخش مری، نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطاءاللہ مینگل نے سیاسی طور پر زیادہ سے زیادہ اختیار لینے کیلئے کوششیں جاری رکھیں اور آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ نتیجے میں ایوب خان نے مینوں سرداروں کو سرداری سے معزول کیا اور ا±ن کی جگہ سرکاری حمایت یافتہ سردار بٹھائے۔ سردار مری و سردار مینگل کی جگہ جن لوگوں کو حکومت نے پگڑی پہنائی۔ ا±ن کے اپنے قبیلے کے لوگوں نے انہیں قتل کیا، نواب بگٹی کی جگہ ایک چھے رکنی کونسل تشکیل دی گئی جو قبائلی معاملات چلاتا تھا لیکن اس کونسل کے پانچ رکن قتل کئے گئے اس طرح سرکار اپنی تمام تر چالا کیوں کے باوجود کسی بھی میدان میں کامیاب نہ ہوسکی اور قبائل کے در میان ان سیاسی سرداروں کو غیر موثر نہ کرسکی اور نہ ہی بلوچستان میں یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب ہوسکی کہ یہ سردار اپنی سرداری بچانے کیلئے لڑ رہے ہیں اس کا اندازہ بعد میں نیپ کے پلیٹ فارم سے ان رہنماﺅں کی کامیابی سے لگایا جاسکتا ہے گویا اسلام آباد کے ساتھ مزاحمت نے ان کی شخصیت کو مزید چار چاند لگا دیے تھے۔ انتہائی بے سروسامانی کے باوجود تقریباً نو سال تک بلوچ مزاحمت کرتے رہے۔ ایوب خان کی شکل میں اسلام آباد نے تیسرا آپریشن اس لئے شروع کیا، کیونکہ نواب نوروز خان کے ساتھیوں کی شہادت نے بلوچستان میں اسلام آباد کے خلاف شدید نفرت پیدا کی تھی۔ چنانچہ سیاسی طور پر یہی تین سردار بلوچستان کے بارے میں پختہ فکر رکھتے ہیں اس لئے انہیں سرداری سے ہٹانے کے بہانے آپریشن کا آغاز کیا گیا تا کہ وہ سیاسی طور پر پورے بلوچستان کو اسلام آباد کے خلاف منظم نہ کرسکیں۔ چوتھا آپریشن بھی ا±س وقت شروع کیا گیا جب بلوچ قیادت نے اسلام آباد سے زیادہ اختیارات کا تقاضا کیا اور اپنی سرزمین پرنئی آباد کاری کے جیسے منصوبوں کی مخالفت کی۔ آخری معرکہ پانچواں آپریشن ڈاکٹر شازیہ خالدہ ریپ کیس یا اور بہانے اپنی اہمیت ضرور رکھتے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ اس لئے کیا گیا تا کہ نواب اکبر بگٹی شہید سمیت جو بھی ا±ٹھے گا ا±سے ٹھکانے لگایا جاسکے اور بلوچستان میں بلوچ کی حاکمیت کا قصہ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دفن کردیا جائے، کیونکہ پاکستان اپنی ایٹمی قوت کے گھمنڈ میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ شہید نواب اکبر بگٹی اور شہید بالاچ مری اور آپ کے سرمچار اس حد تک مزاحمت کرسکتے ہیں۔ بلوچستان کی سیاسی قوتوں اور جماعتوں کے بارے میں اسلام آباد کا اندازہ بالکل درست نکلا کہ تمام آگ و شعلوں کی بات کرنے والے اندر سے کھوکھلے نکلے۔ اسلام آباد کے خیال میں یہ سارے چاپلوس و بزدل ب±رے وقت میں نواب صاحب کا ساتھ نہیں دیں گے گو کہ نواب کو جنگ پر روانہ کرنے سے پہلے یہ یقین دہانی ضرور کرائیں گے لیکن یہ ا±ن کی مدد کبھی بھی نہیں کریں گے۔ ہوا بھی یہی، جب جنگ شروع ہوگئی تو یہ ایسے پیچھے چھپ گئے کہ نواب صاحب نے پہاڑوں سے ان نام کے بلوچ شیر و بہادروں کو طنزاً بلی کا خطاب دیتے ہوئے پکارا مگر یہ بھیگی بلی چمکتی آنکھوں سے سب کچھ دیکھتے ہوئے ٹس سے مس نہیں ہوئے۔ لیکن دوسری طرف اسلام آباد والوںکو علم نہیں تھا کہ پورا بلوچستان ان کم خرید وزرخرید سرکاری سردار ، نواب و سیاسی سربراہوں کا نہیں جو پاکستان کی چھہ گری میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں ہمیشہ آمادہ نظر آتے ہیں، بلکہ ان سے ہٹ کر بھی ایک باشعور بلوچستان ہے، جو ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔ ماضی کی طرح اس بار بھی جس طرح بلوچ کیلئے مزاحمت لازمی تھی اسی طرح پاکستان کو بلوچستان کے وسائل کو فوری طور پر نکالنے اور ٹھکانے لگانے کی ضرورت تھی۔ ایٹم بم بنانے کے باوجود یہ ملک آٹا، گھی شکر کے بحرانوں سے دائی دو چار ہے یہ ملک خیراتوں پر پل رہا ہے ا±سے اس گہری کھائی سے صرف اور صرف بلوچستان کے وسائل نکال سکتے ہیں۔ لہذا صدر مشرف نے ایک بہت بڑے منصوبے کے تحت بلوچستان کو ہمیشہ کیلئے بلوچوں سے چھینے کیلئے انتہائی عیاری سے ترقیاتی منصوبوں کے نام پر گوادر ڈیپ سی پورٹ کی تعمیر کا کام شروع کر دیا۔ اس منصوبے کے تحت افغانستان کے راستے وسط ایشیا کے ممالک تک ریل اور روڈ کے راستے کھولنے تھے۔ اس طرح ترکمستان کی گیس افغانستان کے راستے پائپ لائنز کے ذریعے بلوچستان اور پھر چین و ہند تک لے جانے کا کھربوں ڈالروں کا منصوبہ تھا۔ یہ اس بڑے منصوبے کی ظاہری صورت تھی اصل میں وہ کھربوں ڈالروں کی چمک دمک اور بلوچوں کی تقدیر بدلنے کے شور کو آنکھوں میں دھول جھونکنے کے طور پر استعمال کر کے ا±س منصوبے کو کامیاب دیکھنا چاہتا تھا ،جس کی تکمیل کا خواب پاکستان کے ہر حکمران نے اپنے دور حکومت میں دیکھا ہے۔
یہ وہی پروگرام تھا جو ذوالفقار علی بھٹو تمام تر عیاریوں کے باوجود پایہ تکمیل تک نہ پہنچا سکا تھا۔ اب اس پروجیکٹ کی خوشی میں بلوچ (اگر نہیں سمجھتا ہے) پاگل ہو کر خود اپنی زمین بیچے گا اور اس وقتی کاروباری ریل پیل میں اسلام آباد بلوچستان کے دوسرے علاقوں سے جہاں تیل و گیس دستیاب ہے انہیں نکالنا شروع کرے گا، اس طرح بلوچ اپنی زمین بیچ کر خود اپنے آپ کو بے دخل کرے گا۔ رہی سہی کسر نئے چھے سات ملین آباد کار پورا کریں گے۔ جنہیں پاکستان سرکار گوادر منصوبے کو کامیاب کرنے کے نام پر یہاں لاکر آباد کرے گی۔ یہ منصوبہ بلوچ قوم کی قومی پہچان و ہزار سالہ تاریخ کے تابوت پر آخری کیل تھی جسے پاکستانی حکمران ٹھونکنا چاہتے تھے۔ اس تناظر میں پہاڑوں کا رخ کرنے سے پہلے نواب صاحب نے اپنا تاریخی جملہ ”مرگ یا مرگ“ کہا تھا ڈاکٹر شازیہ کیس میں کسی کیپٹن جماﺅ کے بارے میں صدر کا بیان خود اس بات کی دلیل تھی کہ وہ پورے بلوچستان کو ڈاکٹر شازیہ کی طرح برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ جس میں غیرت ہے سامنے آئے نہیں تو ایک ملک جہاں اس کے بانی کی گاڑی میں ہسپتال تک پہنچنے کیلئے تیل نہ ڈالی گئی تا کہ قائد راستے میں دم توڑ دے ا±س کے پہلے منتخب وزیراعظم لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں ہزاروں کے ہجوم کے درمیان قل کیا گیا، جہاں پاکستان کی سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ بھٹوکو پھانسی پر چڑھایا گیا جہاں چیف مارشل لاءکو ہوا میں اڑایا گیا وہاں ایک کیپٹن کو سزا دینا کوئی بات تھی۔ اسلام آباد کے فوجی جانتے تھے کہ اگر اس کیپٹن کو ہزار دفعہ بھی پھانسی دے دیں تب بھی بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ بلوچستان کے بار بار اٹھنے کا ایک ہی مقصد ہے، جسے وہ غلامی سے چھٹکارہ کہتے ہیں جب تک بلوچ مکمل طور پر غلامی پر رضامند نہیں ہوگا ا±س وقت انہیں سرکوب کرنے کے لیے یہ آپریشنز کرنے پڑیں گے، چنانچہ رواں آپریشن کو ہم منصوبہ بند کارروائی کہتے ہوئے ماضی کی فوج کشیوں کا تسلسل کہہ سکتے ہیں، تاہم اس بار بلوچ مزاحمت کو ایک چیز سابقہ مزاحمتوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ کہ اس بار پہلی دفعہ بلوچ قیادت مکمل آزادی کا نعرہ لیتے ہوئے میدان میں نکل پڑی ہے۔ اگر بلوچ اسلام آباد کے ساتھ اپنے وجود کو زخمی محسوس کرتا تھا اب وہ باسٹھ سالہ تجربہ تشخیص کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا ہے کہ یہ کوئی معمولی زخم نہیں بلکہ کینسر ہے۔ یہ رہے گا تو بلوچ بحیثیت قوم نہیں رہے گا۔ اس نتیجے پر پہنچے کیلئے نواب صاحب کے تاریخی الفاظ کا مطالعہ از حد ضروری ہے جو آپ اسلام آباد کو آخری بار بات چیت کا موقع دینے سے پہلے کہہ چکے تھے جنہیں نامور
صحافی انور ساجدی نے اپنی کتاب ”نواب اکبر بگٹی کو قتل کیوں کیا گیا؟“ میں یوں نقل کیا ہے۔ ہمارا سب سے قیمتی اثاثہ ساحل، ہمارے ہاتھوں سے چلا گیا ہے۔ ہماری سب سے بڑی دولت گیس چلی گئی۔ سوال یہ ہے کہ اب کس بات پر مذاکرات کروں، چند سال کے دوران پوری ساحلی پٹی آباد کاروں سے بھر جائے گی۔ بلوچ اقلیت میں چلے جائیں گے، ان کی حیثیت ریڈ انڈین جیسی ہوگی، پورٹ ا±ن کے ہاتھوں میں ہوگی، تمام سرکاری ملازمتیں ان کو ملیں گی، کارخانوں، اہم کاروبار اور معیشت پر ان کا کنٹرول ہوگا، وہاں بلوچ چپڑاسی، چوکیدار، مالی اور بیروں کی صورت میں نظر آئیں گے اور ان کی حالت کراچی کے بلوچوں سے بھی بدتر ہوگی۔ لہٰذا ایسی صورت میں جبکہ سب کچھ واضح ہے، وہ مذاکرات کی آڑ میں ایک ایسی دستاویز پر میرا انگھوٹھا لگوانا چاہ رہے ہیں کہ جس کا مقصد اپنی سرزمین سے بے عملی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا اب جبکہ میری عمر دو کم اسی برس ہے عمر کے اس حصے میں کوئی سمجھوتہ کر کے میں اپنے چہرے پر سیاہی ملنا نہیں چاہتا اور نہ ہی اپنی پیشانی پر کلنک کا ٹیکہ لگوانا پسند کرونگا، مجھے پتہ ہے کہ ان کے مذاکرات کا کیا مقصد ہے وہ سوئی میں گیس کی تنصیبات کیلئے مزید انتظامات کرنا چاہتے ہیں چھاﺅنی کی تعمیر شروع کرنا چاہتے ہیں، انہیں مذاکرات کے ذریعے مزید کچھ وقت چاہئے، مجھے معلوم ہے کہ بات چیت دوبارہ شروع ہو جائے تو اس کا نتیجہ صفر ہی نکلے گا، وہ زور آور ہیں وہ کبھی وسائل ہمیں نہیں دیں گے۔ کیونکہ اپنے وسائل سے وہ ملک کو اور ریاستی اداروں کو چلا رہے ہیں یہ کہنا کہ ہر صوبے کو اس کے وسائل پر اختیار دیا جائے مقتدرہ کی شہ رگ پر ہاتھ رکھنے کے مترادف ہے اس لئے وہ انتہا تک جائیں گے، ہم کمزور ہیں اس لئے کمزور کے ہاتھ میں اپنی سرزمین ، نگ و ناموس بچانے کیلئے واحد راستہ مزاحمت ہے۔ لہذا میں ہر طرح کی صورتحال کیلئے تیار ہوں“۔ اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد نواب صاحب کے پاس صرف دو راستے تھے ایک اسلام آباد کی شرائط پر نئے بلوچ معاہدوں پر دستخط کر کے بلوچ قوم وسرز مین کیلئے بدنام ہو کر مرتے۔ دوسری صورت میں مزاحمت کا راستہ اختیار کر کے بلوچ قوم و سرزمین کا قرض چکا کر سر بلندی کے ساتھ موت کو شکست دیتے۔ پہلی صورت میں شاید مزید چند سال خوش و خرم زندگی نصیب ہوتی دوسری صورت میں دشواریوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ تھا اور ساتھ ہی ایک ایسی موت کا امکان بھی کہ جس پر زندگی بھی رشک کرے۔ ایک ایسی موت جس کی صرف فرمائش کی جاسکتی ہے ا±س کی آمد، زمان و مکان پر کس کا اختیار نہیں لیکن نواب اکبر بگٹی شہید کی شہادت کے واقعات کے تمام پہلود یکھنے پر بی شک یقین میں بدل جاتا ہے کہ آپ شاید دنیا کی ایک خوش نصب ترین شخصیتوں میں سے ایک تھے جسے موت پر بھی اختیار رہا، پوری زندگی بلوچی شان سے جینے کے بعد موت کو ا±س وقت قریب آنے کی اجازت دے دی جب ا±س موت کی قیمت زندگی سے کئی گناہ زیادہ ہو چکی تھی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں