انور ساجدی صاحب کے جواب میں ۔۔۔!!

خالد ولید سیفی
محترم انور ساجدی اپنے نائن الیون ( 11 ستمبر 2023 ) کے کالم افکار پریشان میں لکھتے ہیں کہ ، ” 1980 کو افغان جنگ کے نتیجے میں مہاجرین کی بڑی تعداد یہاں پر آئی اور انہوں نے سینکڑوں مدارس کھولے اس کام میں جے یو آئی اور جماعت اسلامی نے ان کی مدد کی ۔ کئی سال پہلے دروش سے نگرفورٹ جارہا تھا تو راستے میں جے یو آئی کے جتھے جن کے سروں پر جے یو آئی کا مخصوص رومال باندھا ہوا تھا نظر آئے ۔ پہلے یہ لوگ تبلیغ کے نام پر آئے لیکن آبادیوں کا سروے کرکے رپورٹ طالبان کو بھیجتے تھے جس کے نتیجے میں کیلاش آغاخانی اور دیگر اقلیتوں پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ مذہب تبدیل کرلیں ۔ میں سوچتا ہوں کہ بلوچستان کے مختلف حصوں میں جمعیت کی جو تنظیمیں ہیں وہ وہی کام تو نہین کررہی جو انہوں نے چترال اور گلگت بلتستان میں کیا تھا کہیں غفور حیدری خالد ولید سیفی اسماعیل بلیدی سروے کے کام پر تو مامور نہیں ہیں تاکہ طالبان کےلیے آسانی پیدا ہوجائے "
اسی موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے ساجدی صاحب رقمطراز ہوتے ہیں کہ ، ” حال ہی میں ایک ویڈیو کے ذریعے ایک امریکی تھنک ٹھینک اپنی پیشن گوئی کررہا تھا کہ افغانستان کے جنوب مغربی علاقوں پر مشتمل ایک ملک بنے گا اس کا واضح اشارہ پختونستان کے پرانے نظرئیے کی جانب تھا یعنی باچا خان ولی خان اور اجمل خٹک تو یہ مقصد حاصل نہ کرسکے لیکن طالبان اس جانب بڑھ رہے ہیں ۔ چاھے وہ دین کے نام پر ریاست قائم کریں یا قومیت کے نام پر ۔ اشرف غنی کے دفتر میں جو گریٹر افغانستان کا نقشہ لٹکا ہوا تھا اس میں بلوچستان کو بھی افغانستان کا حصہ دکھایا گیا تھا طالبان نے اقتدار میں آکر وہ نقشہ نہیں بدلا ۔ خالد ولید اور ساتھیوں سے گزارش ہے کہ وہ مذہبی سیاست ضرور کریں لیکن گلزمین کے خلاف سازشوں کا حصہ نہ بنیں ۔ یہی درخواست مولانا ہدایت الرحمن سے بھی ہے۔
( انور ساجدی ، افکار پریشان 7 ستمبر 2023 )
اس تحریر پر گفتگو سے قبل قارئین کی دلچسپی کےلیے ماضی کے جھروکوں کا کچھ پس منظر لکھ دیتا ہوں تاکہ بات سمجنے میں آسانی رہے ۔ ہر انسان کی طرح میرے پاس بھی ایک دل ہے ، البتہ میں نے اس دل میں مختلف گوشے بنارکھے ہیں جن کو ، میں نے اپنی زندگی میں شامل کچھ لوگوں کےلیے مختص کیا ہے ، اور انہیں الگ الگ انہی گوشوں میں بسا رکھا ہے ۔ ان خاص لوگوں کی تعداد اتنی ہے کہ انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے ۔ ان گوشوں میں ایک خاص گوشے میں انور ساجدی صاحب بھی بستے ہیں ، وہ اس لیے کہ ایک گمنام ٹین ایجر کی تعمیر میں انور ساجدی صاحب اور روزنامہ انتخاب کا کردار میرے لیے زندگی بھر ناقابل فراموش رہے گا ۔ ان سے احترام یا عقیدت بھرا استاد اور شاگرد جیسا ایسا رشتہ قائم ہے کہ اس کے کالم کے جواب میں کچھ لکھنے کےلیے مجھے ہر لفظ کے استعمال میں درجنوں بار سوچنا پڑے گا کہ ، وہ خلاف ادب یا منافی احترام نہ ہو ۔ مجھے آج سے 25 سال قبل 1998 کی وہ شام یاد ہے جب درجہ سادسہ کے ایک طالبعلم نے اپنا پہلا کالم لرزتے ہاتھوں اور ہزار امیدوں کے ساتھ روزنامہ انتخاب کے دفتر کی سیڑھیوں کے ساتھ لگے بکس میں ڈالا اور ایک ہفتے بعد وہ کالم انتخاب کی زینت بنا ، جو میرے لکھنے کےلیے محرک ثابت ہوا ۔ محترم انور ساجدی بلوچستان کے سب سے بڑے اور نامور قلم کار ہیں ، جنہوں نے 1988 یا 89 سے اپنےاخبار(انتخاب) کے اجراء کے ساتھ افکار پریشان کے عنوان سے کالموں کا سلسلہ شروع کیا تھا ، جو آج 35 سال بعد بھی برقرار ہے ۔ اور میں اس کا مستقل قاری ہوں ، افکار پریشان سے میرا پہلا تعارف 1991 میں اس وقت ہوا جب میری دینی تعلیم کا ابتدائی مرحلہ تھا ، ان دنوں افکار پریشاں میں مولانا عبدالغفور حیدری صاحب سے متعلق کچھ ذاتی نوعیت کے الزامات نما طنز لکھے گئے تھے ، جن کا جواب مولانا حیدری صاحب نے تحریر کیے تھے جو انتخاب میں چھپتے رہے ، ساجدی صاحب اور حیدری صاحب کے مابین جواب در جواب کا یہ سلسلہ کئی دنوں تک چلتا رہا ۔
2000 کو افکار پریشاں میں ، پہلی بار میرا نام اس شکوہ کے ساتھ ذکر ہوا تھا کہ میں بولان کو بھلا کر کشمیر کے گن گاتا ہوں ، جس پر میں نے جوابی کالم لکھا تھا اور یہاں سے جواب در جواب کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا ، جس میں بلوچستان سے دیگر مختلف لوگوں نے اسی عنوان سے متعلق اپنے اپنے ” نکتہ نظر” لکھے جو روزنامہ انتخاب میں چھپتے رہے ۔
کل 11 ستمبر کو ایک بار ہمارا ذکر اسی تناظر میں ہوا کہ ہم ” بولان ” کے خلاف سازشوں کا حصہ نہ بنیں ، اس بار ہم پر بلکہ جے یو آئی پر پوری چارج شیٹ پیش کی گئی ہے کہ بقول امریکی تھنک ٹھینک کے جو گریٹر پختونستان بننے جارہا ہے ، اس میں طالبان سے نظریاتی جڑت کی وجہ سے جے یو ائی معاون کا کردار ادا کرے گی اور اس میں چونکہ بلوچستان کو بھی نقشے میں گریٹر پختونستان کا حصہ دکھایا گیا کہ تو بطور بلوچ علماء ہم گلزمین کے خلاف اس سازش کا حصہ نہ بنیں ۔ جمعیت علماء اسلام کا فکری تسلسل شاہ ولی اللہ سے لے کر جمعیت علماء ہند تک جاملتا ہے ، اگر جمعیت علماء اسلام کے خمیر کی بات جائے تو وہ سامراج دشمنی بلکہ سامراجی قوتوں سے عملا” برسرپیکار ہونے کا ہے ، ہندوستان سے سامراج راج کے خاتمے میں جن علماء نے قربانیاں دی ہیں ، جمعیت علماء اسلام انہی کے فکر و فلسفے کا آئینہ دار ہے ، جمعیت علماء اسلام نے اگر جہاد افغانستان کی اخلاقی حمایت کی ہے تو وہ اسی فلسفے کی روشنی میں کی ہے کہ سوویت یونین نے ایک سامراجی جذبے سے مغلوب ہوکر افغانستان کی سرزمین پر پنجے گاڑھے تھے ، جس کے خلاف افغان نے تاریخی مزاحمت کی اور جمعیت نے اس مزاحمت کو جائز قرار دیا تھا ۔ اپنے کالم میں محترم ساجدی صاحب نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی اور تاثر کو تقویت دینے کےلیے امریکی تھنک ٹھینک کی ویڈیو کو بھی بطور ثبوت پیش کیا ہے کہ ، طالبان لامحالہ اپنی سرحد سے باہر نکل کر اپنی ریاست کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور دوسرا یہ کہ جس طرح جے یو آئی نے افغان جہاد کی حمایت کی تھی اسی طرح ریاستی سرحدوں کی وسعت کے اس عسکری منصوبے میں جے یو ائی ان کی معاون ہوگی ، میرے خیال میں یہ غیرضروری مفروضوں پر کھڑا کیا گیا تصور ہے جسے تجزئیہ نما الزام میں لپیٹ کر کالم کی شکل میں پیش کیا گیا ، یہ تجزئیہ کوئی اور عام لکھاری پیش کرتا تو اسے نظرانداز کیا جاسکتا تھا لیکن جے یو آئی کی طرزسیاست ساجدی صاحب جیسے فہم و ادراک رکھنے والے صاحب قلم سے کبھی مخفی نہیں رہی ہے ، اس لیے ان کی طرف سے کیا جانے والا تجزئیہ بلکہ لگایا جانے والے الزام پر اپنا نکتہ نظر پیش کرنا ضروری سمجھا ہے ۔ یہ غلط فہمی اس لیے ہے کہ ، طالبان نے عسکری طرز جدوجہد سے افغانستان میں نظام شرعیہ قائم کیا ہے اور جمعیت علماء اسلام بھی چونکہ پاکستان میں نظام شرعیہ کی خواہشمند ہے اس لیے جب طالبان شرعی نکتہ نگاہ سے گریٹر پختونستان قائم کرنے کی جدوجہد کریں گے تو لامحالحہ جے یو آئی ان کی صفوں میں کھڑی رہے گی ، دراصل طالبان اور جے یو آئی کے درمیان نظام شریعت کے مشترکہ تصور کی بنیاد کو لے کر یہ مفروضہ باندھا گیا ہے ، کہ جے یو آئی گریٹر پختونستان کے قیام میں طالبان کے ساتھ ہوگی ۔اس مفروضے کا بنیادی تصور ہی غلط ہے ، ایک تو طالبان نے اپنی سرحدوں سے باہر نکل کر دیگر ممالک کی سرحدوں کی خلاف ورزی کرنے یا قبضہ کرنے کا نہ کوئی ارادہ ظاہر کیا ہے اور نہ ہی عالمی قوانین اس کی اجازت دیں گے ، طالبان کی سب سے بڑی کوشش ہوگی کہ وہ افغانستان کو ترقی یافتہ ملک بناکر دنیا بھر میں بطور ایک ماڈل اسلامی ریاست متعارف کراکے یہ باور کرادیں کہ اکیسویں صدی میں بھی آفاقی قوانین کی روشنی میں ایک ترقی یافتہ و فلاحی ریاست کی تشکیل ممکن ہے ، البتہ ڈیورڈ لائن کے معاملات پر طالبان بات کرسکتے ہیں جسے کسی بھی طرح توسیع پسندانہ عزائم سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ اگر ہم اس مفروقے کی بنیاد تسلیم کربھی لیں کہ طالبان مستقبل قریب میں توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ اپنی سرحدوں کو بڑھانے کےلیے آگے بڑھیں گے تو پھر بھی یہ لکھنا کہ جے یو آئی ان کی معاون ہوگی ، قلم کے ساتھ انصاف نہیں ہے ۔ جے یو آئی کا تصور آئینے کی طرح صاف ہے ، کہ افغانستان پر جنگ مسلط کی گئی تھی افغانوں نے عسکری طرز جدوجہد سے سامراجی قوتوں سے اپنی آزادی واپس لی ہے ، پاکستان ایک سیاسی بندوبست سے وجود میں آیا ہے اس لیے پاکستان میں نظام شرعیہ یا حکومت الہیہ کے قیام کی جدوجہد بھی سیاسی طرز فکر سے ہوگی ، جے یو آئی کی ستر سالہ جدوجہد میں کبھی بھی ملک میں نظام شرعیہ کے قیام کےلیے بندوق کی پالیسی پیش نہیں کی گئی ، بلکہ بندوق کی سختی سے نفی کی گئی ہے اور جے یو آئی بندوق کی سوچ کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ہونے کی قیمت بھی ادا کرتی آرہی ہے ، ایک ایسی جماعت کو بندوق کی معاون تصور کرلینا کہ جو خود اس سوچ کی نفی کرنے کی وجہ سے خود کش حملوں کی زد میں ہے ، قرین انصاف نہیں ہے ۔ قیادت سے لے کارکنوں تک کو خود کش حملوں کا سامنا اس لیے ہے کہ مولانا فضل الرحمن نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ مجھ سے بندوق والی جدوجہد کی امید نہ رکھی جائے ۔ ساجدی صاحب فرماتے ہیں کہ دروش سے فورٹ نگر جاتے ہوئے مجھے جھتے نظر آئے جن کے سروں پر جے یو آئی کا مخصوص رومال نظر آیا ، اس بات کی وضاحت ہو کہ جے یو آئی نے اپنے کارکنان کےلیے نہ کسی یونیفارم کا باضابطہ اعلان کیا ہے اور نہ ہی کسی مخصوص رومال کو بطور شناخت استعمال کرنے کی تاکید کی ہے ، ساجدی صاحب نے تبلیغی جماعت کے کچھ ارکان دیکھے ہوں گے جن میں سے ایک دو نے زرد رومال رکھے ہوں گے اور پیدل سال یا چار ماہ کی جماعت جارہی ہوگی ، جنہیں جے یو آئی کے جھتے سے تعبیر کیا گیا ہے ، آج تک ملک بھر میں کہیں بھی یہ شکایت درج نہیں ہوا ہے کہ تبلیغی جماعت نے زبردستی مذہب تبدیل کرنے کی بات کی ہے ، ناکہ یہ کہیں ریکارڈ پر ہے کہ تبلیغی جماعت ڈیٹا جمع کرکے طالبان کو دیتے تھے ، عرض یہ ہے کہ ، طالبان ، تبلیغی جماعت اور جے یو آئی کے کام کی نوعیت ، نفسیاتی ساخت ، طرز جدوجہد اور کام کے میدان بالکل الگ الگ ہیں ، طالبان نے عسکری جدوجہد کی ہے ، تبلیغی جماعت خالصتا” دعوتی شعبے میں کام کرتی ہے اور جے یو آئی ملک کی بڑی مذہبی و سیاسی جماعت ہے جو سیاسی جدوجہد کے ذریعے اپنے نصب العین کا حصول چاہتی ہے ۔جے یو آئی کی جدوجہد میں پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کا کوئی ایجنڈہ شامل نہیں ہے ، اس ملک کی بقاء ، استحکام اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں عدل ، انصاف ، مساوات اور عوامی حقوق کا تحفظ جے یو ائی کی جدوجہد کا محور ہے ، ملکی سرحدوں کو نقصان پہنچانے والے شریعت کا نام استعمال کریں یا کوئی اور نام ، جے یو آئی ان کی مخالف صف میں کھڑی نظر آئے گی ۔ بطور ایک سیاسی کارکن ہم نہ بلوچستان کو گریٹر پختونستان بنانے کی سازشوں کا حصہ ہیں اور نہ ہی کسی اور منصوبہ بندیوں کے شریک کار ہیں ۔ہم اپنی جماعتی پالیسیوں کے ساتھ کھڑے ہیں ، بلوچستان کے بنیادی حقوق کی بات کرتے ہیں ، ان کے وسائل کی بات کرتے ہیں ، بلوچستان کی محرومیوں کے ازالے کی بات کرتے ہیں ، بلوچستان سے ہونے والی زیادتیوں کے خاتمے کی بات کرتے ہیں ، میرا موقف اور میری جماعت کا موقف لگی اور لپٹی کے بغیر ہمیشہ واضح رہا ہے اس میں کبھی بھی کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں رہا ہے ۔

اپنا تبصرہ بھیجیں