ابراہام2،بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
تحریر: انور ساجدی
اگر پاکستان کے دفتر خارجہ کو خطے میں وقوع پذیر ہونے والی عظیم تبدیلیوں کا علم ہوتا تو وہ اپنے نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کو وہ تقریر نہ لکھ کر دیتے جو انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی۔خاص طور پر فلسطین کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے دو ریاستی تصور کی حد تک تو ٹھیک بات کی لیکن یہ کہنا کہ ریاست فلسطین کو1967کی جنگ سے قبل کی پوزیشن پر قائم کی جائے اور یروشلم کو اس کا دارالحکومت تسلیم کیا جائے۔اس تقریر سے ایسا لگتا ہے کہ دفتر خارجہ نے ذوالفقار علی بھٹو کی خارجہ پالیسی بحال کر دی ہے چنانچہ وزیراعظم کا خطاب عصری حالات اور تبدیلیوں سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ایسے وقت میں جبکہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے فاکس نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے اور اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے تصدیق کی کہ دونوں ممالک قریبی تعلقات قائم کر رہے ہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ ایک نیا مشرق وسطیٰ جنم لے رہا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوں گے ۔ دونوں رہنما ایک نکتہ پر متفق تھے اور وہ تھا ایران مخالفت۔سعودی ولی عہد نے کہا کہ اگر ایران نے ایٹم بم بنایا تو ہم بھی بنائیں گے۔اسرائیلی وزیراعظم نے دوٹوک کہا ہم کسی قیمت پر ایران کو ایٹمی اسلحہ بنانے نہیں دیں گے جہاں تک ایران کا تعلق ہے تو وہ برسوں پہلے ڈاکٹر قدیر خان کے تعاون سے یورینیم افزودگی کی ٹیکنالوجی حاصل کر چکا اور اس نے اتنی مہارت حاصل کر لی ہے کہ وہ ایٹمی اسلحہ تیار کرے۔یہ خدشہ ضرورہے کہ جب اسرائیل اور سعودی عرب دوست بن جائیں تو ایران کو حملوں کا خطرہ بڑھ جائے گا۔خاص طور پر اسرائیل ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا۔ویسے اسرائیل اب تک کئی بار حملے کر چکا ہے لیکن ایران کے دفاعی نظام اور دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے یہ حملے ناکام رہے ہیں۔صدام حسین کے دور میں اسرائیل نے اچانک حملہ کر کے عراق کی ایٹمی تنصیات کے مراکز کو تباہ کر دیا تھا وہ سعودی عرب سے تعلقات اور امریکہ کی شہ پر مستقبل قریب میں باربار ایران پر حملے کرے گا حالانکہ اسرائیل کو علم ہے کہ ایران کے جو میزائل تیار پڑے ہیں وہ اسرائیل کو ہدف بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔البتہ ایران کی مجبوری ہے کہ وہ قبلہ اول یعنی یروشلم کو نشانہ نہیں بنا سکتا البتہ وہ تل ابیب اور حیفہ کی بندرگاہ پر حملے کر سکتا ہے۔ اگرچہ اسرائیل اور سعودی عرب نے ایک دوسرے کو تسلیم کرنے کے عمل کو امن معاہدے سے تعبیر کیا ہے لیکن یہ امن معاہدہ مسئلہ فلسطین کی وجہ سے بالآخر ایک خونی تنازعہ اور ہولناک جنگوں کی شکل اختیار کرے گا۔اگر فلسطینی عوام کو زندہ رہنے کا حق نہیں دیا گیا تو وہ بقا کی آخری جنگ لڑیں گے جس کے نتیجے میں بڑی خونریزی ہوگی۔خودکش حملے ہوں گے۔مسافر طیارے اغواءہوں گے۔اسرائیل اور سعودی عرب کی اہم تنصیبات پر خوفناک کارروائیاں ہوں گی جس کے نتیجے میں نہ صرف مشرق وسطیٰ کا امن تاراج ہو جائے گا بلکہ پوری دنیا کا امن و استحکام متاثر ہوگا۔