مبارک قاضی۔ بلوچی شاعری کی توانا آواز

رزاق نادر
گزشتہ سے پیوستہ
راقم پاکستان ٹیلی ویژن کوئٹہ سینٹر میں نومبر 1979ء اسکرپٹ پروڈیوسر (بلوچی) مقر ر ہوا اور 1983ء تک اسی منصب پر فرائض منصبی سرانجام دیتا رہا اس عرصے میں ایک روز عطا شاد صاحب کے دفتر آرٹس کونسل واقع فتح خان مارکیٹ میں جانے کا اتفاق ہوا ان کے ہاتھ میں ایک کتاب’’ نوکین تام‘‘ نیا ذائقہ تھی وہ اس کے صفحے پلٹ رہے تھے پھر انہوں نے مجھے مبارک قاضی کی شاعری دکھائی اور کہنے لگے کہ یہ اچھے شاعر ہیں اس وقت مبارک کو اتنی شہرت نہیں ملی تھی مگر عطا شاد چونکہ شاعری کے استاد تھے اسلئے وہ شاعری اور پھر خصوصاً بلوچی شاعری کو بہتر سمجھ سکتے تھے اور جان سکتے تھے اس لئے انہوں نے ’’نوکیں تام‘‘ (بلوچی کتاب) میں دیگر تمام شعراء کو چھوڑ کر صرف مبارک کو منتخب کیا اور ان کی شاعر ی کے بارے میں مذکورہ بالا ریمارکس پاس کئے ۔مبارک کی شاعری اور ان کے ادبی قد کاٹھ کے بارے میں یہ رائے گویا بائیبل کا درجہ رکھتی ہے اور بغیر کسی تقریب کے یہ ایوارڈ دنیا کا سب سے بڑا اعزا ز و ایوارڈ ہے جو خوش قسمتی سے صرف مبارک قاضی کو نصیب ہوا کیونکہ یہ ریمارکس کسی معمولی شخص یا شاعر کے نہیں تھے بلوچی زبان و ادب کی سب سے بڑی شخصیت عطاء شاد کے تھے جو بلوچی ادب میں رجحان ساز (Trend Maker) شاعر کے طور پر جانے اور مانے جاتے ہیں ۔اب اس کے بعد لاعلمی کی وجہ سے کوئی شخص یا لکھنے والا اگراس کے برعکس متضا درائے پیش کرتا ہے تو وہ اس کی اپنی اور انفرادی رائے ضرورہوسکتی ہے مگر ادبی پیمانے اور معیار کے حوالے سے وہ کوئی مستند رائے نہیں ہوگی۔ مگر ادب اور شاعری میں اس کی کوئی خاص وقعت بھی نہیں ہوگی۔ اس لئے کہ جہاں تک بلوچی زبان اورشاعری کی بات ہے تو عطا سے بہتر شاعر اور نقادبلوچی زبان میں اب تک نہیں گزرا ہے ۔
قارئین یہ غالباً 1970کی دھائی کی بات ہے جو بلو چی زبان میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں نے دفعتاً از خود یہ رائے قائم کی کہ بلوچی ادب اور شاعری پر جمہود اور ٹھہرائو سا طاری ہوگیا ہے جس کی وجہ سے بلوچی زبان میں اچھی شاعری اوراچھا ادب تخلیق نہیں ہورہا ہے چنانچہ نوجوان میں اس رائے کوبہت سنجیدہ لیا گیا اور غلام فاروق بلوچ نے مذکورہ رائے رد کی اور جواب میں لکھنے والے نوجوان شاعروں کے اشعار کو جمع کیا اوران کو تالیف کر کے ’’نوکیں تام‘‘ یعنی نیا ضائقہ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کیا اور بتانے کی کوشش کی کہ بلوچی شاعری اور ادب میں کوئی جمود اور ٹھہرائو نہیں آیا ہے بلکہ یہ نئے رنگ میں جدت کے ساتھ ررواں ہے اور مبارک قاضی کی شاعری کو حوالہ بنا کر عطا نے بھی اس کی تصدیق کی اور تسلیم کرلیا ہے کہ جمود اور ٹھہرائو والی بات درست نہیں ہے اور ناامیدی ‘مایوسی و تردد کی کوئی بات نہیں کیونکہ بلوچی زبان و ادب میں اچھی شاعری اور اعلیٰ ادب تخلیق ہورہاہے۔