کرپشن اور حافظ صاحب کا ڈنڈا ۔۔!!
خالد ولید سیفی
کرپشن پاکستان کے بہت بڑے مسائل میں سے ایک ہے ، ایک طبقہ ہے جس نے سالوں اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا ہے اور لوٹ رہا ہے ، اس طبقے میں ہر مکتبہ فکر سے لوگ موجود ہیں ، کرپشن نے پاکستان کی جڑیں کھوکھلی کی ہیں اور عام آدمی کی زندگی اجیرن کردی ہے ۔عمران خان نے نوے دنوں میں کرپشن کے خاتمے کا وعدہ کیا ، اس کے کرپشن کے خاتمے کے نعرے کو مقبولیت ملی لیکن پونے چار سالوں میں اس کی حکومت میں کرپشن کے سابقہ ریکارڈ ٹوٹے ، اس کی پوری ٹیم بہتی گنگا میں نہاتی رہی ، وہ خود اور ان کی اہلیہ محترمہ بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے ۔ اس وقت ملک میں انتخابی روایت کے مطابق نگراں حکومت قائم ہے ، اس نگراں کی مدت بھی سابقہ نگراں حکومتوں سے طویل ہوگی ، حلقہ بندیوں کی وجہ سے فروری میں عام انتخابات ہونے کے امکانات ظاہر کیے جارہے ہیں ، میڈیا پر خبریں آرہی ہیں کہ نگراں حکومت نے کرپشن کے خلاف ڈنڈا اٹھالیا ہے ، ڈالر کے ذخیرہ اندوزوں سے لے کر حوالہ ہنڈی تک ، سب کی گرفت ہورہی ہے ، اطلاعات ہیں کہ کرپٹ عناصر کی فہرستیں تیار ہوچکی ہیں ، کسی بھی وقت ان پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے ، بلوچستان کے سرحدی علاقوں سے ایرانی تیل کی ترسیل پر بھی قدغنیں لگانے کی باتیں ہیں ، اس کے علاوہ بھی بہت کچھ جو شاید اب تک میڈیا کی زینت نہیں بنے ہیں ۔کرپشن وہ ناسور ہے کہ اس کے خلاف کوئی بھی اقدامات اٹھائے اس کی تعریف کی جانی چاہیے ، نگراں حکومت کررہی ہے یا حافظ صاحب کررہے ہیں ، لیکن مہم شفاف ہو ، بلا رعایت اور مستقل مزاجی کے ساتھ ہو ، کرپشن اشرافیہ کی رگوں میں خون کی جگہ دوڑتی ہے ، یہ ایسی مہم نہیں جو ہنگامی بنیادوں پر ہو اور نتیجہ خیز ثابت ہوسکے ، بلکہ اگر کرپشن کی اس مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنا ہے تو اس کی ایک مستقل بنیاد رکھنا ہوگی ، ان پانچ مہنیوں میں ایک ماڈل تیار کرنا ہوگا اور بلارعایت کرپشن میں ملوث سب سے بڑے مگرمچھوں پر ہاتھ ڈال کر قوم کو یہ اعتماد دینا ضروری ہوگا کہ یہ مہم شفاف ہے ۔ ایک واضح لکیر کھینچ لی جائے ، ایک واضح پیغام دیا جائے کہ ملک میں کرپشن کسی طرح قابل برداشت نہیں ہوگا ۔ یقین اور اعتماد کے بعد اس مہم کو پوری قوم کی تاہید و حمایت حاصل ہوگی ۔اپ ترقی کے جتنے منصوبے بنائیں ، خوشحالی کے جتنے بھی پروگرام تشکیل دیں ، عوام کی فلاح کےلیے کتنے بھی تعمیری پروجیکٹ لائیں ، کرپشن کا دیمک انہیں چاٹ جاتا ہے ، غربت کی لکیر بڑھتی جارہی ہے ، لوگ نان شبینہ کے محتاج ہوچکے ہیں ، گھروں میں فاقے ہیں ، بیماریوں میں لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے ہیں ، تعلیم تباہی کے دھانے پر ہے ، انفراسٹکچر تباہ حالی کا شکار ہے ، سڑکیں پیوند زمین ہیں اور گٹر لائنیں سڑکوں پر تالاب بن چکی ہیں ، نوکریاں بیچی جارہی ہیں ، ایک ارب کے پروجیکٹ پر 90 کروڑ کرپشن کی نذر ہوجاتے ہیں ، یہ سب سے چھوٹی مثال ہے ، بات کھربوں تک ہے ، پھر کس طرح ملک خوشحال ہوسکتا ہے ، معیشت ہی ملکی استحکام کی بنیادی اکائی ہے ، معیشت ہی ملک اور قوم کی ترقی کا ضامن ہے اور کرپشن معیشت کو تباہ کرنے کی بنیادی وجہ ہوتی ہے ، جب تک اسے مکمل کنٹرول نہ کیا جائے ترقی کا کوئی منصوبہ کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ۔