مبارک قاضی ایک عہد ساز شخصیت
تحریر: حبیب مزار
داں بروت انت لاش قبر ء-تا جنازہ چست بہ بیت
گوں دل ءِ ہر دریکگ ء-آسر کناں نام ء-تئی
ہر شخص جب پیدا ہوتا ہے تو اسے موت کا مزا چھکنا ہی ہوتا ہے لیکن ہستیوں کا چلے جانا پورے قوم کو غم میں مبتلا کرنا ہے اور ایسے شخص کا جانا جس کی پوری زندگی بلوچ قوم پرستی پر گزرا ہو جس نے قربانیاں دی ہوں ۔
دنیا میں کئی لوگ آتے جاتے ہیں مگر کچھ لوگوں کی زندگیاں ایسے ہوتے ہیں جو مرنے سے بھی بدتر ہوتے ہیں انکو اپنے بھی نہیں جانتے اور کچھ مر کر بھی زندہ اور امر رہتے ہیں جنکو پوری دنیا جانتا اور پہچانتا ہے۔ دوست تو دوست دشمن بھی اشکبار ہو جاتا ہے ۔ مبارک قاضی بھی ان ناموں میں سے ایک ہیں جو ہمیشہ زندہ رہنے والوں میں شامل ہوگئے۔ بلوچ قوم نے جس طرح آخری وقت میں اپنے قومی ہیرو واجہ مبارک قاضی کو جو عزت بخشی وہ تاریخ کے سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔
قاضی انت گوں شعر ء’ سوت ء-
گندگ ء-واجہ نشان انت
مبارک قاضی وہ شخص تھے جس نے بلوچستان کو بہت قریب سے دیکھا۔ پابند سلاسل رہے مشکلیں مصیبتیں جھیلیں ۔زندگی کے نشیب و فراز میں کوئی ایسی حالات نہ تھے جو مبارک قاضی نے نہ دیکھے ہوں اس لئے آج وہ اس قدر پختہ ہو کر امر ہو گئے کہ سب کو ویران کر گئے۔
دلے دردانی قاضی منت وار ء-
یہ دانائی پہ سیم ء’ زر نہ اتک ء-
اگر ہم قاضی کے باریے میں بات کریں تو وہ بہت ایماندار ،سچا قوم پرست اور دوٹوک الفاظ میں لوگوں کو کہنے والا شخص تھا۔ اس نے اپنی زبان اور قلم سے کبھی بے وفائی نہ کی جو بھی لکھا وہ لوگوں کیلئے ایک درس بن گیا۔اس نے زندگی میں کبھی اپنے آپ کا سودہ نہیں کیا بلکہ قاضی نے جو قربانیاں بلوچ قوم اور بلوچ شاعری کیلئے دی پورا بلوچستان انکا مرہون منت ہے ۔
قاضی ء-دو گپ انچو پہ دیم رد نہ کتگ
یہ پیریں مرد ء-نمیرانیں داستان ء_ گوں
واجہ مبارک قاضی کی شاعری بہت منفرد تھا ان کی شاعری ایسا تھا جس کو ہر شخص باآسانی سمجھ سکتا تھا چاہے وہ ماہیگیر ہو، درزی ہو، دہکان ہو، مزدور ہو، طالب علم ہو، استاد ہو یا کسی بھی طبقہ سے تعلق رکھتا ہو وہ قاضی صاحب کی شاعری کو سمجھتے ہیں پسند کرتے ہیں اور بہت سنجیدگی سے سنتے ہیں۔
"آپ کی بھی قدر دانی ہوگی پہلے مر تو جائیے”
مبارک قاضی ایسے شخصیت تھے جس کو بلوچستان نہیں پورے پاکستان میں ہر شخص جانتا اور پہچانتا ہے اور بلوچستان میں لوگ اسکے اشعارکو بڑی دلچسپی سے سنتے ہیں چاہے وہ بچہ ہو بوڑھا ہو لڑکا ہو لڑکی ہو یا عورت ہو ہر شخص مبارک قاضی سے واقف ہے اور اسکے شعر کا دیوانہ ہے۔ آج اس کے جانے سے سب اشکبار ہے کیونکہ اب ان جیسے ہستیوں کا پیدا ہونا مشکل ہی نہیں نہ ممکن ہے۔
تو قاضی ستر گندا کارے ببئے
تئی پنت ء’ وازاں دلا جاگا انت
جب بھی کسی گلوکار کا میوزک البم مارکیٹ میں ریلیز ہوتا تو سب لوگ پہلے اسکے پوسٹر دیکھتے وہ پوسٹر اسلئے نہیں دیکھتے کہ گلوکار دکھتا کیسا ہے بلکہ اسلئے دیکھتے کہ واجہ مبارک قاضی کا شعر شامل ہے یا نہیں اگر ہے تو پہلے وہ مبارک قاضی والے گانے کو ہی سنتے جب کسی البم میں مبارک قاضی کے شعر نہ ہوتے تو لوگ اسکو کم ترجیح دیتے۔
اسی طرح اگر واجہ مبارک قاضی کا کوئی کتاب شائع ہوجاتا تو انکی کتاب کی کاپیاں ہاتھوں ہاتھ بک جاتی اگر کوئی قاضی صاحب کا چہیتا دو تین دن میں بھی تاخیر کرتا تو وہ قاضی صاحب کے کتاب سے محروم ہو جاتا ایک دفعہ کتاب کے موضوع پر کسی نے قاضی سے پوچھا کہ "آپ کے کتاب ہاتھوں ہاتھ بک جاتے ہیں اسکی وجہ کیا ہے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ قاضی صاحب اور اسکی شاعری کو پسند کرتے ہیں اسلئے میری کتابیں جلد نایاب ہو جاتی ہیں”