میرے علم کے مطابق یہ ٹھہرائو اور جمود والی بات بھی واجہ عطا ہی نے کی تھی اور مبارک قاضی کی شاعری پڑھنے کے بعد انہوں نے اپنی رائے بدل دی اور یہ اعتراف کیا کہ بلوچی زبان و ادب کا مستقبل روشن ہے اور یہی اعتراف مبارک قاضی کی شاعری معراج ہے ان (Comments) کے بعد ان کی شاعری پر رائے زنی میری دانست میں فضول اور فالتو ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اپنی زندگی میں کسی شاعر کو اس قدر شہرت نہیں ملیہے جتنی مبارک کو ملی ہے بلوچی پڑھے والوں نے خوشبو کی طرح مبارک قاضی کی پذیرائی کی جوان کی خوبصورت اور توانا شاعری کی زندہ مثال ہے اور میں تو کہتا ہوں کہ یہ ایک معجزہ بھی ہے کہ بلوچ جیسے پسماندہ قوم نے اپنی غلامانہ سائیکی کے برعکس مثبت عمل کا اظہار کیا بلوچی زبان میں مروجہ قدیم مشہور مقولہ ’ بلوچ بدروچ‘‘ مستقبل میں بد ل دیں لہذا ابن الوقت اور سیاسنے اپنے مان لیں کہ ان کی معین سیاسی سوچ بھونڈی اور بے ہنگم سیاست کے لئے مزید کارآمد اور سود مند نہیںہوگا،پس ہو سکے تووہ اس پر غور کریں اور نام نہاد کامریڈ جو ساری عمر نرسری سے نیشنلزم کا نعرہ لگواتے رہے ۔روس کے شکست کے بعد اب اپنی نجی محفلوں میں ببانگ دھل فرماتے ہیں کہ نیشنلزم تو سرے سے کوئی ازم ہی نہیں ہے لہذا یہ یوٹرن والے اپنی قلا بازیوں پر نظر ثانی کریں اور درست لائحہ عمل اختیار کریں تو بہتر ہے تا کہ غریب عوام جو پس رہی ہے ان کی فلاح وبہبود ہو اور وہ بھی خوشحالی کی جانب گامزن ہو ں۔مبارک قاضی کے قد کاٹھ اور فنی بلندی کے بارے میں میں عطا سے متفق ہوں مبارک بلوچی ادب کا صاحب طرز اور نمایاں شاعر ہے اور بلوچ قوم بھی اس رائے سے متفق ہے اس لئے کہ اس نے سماج کی بھر پھور عکاسی کی ہے اور بلوچی زبان کو محاورے کے ساتھ استعمال کر کے اس کو اوج ثریا تک پہنچایا ہے اور شاعری کا حق ادا کیا ہے اس کی شاعری پڑھ کر آدمی جان سکتا ہے کہ اس کو زبان پر کس قدر دسترس حاصل تھی اور وہ الفاظ انتخاب کرے اور ان کو پھر و نے کے ہنر سے بہت واقف تھا اور اسی نے مبارک کو باقیوں سے ممتاز اور مشہور کردیا نمونے ثبوت کے طورپر آئیے ان کے چند اشعار اور ان کا اردو ترجمہ آپ کی نظر کرتے اور ان کی فنی بلندی آپ کو دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بلوچی زبان میں کیسے ہیرے اورگوہرنایاب موجودہیں جو بے قدری اور بے امتنائی کاشکار ہیں جو قابل افسوس بات ہے
اسی مناسبت سے مبارک قاضی کی خوبصورت غزل کے دو طنزیہمصرعے اور ان کا اردو ترجمعہ آپ کی نظر ہے جس سے آپ کو آگاہی ہوگی کہ معاشرے کے برائیوں پر ان کی کتنی گہری نظر ہے وہ کس بلا کا مشاہدہ رکھتے ہیںاور یہ اشعار مبارک کی خوبصورت شاعری کی عکاسی کرتے ہیں جن کو پڑھ کر آپ لطف اندوز ہونگے۔بلوچی شعر ہے کہ
سار بان تئی زند پہ آرام ء َگوزیت مئے کوچگ ئَ
اُشتر ء ِگزران کہ وھدے بہ بیت جئورئَ سرئَ
اردو ترجمعہ۔ساربان ہمارے دشت و بیابان میں تیری زندگی بڑے سکون کے ساتھ گزرے گی کیونکہ ہمارے اونٹوں کا گزارہ ہی زہریلی بوٹیوں پر ہے ساربان یہاں علامت کے طور پر استعمال ہوا ہے اور یہ ہمارے رہنمائوں اور رہبروں پر بھر پور طنز ہے جو نالائق تو ہیں ہی مفت خور اور بد عنوان بھی ہیں اس لئے ایسی جگہ میں ان کی زندگی بہت آرام اور سکون سے گزرے گی جہاں کوئی چیک اینڈ بیلنس نہ ہو۔جہاں ہر سو بے خبر اور خوابیدہ لوگ ہوں ایسی جگہ ان کے لئے گویاجنت الفردوس سے کم نہیں ۔
ھنچیں باریگے کہ جندء ساھگ ئَ نیست اِنت وفا
قاضی چے ستک ء َ بھروسہ مرچی ایں دورئِ سرئَ
اردو ترجمعہ۔قاضی ایسا زمانہ آیا ہے کہ اپنا سایہ بھی ساتھ چلنے سے اور وفاداری سے گریزاں ہے اور سراسر بیوفائی پر اتر آیا ہے کیونکہ انجانی اندیشوں نے اسے آگھیرا ہے احساس عدم تحفظ اس پر بری طرح حاوی ہے اورزمانے کا تقاضا بھی یہی ہے کہ وہ ہم سفری سے گریزاں ہی رہے اور اس سے انحراف خود کشی کے مترادف ہے اس لئے شاعر کا سایہ بھی ساتھ چلنے سے گریزاں اور محتاط ہے کیونکہ وہ کسی آزمائش کی نذر نہیں ہونا چاہتاہے اس لئے کہ ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے اور قیامت کا سماں ہے ۔اچھی اقدار مٹ چکی ہیں نئی مروجہ اقدار پر کون بھروسہ کرسکتا ہے جو جھوٹ،خواہشات اور مادیت پرستی پر مبنی ہیں ۔دو ر دو ر تک خلوص اور وفاکا شائبہ تک نہیں اور ایثار و محبت نہیں جو زندگی کی علامت ہے ۔
اب مبارک قاضی کی یہ خوبصورت مختصر بلوچی نظم منظوم ترجمے کے ساتھ آپ کی نظر ہے جس کے حوالے سے ہم بتانا چاہتے ہیں کہ قاضی مکمل اورجامع شاعرتھا اور اس نے سماج کے سارے رنگ اپنی شاعری میں سموئے ہیں اور دکھائے ہیں اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کس رنگ کو پسند کرتا ہے اور اس میں اس کو کس قدر حسن جمال فکر کی گہرائی اور گیرائی تخیل کی بلندی اورتنوع نظرآتا ہے لہٰذا قاری مبارک کو بحیثیت شاعردیکھے ور غورکرے کہ ہماری بات میں کہیں قدر صداقت موجود ہے
تراکہ دیستگ
تراکہ دیستگ
منی اے ویرانیںِ زندگی ئِ
بہار نا آشنائیں چماں
من ہنچو گل بیتگاں……ھنچوش
کہ یک گاریں کپوتے واتر بکنت کدوہ ئَ
یا کہ چوش کیا بروت پہ درد انگیں صدو ئَ
منامہ رنجیں
منامہ آزار
اے زندگی تئی خماریں چمانی و اب ئِ نام انت
شراب ء ِنام انت عذاب ئِ نام اِنت
اشعارکامنظوم ترجمعہ
تجھے جو دیکھاتجھے جو چاہا
توزندگی کا سراغ پایا
چراغ پایا
دل ودمیدہ دماغ پایا
تو یوں لگا کہ
جہاں کی ساری متاح ملی ہے
جہاں کی ساری متاع ملی ہے
بہارناآشنایہ آنکھیں
چمک اٹھیں تب
کہ جسے کوئی ضعیف طائر
بھٹک بھٹک کر
پھر آشیاں میں پہنچ گیا ہے
کہ جسے جیسے کیا
گلاب سی منتظر صدو سے
فراق کے بعدجا ملا ہے
مجھے دکھوں سے دو چار مت کر
الم سے بھی آشنا نہ ہوں میں
آے جان جاناں
یہ زیست تیری خمار آلود انکھڑیوں کا ہونام جیسے
شراب شیریں کاجام جیسے
نئی رتوں کاپیام جیسے
کہ محبتوں کا خرام جیسے
فراق جیسے
وصال جیسے

اپنا تبصرہ بھیجیں