ایک تکلیف دہ واقعہ کی یاد
تحریر: عطاءالرحمن بلوچ
10 برس گزر گئے۔ مگروہی لمحہ ،وہی دکھ، وہی پریشانیاں وہی تکالیف، اور وہی درد آج تک ہمارے خیالوں میں ، نظروں میں سوچوں میں، خوشیوں میں،غموں میں، آسائشوں میں اور آزمائشوں میں واضح طور پر ہمیں نظر آتا ہے۔ 24 ستمبر 2013ءکی ہولناک زلزلہ کی تباہی کو ہم کبھی بھول نہیں پائے گے۔ انتہائی تکلیف دہ دن تھا۔ 24 ستمبر کے دن 4:30 میں ایک ایسا بھیانک آواز کے ساتھ پورا مشکے صفحہ ہستی سے مٹ گیا۔ ایک بڑا سانحہ برپا ہوا سب کچھ لرزہ بر اندام ہوگیا۔ پورے اہل مشکے کے لوگ غمگین ہوگئے۔ یہ لمحہ اندھیرے رات کی طرح چھا گیا۔ زمین کی لرزہ اور بھیانک آواز کی کپکپاہٹ سے اپنے شہیدوں کو دفنانے میں دشواریاں پیدا ہوئیں غم ناکی کی باعث تاریک رات میں اونگھ بردہ نہیں ہوئیں۔ پوری رات زمین کی لرزہ اور خوفناک آواز ختم نہیں ہوا۔ جب صبح ہوئی زمین کی لرزہ ختم نہیں ہوئی تھی۔ لوگ دکھی ہوئی دلوں سے آنسو سے بھرے آنکھوں اور غمزدہ چہروں کے ساتھ کندھے سے کندھے ملا کر اپنے پیاروں کو دفنا رہے تھے- یہ وہ لمحہ تھا ہر شخص آبدیدہ تھا۔ صرف لوگوں کے منہ سے آہیں اور سسکیاں نکلتی تھیں۔ ہر ایک کے دل غموں سے چور چور تھا۔ لوگ اپنے پیاروں سے بیچھڑ گئے تھے اس آفات نے سب کچھ چھین لیا تھا۔ اس دن سے مشکل زیست شروع ہوگئی۔ اس ہولناک آفات سے پہلے اپنے ملنسار دوستوں کے ساتھ ایک خوش باش زندگی گزار رہے تھے۔ کیا زمانہ تھا۔ جب گھر سے نکل کر اپنے جگری دوستوں کے ساتھ کور کلاں کی طرف گھومنے کیلئے جاتے تھے۔ چھیڑیوں کے سریلءآواز ٹھنڈی ہواو¿ں سے بھر پور لطف اندوز ہوتے تھے۔ ندی کے کنارے میں ایک دوست کا کھجور کا باغ تھا۔ وہاں بیٹھتے تھے ہنسی مذاق گب شپ کرتے تھے۔ ایک دوست اکثر کہا کرتا تھا۔ یہ ہماری لئے دنیاوی جنت ہے۔ یقینا وہ سر سبز باغ جنت نما تھا۔ کھجور کے خوبصورت درختوں، گندم کی فصلات اور دیگر پھلوں کے پرکشش نظارہ ہمارے لئے جنت سے کم نہیں تھا۔ اس خوفناک زلزلہ نے ہماری تمام خوشیوں کو ختم کر دیا محبت کرنے والوں کو ہم سے جدا کر دیا۔ کرہ ارض کی خوبصورتی انسان ہے۔اگر سارے انسان فنا ہوجائے تو کرہ ارض کی خوبصورتی جائےگی۔ اس دل ہلانے والے واقعہ نے ہماری ساری خوشیوں کو راکھ کرکے رکھ دیا وہ دن بڑی ازیت زدہ وقت تھی۔ ہر ایک دوسرے کو صرف سرزنش بھری نگاہوں سے دیکھتے تھے۔600 سے زائد لوگ شہید ہوچکے تھے۔ اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے گھر ہوگئے۔ اس دل ہلانے والے سر زمین کا نام مشکے ہے۔ 10 سال گزرنے کے باوجود مشکے تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ دوسرے شہروں میں لے جانے کیلئے کافی دشواری ہوتی ہے۔ مشکے سے خضدار تک 140 کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے 6 گھنٹے تک سفر کرنا ہوگا۔ روڈ کا حال اس طرح ہے۔کہ ایک صحت مند شخص جائے۔ وہ بھی بیمار ہوتا ہے۔ سڑک کی خستہ حالی کی وجہ سے بہت سے لخت جگر ہم سے جدا ہوگئے۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے پورے اہلیان مشکے پریشان ہیں۔ زمین دار طبقہ زیادہ تر متاثر ہے۔ علاقے کا زیادہ تر ذریعہ معاش زمین داری ہے۔ سڑک نہ ہونے کی وجہ سے ان کی فصلیں وقت پر منڈیوں تک نہیں پہنچ پاتی ہیں۔ دو تین دن تک گاڑیوں کے اندر ہیں۔ تین دن بعد منڈیوں تک پہنچ جاتی ہیں۔ اچھے وقت پر فروخت نہیں ہوتے ہیں۔ اس ترقی یافتہ دور میں لوگ جیب میں پیسہ نہیں رکھتے ہیں۔ صرف خالی ATM ان کے جیب میں ہے۔جہاں بھی پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔اس وقت اپنے لئے پیسے نکالتے ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ مشکے میں ابھی تک بینک نہیں ہے۔ بینک نہ ہونے کی وجہ سے کاروباری حضرات کافی متاثر ہیں۔ خاص کر ہمارے علاقے کے مزدور طبقہ زیادہ متاثر ہے۔ جو کہ سعودی عرب، مسقط اوربحرین میں مزدوری کرتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کیلئے پیسے بھیجنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور ساتھ ہی سرکاری ملازمین زیادہ پریشان ہیں۔ انہیں اپنی تنخواہیں کیلئے خضدار یا آواران جانا پڑتا ہے۔ اگر بینک ہوتے تو سب کیلئے شاید آسانیاں پیدا ہو جاتی تھی۔ بجلی جیسی روز مرہ کی اہم ضروریات ہمیں میسر نہیں ہے۔ گریڈ اسٹیشن کے تیار ہونے کے باوجود بجلی جیسی سہولیات میسر نہیں ہے۔ 1973ءکی ایک جنریٹر مشین ہے۔ وہ بھی استعمال کے قابل نہیں ہے۔ ہمیں ہماری تمام بنیادی سہولیات دی جائیں۔ چاہیے وہ تعلیم کی صورت میں ہو یا صحت۔ یا سڑک۔ یا بجلی۔یا بینک ہو۔ تمام مسائل حل کرنے میں کلیدی کردار ادا کرے۔ تاکہ ہمارے لئے آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ تاکہ ہم ایک خوشحال زندگی گزار سکیں۔