مبارک قاضی کی پہچان اسکی شاعری تھی سب لوگ اسکو اسکی شاعری کی وجہ سے ہی پہچانتے تھے۔ قاضی صاحب کا لکھا گیا ہر شعر پڑھنے والے کیلئے ایک درس ہے۔
واجہ مبارک قاضی ایک ایسا شاعر تھا جو ہر موضوع پر لکھتا اور پڑھنے والے کو یہ محسوس ہوتا کہ یہ شعر اس پر لکھی گئی ہے۔
قاضی صاحب اگر بلوچستان پر لکھتا تو اس شعر میں پورا بلوچستان آپ کو دیکھنے کو ملتا، اگر اپنے بیٹے کمبر پر لکھتا تو کمبر آپ کے سامنے ہوتا۔ ۔ سیاست پر لکھتا تو سیاست آپ کے سامنے عیاں ہوتی اگر عشق و شاعقی پر لکھتا تو پکا عاشق بنتا ہر موضوع پر وہ بالکل اسی طرح سے ہی لکھتا جس طرح سے پڑھنے والوں کو پسند ہوں اور لکھنے والے کو اس پر عبور حاصل ہواور یہ سارے ہنر واجہ مبارک قاضی میں ہی تھیں۔
قاضی صاحب نے جب اپنے بیٹے کمبر کی پیدائش پر جو شعر لکھا ہر باپ کی خواہش ہے کہ اسکا بیٹا بھی ایسا ہو ۔
لیلو لیلو منی بچیگ ترا نازین ء-
تو مزن بئے وتی راج ء-وتی بڑا بند ء_
جب کمبر جوان ہوا تو قاضی صاحب لکھتا ہے
یہ کور ابا بارت ترا
بلے پہ من اجب نہ انت کہ انگت ء- نہ برتگ ء_
اسی طرح قاضی صاحب عشق و عاشقی پر لکھتے ہیں تو اسکا انداز بیان بالکل تبدیل ہوتا ہے۔
منی کنٹ ء- بیبیت مہگونگ ء_ سر
چشیں وشیں دمان ہچ بر نہ اتک ء-
یا
گشندہ نہ زانت زیمل ء_ متلب ء-
گل ء_ دیدگ ء-داں تلاوت نہ کنت
یا
ہمودا ما وتی بہت ء-گوں کورگان کناں
کجام جو ء_ سرا سر وتی گل ء- رستگ
سیاست دانوں پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
ادا کہ کور سروک انت ء’کور راہدربر
گلگ کنئے نہ کنئے شر چراغ تہنا انت
جب قاضی انقلابی شعر لکھتے ہیں تو وہ بالکل الگ ہی نظر آتے ہیں اور اسکی کیفیت ہی تبدیل ہوتی ہے اور انکے اشعار پڑھنے والوں کو اپنی طرف کھینچتے ہیں ۔
ہانی منی ماتیں وتن
ماتیں وتن ہانی منی
یا
اگاں تو لوٹ ء_ بمانے دائم ما دپتراں
پناہ بکن جند ء_ ہستی ء_ یہ گڈا رسیت
یا
داں ہر گورا کہ چم روت درآمدانی ماڈی انت
بچار قاضی قسمت ء- وتن منی منی نہ انت
اسی طرح قاضی صاحب طالب علموں کیلئے لکھتے ہیں کہ
مرچیگیں یہ وانندہ کہ باندات ء_ امیت انت
جند ء- وتی تاوان دنت جاہل گوں شراباں
قاضی صاحب سمندر اور ماہیگیروں کے متعلق لکھتے ہیں
ناھدا بوجی ء- قاضی ء_ دست ء- مدئے
دور چماں ظاہر انت ساحل چشیں کار ء- مکن
یا
چول چولانی سرا کیت ء’ پرشیت
ناھدا نام ء_ ھدا سپر ء- انت
قاضی صاحب اپنے متعلق بھی بہت کچھ لکھتے ہیں ان کی چند اشعار ملاحظہ فرمائیں
قاضی ء- دو گپ انچو پہ دیم رد نہ کتگ
یہ پیریں مرد ء- نمیرانیں داستان ء_ گو
یا
من قاضی وتی اھد ء_ درآمد
باریں منی باریگ کجام انت
یا
تو قاضی ستر گندا کارے بہ بئے
تئی پنت ءُ وازاں دل ءَ جاگہے
آج مبارک قاضی اپنے آبائی علاقہ پسنی میں سپرد خاک ہوکر اپنے بے پناہ چاہنے والوں کو سوگوار کرگیا ، جن لوگوں کو مبارک قاضی کا مبارک چہرہ نصیب ہوا وہ تو بہت خوش نصیب ہوئے اور جن کو انکا چہرہ مبارک نصیب نہ ہوا وہ انکے اشعار سے انکو دیکھ سکتے ہیں۔ واجہ مبارک قاضی ایک ایسا اھد ایک ایسا شخصیت تھا جو واپس آنے والوں میں نہیں۔
بقول قاضی صاحب کے
چشیں قاضی ء_ کہ مبارک انت
پدا مشکل انت ودی بیبیت