اگر خلیج میں ایران کی ناکہ بندی ہوئی تو طاقت کے نئے عناصر سر اٹھائیںگے۔ایران حماس ،اخوان المسلمین، حزب اللہ اور فلسطینی گروپ یک جا ہو کر امریکا، اسرائیل اور سعودی عرب کے خلاف صف آراءہوں گے۔سعودی عرب پہلے ہی یمن میں جنگ کا مزہ اٹھا چکا جبکہ اسرائیل کو پتہ ہے کہ حزب اللہ اس کےخلاف کارروائیوں کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک طرف تو انڈیا سے اسرائیل تک نئے اکنامک کاریڈور قائم کرنےکی بات کی جا رہی ہے دوسری جانب جنگ اور تباہی کے امکانات کو ہوا دی جا رہی ہے حالانکہ اکنامک سرگرمیاں صرف امن کے ماحول میں کامیاب ہوسکتی ہیں۔بہتر ہوگا کہ سعودی عرب نے ایران سے برسوں بعد سفارتی تعلقات قائم کرنے کا جو عمل شروع کیا ہے اسے آگے بڑھائے اور اس سے بھی امن معاہدے کی طرف پیش قدمی کرے ورنہ اس کے سارے خواب چکنا چور ہو جائیں گے اور وہ ناقابل یقین عذابوں میں مبتلا ہو جائے گا۔اگرچہ صدر بائیڈن کی کوشش ہے کہ فلسطینی خودمختار ریاست کے بجائے فلسطینی اتھارٹی کو مکمل خودمختار علاقہ قرار دیا جائے جیسے کہ شمالی کردستان ہے یعنی فلسطین اسرائیل کے زیر نگیں رہے۔گمان یہی ہے کہ فلسطینی عوام اور قیادت یہ منصوبہ رد کر دیں گے۔اسی اثناءمستقبل کے نقشہ کو سامنے رکھ کر چین نے مشرق وسطیٰ کے اہم ملک شام سے دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔شام اسرائیل کا قریب ترین ہمسایہ ہے۔اس کے علاقے گولان ہائٹس پر1967 سے اسرائیل کا قبضہ ہے جبکہ اس کی وحدت کو ترکی اور کردوں سے شدید خطرات لاحق ہیں۔امریکہ کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو روکنے کےلئے چین شام اور فلسطین میں اپنے لئے گھسنے کا کاریڈور تلاش کر سکتا ہے۔اسی طرح چین ایران سے زیادہ قریبی تعلقات پیدا کر کے قرن افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں اپنی موجودگی کو یقینی بنا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جنگ ہو کہ نہ ہو لیکن امریکہ اور چین کی مسابقت سے ایک نئی سرد جنگ کا آغاز ضرور ہوا ہے جو ماضی کی سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کھیلی جانےوالی سرد جنگ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگی۔صدر بائیڈن نے دوسری مدت کی صدارت کے لئے خطرناک مہم جوئی شروع کر دی ہے۔روس یوکرین جنگ اس کا شاخسانہ ہے۔یہ جنگ ہر روز خطرناک شکل اختیار کرتی جا رہی ہے کیونکہ امریکہ روس کے مقابلہ کے لئے یوکرین کو اربوں ڈالر کا اسلحہ اور نقد امداد دے رہا ہے۔حتیٰ کہ اس نے سوویت یونین سے جنگ افغانستان کے دوران پاکستان کو جو توپیں دی تھیں وہ واپس خرید کر یوکرین کے حوالے کر دی ہیں جس پر یہ الزام لگا کہ پاکستان نے یوکرین کو اسلحہ سپلائی کیا ہے۔جس کے بدلے میں امریکہ نے آئی ایم ایف کا بیل آﺅٹ پیکیج منظور کروایا ہے۔پاکستان اس الزام کی تردید کر چکا ہے لیکن توپیں تو یوکرین پہنچ چکی ہیںاور ان کے ذریعے یوکرین کی جنگی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔یہ جو روس اور یوکرین کی جنگ ہے اگر اسے روکا نہ گیا تو روس بہت بڑا قدم اٹھا سکتا ہے کیونکہ جنگ توقعات کے برعکس طول کھینچ رہی ہے۔یورپ کے علاوہ ایشیا اور وہ ممالک بھی متاثر ہیں جو دونوں ممالک سے گندم اور دیگر اجناس منگواتے تھے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کی استواری سے اگر کسی ملک کو سخت ترین سفارتی اور معاشی صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ پاکستان ہے ۔اگر سعودی عرب نے اسرائیل کو تسلیم کیا تو وہ پاکستان کو بھی ایسا کرنے کےلئے مجبور کرے گا کیونکہ سعودی عرب کے اتنے احسانات ہیں کہ اس کی کسی بات کو رد کرنا مشکل ہے۔یہ کام ہوا تو اگلی حکومت کے دور میں ہوگا جو نہ جانے کس کی حکومت ہوگی۔البتہ اصل حکمران تو طاقت کے عناصر ہوں گے جو ہمیشہ قائم رہتے ہیں۔نام نہاد تابع فرمان سیاسی حکومتیں عبوری مدت کے لئے آتی ہیں اور مدت پوری کئے بغیر ختم ہو جاتی ہیں۔اگر نوازشریف کی حکومت آئی تو وہ سعودی شاہی خاندان کے مطالبہ پر زیادہ چوں چراں سے کام نہیں لے گی اگر نوازشریف کے بجائے کوئی اور حکومت آئی تو بھی کام مزید آسان ہوگا۔نوازشریف نے سابق آرمی چیف باجوہ،سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے خلاف کارروائی کا جو مطالبہ کیا ہے اس سے ایک نئی محاذ آرائی کا دروازہ کھلے گا اور ہو سکتا ہے کہ انتخابات میں ن لیگ کو نقصان پہنچے۔نوازشریف نے 2013 میں برسراقتدار آکر جنرل پرویز مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کیا تھا لیکن مشرف ایک دن بھی جیل نہیں گئے اور نہ ہی کسی عدالت میں پیش ہوئے لہٰذا ان کے موجودہ بیانہ کا بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا کیونکہ آج تک کسی فوجی سربراہ یا چیف جسٹس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی نہ آئندہ ہوگی۔نوازشریف کی بچگانہ ضد سے یہی پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے1990 سے اب تک کوئی سابق نہیں سیکھا۔ایسے وقت میں جبکہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں ہور رہی ہیں تو وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ پاکستان چین کا اسرائیل ہے۔آیا چین پاکستان کے اتنے نخرے اٹھا رہا ہے جو امریکہ اسرائیل کے اٹھا رہا ہے جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے تو ٹیکنالوجی کے کئی شعبوں میں امریکہ اس کا محتاج ہے جبکہ پاکستان کے پاس ایسا کوئی جادو نہیں ہے کہ چین اس کا محتاج ہو۔البتہ سلک روٹ یعنی شاہراہ ریشم وہ واحد ذریعہ ہے جو باقی دنیا سے روابط کے لئے چین کے لئے ناگزیر ہے لیکن چین نے سی پیک کا جو تجربہ کیا ہے وہ بھی ناکامی سے دوچار ہے۔اگر مستقبل میں چین نے اپنے قرضے معاف نہیں کئے تو پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا۔کئی وی لاگرز نے وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کے دورہ امریکہ ،فرانس اور برطانیہ پر اعتراضات کئے ہیں یہ کہاگیا کہ جنرل اسمبلی سے خطاب منتخب وزیراعظم کا کام ہے لیکن اگر اقوام متحدہ کو اعتراض نہ ہوا اور اس نے خطاب کا موقع دیا تو اعتراض بلاوجہ لگتا ہے۔اسی طرح وہ پیرس کے شہرہ آفاق بازار”شانزے لیزے“ گئے اور پہلی مرتبہ ایفل ٹاور کی سیر کی تو کیا ہوا یا وہ پہلی بار ائیرفورس کے طیارہ فیلکن میں سفر پر گئے تو یہ کوئی بڑی بات ہے۔انہیں بھی یہ طیارہ دیکھنے اور اسے استعمال کرنے کا حق ہے۔جہاں تک لندن جانے کا تعلق ہے تو وہ پرانی یادیں تازہ کرنے گئے ہونگے وہ کئی برس تک یہاں مقیم رہے ہیں۔ہاں یہ ضرور ہے کہ جو ان کے برے دنوں کے دوست تھے ان سے ملاقات سے گریز کیا ہوگا کیونکہ وہ تبدیل شدہ حالات میں کام کے لوگ نہ رہے۔