میاں صاحب کی آمد آمد ہے

تحریر: انور ساجدی
”اوپر والوں“ کی نظر نیک ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے یعنی آج ہی حفاظتی ضمانت کی درخواست پیش ہوئی آج ہی سماعت کےلئے منظور ہوئی اور اگلے دن ضمانت مل گئی۔اسی طرح دوسری عدالت میں نیب کو ”ملزم“ کے وارنٹ معطل ہونے پر بھی اعتراض نہیں ہوتا حالانکہ 2017 میں جب ”اوپر و الوں“ کی نظر نیک نہیں تھی تو پانامہ کے جعلی کیس میں قید اور تاحیات نااہلی کی سزا ہوئی۔
اب یہ بات پکی ہے کہ میاں صاحب 21اکتوبر کو واپس آ رہے ہیں ان کا ائیرپورٹ پر شاندار استقبال بھی ہوگا اور منٹو پارک میں عظیم الشان جلسہ بھی ہوگا۔پنجاب حکومت انہیں ائیرپورٹ سے جلسہ گاہ میں ہیلی کاپٹر میں لائے گی۔کہا جائے گا کہ ہیلی کاپٹر کا انتظام ن لیگ نے خود کیا ہے اس سے یہ بات بھی یقینی معلوم ہوتی ہے کہ میاں صاحب کی مقتدرہ سے اور مقتدرہ کی میاں صاحب سے ڈیل ہوئی ہے۔یہ ”متعہ“ ہے یا نکاح یہ بعد کے حالات سے پتہ چلے گا۔البتہ میاں صاحب کی آمد جہاں خوش آئند ہے وہاں اس کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ انہوں نے ”ووٹ کو عزت دو“ والا اپنا بیانہ دفن کر دیا ہے ۔انہوں نے مقتدرہ اور عدلیہ کی بعض اہم شخصیات کے احتساب کا مطالبہ بھی ترک کر دیا ہے یعنی میاں صاحب ایک نئے نظریہ کے تحت چار سال کی جلا وطنی کے بعد واپس آ رہے ہیں اور یہ کوئی نیا نظریہ نہیں ہے بلکہ وہی پرانا نظریہ ضرورت ہے۔یہ نظریہ جسٹس منیر کے فیصلہ کے بعد سے پاکستان کے ہر شعبہ کے ساتھ ایسے چپکا ہوا ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ بات ماننے کی ہے کہ جب میاں صاحب نے بہت ہی خفیہ ڈیل کر کے باجوہ کو توسیع دی تو انہوں نے بھی عمران خان کو اقتدار سے اتار کر اس احسان کا بدلہ چکا دیا۔اس سے قبل باجوہ نے پلیٹ لیٹس کا معاملہ اٹھا کر میاں صاحب کو اذیت ناک قید و بند سے نجات دلائی تھی لیکن دوسری توسیع کو میاں صاحب نے رد کر دیا کیونکہ انہوں نے آگے دیکھنا تھا۔نئی تقرری پر بھی انہوں نے آخر تک رازداری برقرار رکھی اور غالباً ان کی ایک ہی شرط تھی کہ پہلے عمران خان کو کھڈے لائن لگاﺅ اس کا ”پھوں پھاں“ نکالو اور پنجاب میں اس کا ووٹ بینک ختم کر دو تب میں یہ عظیم کارنامہ سرانجام دوں گا۔میاں صاحب کی عبوری ضمانت تو ہوئی ہے اور یہ بات بھی یقینی ہے کہ اعلیٰ عدالتوں اور احتساب عدالت سے انہیں ریلیف ملے گا۔اس ریلیف کے بعد ہی وہ فیصلہ کریں گے کہ عام انتخابات کا انعقاد کب ہو اور کیسے ہو؟ اس مقصد کے لئے ضرور کوئی پلان بن چکا ہوگا یعنی عمران خان خود انتخابات سے آﺅٹ ہوں گے تاہم پارٹی کے معتدل عناصر کو حصہ لینے کا موقع دیا جائے گا تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ مدمقابل پارٹی کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے مجبور کیا گیا کہ وہ مقابلہ کے میدان میں اترے کیونکہ اگر پوری پی ٹی آئی کو مائنس کیا گیا تو انتخابات پر ہر طرف سے انگلیاں اٹھیں گی اور کوئی اس کی شفافیت تسلیم نہیں کرے گا جہاں تک لیول پلینگ کا تعلق ہے تو وہ کبھی پاکستان کی تاریخ میں دیکھنے میں نہیں آئی۔1990کے عام انتخابات میں جنرل اسلم بیگ اور غلام اسحاق خان نے زبردستی آئی جی آئی کی کامیابی کا اعلان کیا۔اسی طرح کے جھرلو 1997 میں بھی ہوئے جب ن لیگ کو تین تہائی اکثریت سے نوازا گیا۔ 2002 میں پرویز مشرف نے محض انتخابات ڈھونگ رچایا اور نوساختہ جماعت ق لیگ کی کامیابی کا جعلی اعلان کیا اس کے باوجود وہ حکومت سازی کے قابل نہ تھی۔اگر پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹ نہ توڑی جاتی تو ق لیگ حکومت نہیں بنا سکتی تھی۔2013 کے انتخابات میں اوپر والوں کی نظر التفات ایک بار پھر ن لیگ کوحاصل ہوئی لیکن صرف ایک سال بعد انہوں نے عمران خان کو میدان میں اتار دیا۔126 دن کا دھرنا بھی ہوا۔راحیل شریف نے ثالثی کا ڈھونگ بھی رچایا لیکن اے پی ایس کے سانحہ نے سارے پلان کو چوپٹ کر دیا۔دھرنے کی ناکامی کے باوجود چونکہ عمران خان کو لانا تھا اس لئے ان کے ہاتھ پانامہ کا اسکینڈل لگ گیا۔اس میں چار سو چالیس پاکستانی لوگوں کے نام تھے اور سراج الحق یہ پٹیشن لے کر سپریم کورٹ گئے تھے لیکن ٹارگٹ صرف ایک شخص کو کیا گیا بہانہ یہ تھا کہ وہ عوامی عہدہ رکھتا ہے۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے سراج الحق سے ایک درخواست پر انگوٹھا لگوایا کہ آپ صرف ایک ہی شخص کو ٹارگٹ بنائیں چنانچہ پانامہ کا کیس چلا کوئی ثبوت نہیں ملا تو احتساب جج نے اقامہ کے مسئلہ پر میاں صاحب کو قید،جرمانہ اور نااہلی کی سزا سنائی۔یہ تو خیر اتنی بڑی زیادتی تھی لیکن بجائے اس کے کہ میاں صاحب ڈٹ جاتے مقابلہ کرتے اور قسم کھاتے کہ آئندہ سمجھوتہ نہیں کروں گا اور کسی کے لئے استعمال نہیں ہوں گا لیکن زمینی حقائق، اپنا خاندانی اور پارٹی مفاد کو دیکھ کر فیصلے کئے۔ان کا حالیہ فیصلہ کہ وہ واپس آ کر مقتدرہ کی تابعداری کریں گے اور سابقہ تجربات سے سبق حاصل کر کے چلیں گے اگر وہ وعدوں پر ٹھہرے رہے تو عام انتخابات میں ن لیگ کو اولیت دی جائے گی اور عین ممکن ہے کہ میاں صاحب چوتھی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہو جائیں لیکن وہ لندن میں کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں کسی وزیراعظم کو کوئی اختیار نہیں ہوتا تمام معاملات وہ لوگ خود چلاتے ہیں اور انہوں نے آئین پارلیمنٹ اور جمہوریت کو مذاق بنا کر رکھ دیا ہے۔