ایرانی تیل پر ممکنہ پابندی اور صوبے پر اس کے اثرات
تحریر: محمد ذاکر
آرمی چیف کے حالیہ دورہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاروں سے تیل پر بابندی سے متعلق گفتگو نے جہاں بلوچستان میں بے چینی کی صورتحال کو جنم دیا ہے، وہیں صوبے میں پہلے سے موجود اعلیٰ تعلیم یافتہ ہزاروں بیروزگار نوجوان جو پہلے سے ہی مایوسی کا شکار ہیں ان کی پریشانیوں میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پہلے ہی یہ چیزیں واضح ہیں کہ بلوچستان کی 85 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے بھی نیچھے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ اس وقت بلوچستان کے تقریباً 70 فیصد نوجوان ایرانی تیل کے کاروبار سے جڑے ہیں اور لاکھوں خاندان کے گھروں کے چولہے بھی اسی تیل کی بدولت جلتے ہیں۔ ایک ایسا صوبہ جہاں پہلے سے ہی بیروزگاری عام ہو اور شورش کی لپیٹ میں ہو، وہاں کے لوگوں کے دشوار روزگار کو بھی بند کرنے کا مقصد جلتی آگ پر تیل ڈالنا ہے۔ بلوچستان میں ایسے کئی اضلاع ہیں جہاں پاکستانی پیٹرول پمپس تک نہیں، پاکستانی پمپس نہ ہونے کی وجہ سے یہاں سڑکوں کی خستہ حالی اور ڈویلپمنٹ کا نہ ہونا ہے، ایرانی تیل بند ہونے کی صورت میں پاکستانی پیٹرول ڈلوانے کیلئے ایک ضلع سے دوسرے ضلع کا سفر کرنا پڑے گا جو ناممکن چیز ہے اگر ایسا کوئی کرنے کا سوچے بھی تو پیٹرول ڈلوانے کے بعد اپنے ضلع جانے تک یہ پیٹرول راستے میں ہی ختم ہوجائے گا۔ صرف یہی نہیں بلوچستان میں ایرانی تیل کو ایک جگہ سے دوسری جگہ تک منتقل کرنے کیلئے روزانہ کئی بڑی گاڑیاں سفر کرتی ہیں جس کی وجہ سے روٹ پر موجود ہوٹل، دکان وغیرہ سب کا گزارہ ممکن ہوتا ہے، اب تیل بند ہونے کے صورت میں عام دکاندار اور ہوٹل والے بھی براہ راست متاثر ہوں گے۔ ایرانی تیل جہاں بلوچوں کیلئے روزی روٹی ہے، وہیں صوبے کے غریب عوام کیلئے سستے تیل کی صورت میں بھی میسر ہے۔ پاکستانی تیل کی قیمتوں کے مقابلے میں ایرانی تیل کی فی لیٹر قیمت میں بیس روپے تک کی بچت ممکن ہوتی ہے جو کسی غریب کیلئے ایک بڑی بچت ہے۔ ایرانی تیل کی بندش سے جہاں بیروزگاری عام ہوگی وہیں صوبے میں پہلے سے ہی جاری شورش میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ جب نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں ہوگا تو لازم ہے وہ کسی منفی سوچ کی طرف جائیں، چاہے وہ بندوق اٹھا کر پہاڑوں میں جانے کا ہو یا پھر خودکشی کرکے اپنی زندگی کا خاتمہ ہو، اس کے علاوہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں بھی عام ہونے کا خدشہ موجود ہے۔ اگر ہم وقت نکال کر ایرانی تیل کی بندش کے نقصانات کا جائزہ لیں تو اور بھی کئی خدشات جنم لیں گے۔ صوبے سے باہر بیٹھے دوسرے صوبے میں موجود لوگ چیزوں کو سمجھے بغیر تیل کی بندش والے بیانیات کو پروموٹ تو کرتے ہیں لیکن وہ وجوہات کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں وہ چند لمحوں کیلئے بلوچستان کے حالات کا بھی جائزہ لے تو اپنے ہی سوچ کو غلط ثابت کریں گے۔ ایرانی تیل پر پابندی سے پہلے صوبے میں کاروبار کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے، خاص کر صنعتی زونز کا قیام انتہائی ضروری تصور ہوگا۔ اس کے علاوہ بلوچستان میں انفرا اسٹکچر ڈویلپمنٹ کرنا ہوگا تاکہ پاکستانی کمپنیز بلوچستان میں اپنے پمپس لگائیں، سرکاری محکموں میں ملازمت کے مواقع پیدا کرنا ہوں گے تاکہ پڑھے لکھے نوجوان مایوسی سے نکل کر ملازمت کے طرف راغب ہوجائیں جہاں ایک صوبہ جسے پاکستان کے دیگر صوبوں سے کئی سال پیچھے رکھا گیا ہو وہاں ایسی ڈوپلپمنٹ کا ہونا بھی کسی خواب سے کم نہیں ہوگا اگر ان خدشات کو نظر انداز کرکے تیل پر پابندی لگا دی جاتی ہے تو یہ خدشات حقیقت میں بدل جائیں گے۔ بلوچستان میں منشیات کی شکل میں روزانہ کئی ارب کی منشیات اسمگل ہوتی ہے جن میں ملک کے بڑے لوگوں کا ہاتھ ہوسکتا ہے لیکن وہاں کسی کی توجہ نہیں، منشیات کے کاروبار کو آسان بنانے کیلئے ایرانی تیل کو بند کرنے کا ارادہ کافی خطرناک ہوسکتا ہے، صوبے کی اعلیٰ قیادت کو ضرور ان خدشات کا خیال رکھنا ہوگا، ریاست جو پہلے سے معاشی بحران کا شکار ہے جلد بازی میں کیے گئے فیصلے ریاست کیلئے مزید کمزوری کا باعث بن سکتے ہیں۔