اگرچہ کرپشن کے خاتمے کےلیے طویل المدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، لیکن انہی پانچ ماہ میں اگر خلوص ، کمٹمنٹ اور جذبے کے ساتھ کام کیا جائے تو بہتر نتائج آنا شروع ہوں گے ، بشرطیکہ اس کے خاتمے کےلیے نمائشی اقدامات پر اکتفاء نہ کیا جائے ، اور یہ بھی نہ ہو کہ کرپشن کے خاتمے کے نام پر نگراں مدت کو طول دیا جائے ، اس سے سیاسی انارکی بڑھے گی جس سے معیشیت کو مذید خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ جس طرح مضبوط معیشت کےلیے کرپشن کا خاتمہ ضروری ہے اسی طرح سیاسی استحکام کا ہونا بھی ضروری ہے ، نگراں دور حکومت میں کرپشن کے خلاف ایک اٹل فیصلہ ہو ، بنیادی کاروائیاں کی جائیں ، بڑے مگرمچھ نشان عبرت بنیں ، غیرملکی دولت جس کے پاس ہو ، بلاتفریق واپس لائی جائے ، ناجائز اثاثوں کی چھان بین کرکے ناجائز اثاثے ضبط کیے جائیں ، یہ پیسے عام لوگوں کی تعلیم ، صحت ، روزگار ، بحالی امن و ترقی کے دیگر شعبوں پر خرچ کی جائے ۔ کرپشن کے خاتمے کی اس مہم میں اسمگلنگ کا نام بھی تواتر کے ساتھ لیا جارہا ہے اور اس کی نسبت زیادہ تر مکران سے متصل ایرانی سرحد سے تیل کی پاکستان میں آمد بتائی جارہی ہے ، اور اطلاعات ہیں کہ اسے بند کرنے یا انتہائی محدود کرنے کے آپشن زیر غور ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ اس پر اسمگلنگ کا نام کتنا صادق آتا ہے یا نہیں البتہ بلوچستان باالخصوص مکران کے لاکھوں لوئر کلاس چولہے اسی سے جلتے ہیں ، ہزاروں غریب و نادار اپنی بیماریوں کا علاج اسی سے کرتے ہیں ، ہزاروں بچوں کی فیسیں یہیں سے پوری ہوتی ہیں ، مکران میں کوئی صنعت نہیں ہے ، روزگار کے عمومی ذرائع نہیں ہیں ، اگر اسمگلنگ یا کرپشن کا نام دے کر اس کاروبار کو بند کیا گیا تو اس کے ساتھ ہی لاکھوں چولہے بجھ جائیں گے اور دیگر شہروں کی طرح یہاں سے بھی خودکشیوں کی خبریں آنا شروع ہوں گی ۔ ہاں اس بات سے انکار نہیں کہ اس کاروبار سے کرپشن کے ذریعے یہاں ایک نیا اشرافیہ جنم لے چکا ہے لیکن یہ کرپشن ملکی اثاثوں یا ملکی دولت جیسی کرپشن نہیں ہے ، اس کا نقصان ملک کو نہیں بلکہ یہ وہ پیسہ ہے جو محنت کرنے والے کے منافع سے بااثر طبقہ لوٹ لیتا ہے ، اس سرحدی کاروبار کو بہتر منیجمنٹ کے ذریعے چلایا جاسکتا ہے ، بجائے کہ اسے کرپشن کا نام دے کر بند کردیا جائے ۔ کرپشن کے خلاف جو ڈنڈا اٹھا ہے ، اگرچہ یہ سیاستدانوں اور برسراقتدار جماعتوں کے کرنے کے کام ہیں لیکن اب حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ کوئی بھی خلوص سے یہ ڈنڈا اٹھائے گا ، اسے عوامی پزیرائی ہوگی ، لیکن کرپشن کے خاتمے کے ساتھ بروقت انتخابات کا انعقاد اور بہتر معاشی پالیسیوں کا اجراء اتنا ہی ضروری ہے جتنا کرپشن کے خلاف مہم ضروری ہے ۔ سعودی عرب اور انڈیا کی قربت اور نئے کوریڈور کا اعلان بھی ہماری معیشت پر اثرانداز ہونے کو ہے ، معاشی اشاریوں کو مثبت رخ دئیے بغیر امن ، ترقی اور خوشحالی کا سفر انتہائی دشوار گزار ہوگا ۔