اگر یہ سب کچھ مذاق ہے تو میاں صاحب ایک بار پھر اس مذاق کا حصہ بننے کے لئے تیار ہیں کیونکہ وہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بڑوں سے لڑ کر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا بلکہ ان کے ساتھ چل کر اچھی پارٹنرشپ کے تحت ہی اپنے مفادات کو تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ازراہ اصول میاں نوازشریف کو وزیراعظم بننے کے بجائے بادشاہ گر بننا چاہیے تھا وہ اپنی صاحبزادی یا چھوٹے بھائی کو موقع دیتے جبکہ خود پیچھے رہ کر عوام کی بھلائی کے منصوبے بناتے یہی زیادہ اچھا ہوتا لیکن پاکستانی سیاست کے دستورنرالے ہیں اور یہاں پر بڑے سیاستدان کو ہر چیز ہر مقام اپنے لئے چاہیے ہوتا ہے حالانکہ سیاسی جماعتوں کی2008 کے بعد سے اب تک جو درگت بنی ہے وہ سیاسی جماعت کے بجائے این جی او کی شکل اختیار کر گئی ہے۔کسی جماعت نے آج تک اپنے دستور پر عمل نہیں کیا بلکہ پارٹی سربراہان سے لے کر بڑے لیڈروں کی اکثریت نے یہ منشور پڑھنے کی زحمت نہیں کی ۔برسوں سے پارٹی منشور لکھنے کے لئے کسی پرویز رشید،رضا ربانی اور خضر کائناتی کی خدمات لی جاتی ہیں جیتنے کے بعد اسے داخل دفتر کیا جاتا ہے۔پاکستان جیسے ملک میں پارٹی منشور کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ طاقت کا سرچشمہ اوپر بیٹھا ہوتا ہے ہر جماعت نے احکامات پر عمل کرنا ہوتا ہے۔اس صورت میں پروگرام اور منشور کی کیا ضرورت ہے چونکہ ایک آئین موجود ہے، پارلیمان بھی ہے اس لئے نام نہاد پارلیمانی نظام چلانے کے لئے خانہ پوری کی خاطر سیاسی جماعتوں کی ضرورت ہوتی ہے چنانچہ تمام سیاسی جماعتیں صرف خانہ پری کے لئے ہیں۔عوام اور ان کے مسائل سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔انہیں معلوم ہے کہ قرعہ اندازی میں کس کے نام قرعہ فال نکلے گا اور کس کس کو کیا کیا حصہ ملے گا ورنہ پرانے زمانے میں ہر روز پارٹی کنونشن ہوتے تھے۔ضلعی اجتماعات ہوتے تھے اور پارٹی لیڈر اپنے ورکرز اور عوام سے مسلسل رابطے میں رہتے تھے۔فی زمانہ ایسا ممکن نہیں کیونکہ کئی مسلح جتھے اور ڈیتھ اسکواڈ سرگرم عمل ہیں۔اگر کسی نے ذرا سی روگردانی کی تو اسے سبق سکھانا بہت آسان ہے۔اے این پی کو دیکھئے اسفند یار اپنے حجرے میں دھماکہ کے بعد سے عملی سیاست سے کنارہ کش ہیں۔پیپلز پارٹی کا یہ عالم ہے کہ 18اکتوبر کی مناسبت سے وہ کسی میدان کے بجائے بلاول ہاﺅس کی گلی میں اجتماع منعقد کرنے پر مجبور ہے اور تو اور جے یو آئی ایف پر بھی کئی حملے ہوچکے ہیں۔ماضی میں صرف پی ٹی آئی اور ن لیگ ایسے حملوں سے محفوظ رہے ہیں لیکن مستقبل کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔اصل پلان کیا ہے یہ صرف ماسٹر مائنڈ کو ہی پتہ ہے۔چنانچہ جب میاں صاحب اپنی انتخابی مہم شروع کریں گے تب پتہ چلے گا کہ ہوا کا رخ کس جانب ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں