سچ کی موت

تحریر: یونس بلوچ
ہر وہ معاشرہ اس وقت تک پ±رامن رہ سکتا ہے جب تک وہاں سچائی پائی جاتی ہو اور معاشرے اس وقت زوال کی طرف قدم بڑھانے لگتا ہے جب وہاں سچائی معدوم ہو یا سچ بولنے والوں کو مجرم سمجھا جاتا ہو۔
یوں بھی ہم جس معاشرے میں رہ رہے ہیں یہاں سچائی معدوم ہوکر رہ گئی ہے۔ سچ بولنے والے مجرم مانے جاتے ہیں اور یہاں سچ کو مسخ کرکے پیش کیا جاتا ہے۔
معاشرے کے معتبرین و ذمہ داران (چاہے انتظامیہ ہو یا عوام) سب کے سب اس فعل میں برابر کے شریک ہیں۔ اصل میں یہ معاشرے کیلئے مہلک ہے اور معاشرے کو مزید تباہ کرکے امن سے دور لے جارہا ہے۔
دراصل، اصل موضوع ضلع خضدار کے کاروباری شہر نال میں حالیہ سانحہ و اس پر خاموشی ہے۔ یاد رہے اس سے قبل بھی نال کے حالات کافی حد تک خراب ہوئے تھے جس سے ہر ایک عام کاروباری، سیاسی، سماجی و قومی شخص کو خوف تھا کہیں وہ جھوٹ کے ہاتھوں روندھ نہ دیا جائے۔ اسی دوران کئی لوگوں کو مختلف قسم کے واقعات کا سامنا کرنا پڑا۔
اس کے بعد درمیان میں کچھ ہی عرصے کیلئے حالات سنبھلنے کو تھے کہ پھر سے جھوٹ نے پر کھول کر اڑان بھرنا شروع کردی اور سچ کو اپنے مضبوط پنجوں میں دبوچ لیا۔ کچھ عرصہ قبل سر بازار دن دہاڑے شریف شہزاد نامی صحافی کو قتل کیا گیا۔ جہاں تک میرے علم میں ہے مقتول نے ایسا کوئی جرم نہیں کیا تھا جس کی سزا اسے یوں دی گئی، ہاں اگر مقتول واقعی میں مجرم تھا جس نے ایسا کوئی جرم کیا تھا تو اس پر جرم دلائل و ثبوت کے ساتھ ثابت کرکے اس کو سزا دی جاتی۔ البتہ ا±س کا ایک گناہ یہی تھا کہ ایک جھوٹے معاشرے میں وہ سچ کو سچ کہہ کر سامنے لانے کے جتن میں تھا تا کہ معاشرے کے ہر ایک پہلو کو واضح کیا جائے مگر جھوٹے معاشرے میں یہ ایک سنگین جرم ہے سو اس کو جرم کی سزا دی گئی۔ واقعے کے تاثرات سے یہی اخذ کیا جاتا ہے کہ علاقے کے عام عوام، سردار و معتبرین کیلئے یہ ایک معمولی واقعہ ہے، یہی وجہ ہے کہ کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔
اب اس پر خاموشی کئی سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ بے شعور عوام و جھوٹ پرست معتبرین کیوں اس واقعے پر خاموش ہیں؟ کیا وہ اپنے علاقے کی اس حالت پر خوش ہیں؟ کیا وہ خود جھوٹ پرست ہوکر اسکے چنگل میں پھنسنا چاہتے ہیں؟
اگر نہیں تو یہ خاموشی کیوں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں