ن لیگی رہنماﺅں کی امیدیں

تحریر: انور ساجدی
اکثر ن لیگی رہنما یہ امید لگائے بیٹھے ہیں کہ سائفر کیس میں جو ریاست کے خلاف غداری کے زمرے میں آتا ہے ان کے بدترین دشمن کو تختہ دار کی سزا لگ جائے گی۔ سادہ لوح ن لیگیوں کو معلوم نہیں کہ یہ 1979 نہیں اور نہ ہی جنرل ضیاءالحق سیاہ و سفید کے مالک ہیں۔ موصوف نے ایک جعلی قتل کیس میں اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دی تھی۔ عمران خان اور بھٹو میں بہت فرق ہے۔ بھٹو کا ڈومیسائل کمزور تھا جبکہ عمران خان کا بہت مضبوط ہے۔ یہ 2023 ہے اور اس میں ممکن نہیں کہ ایک منتخب سابق وزیراعظم کو پھانسی کی سزا دی جائے۔ بھٹو کی سزائے موت کو ریاست ابھی تک بھگت رہی ہے اور اس کے اثرات طویل عرصہ تک جاری رہنے کا امکان ہے۔ کئی سال قبل صدر آصف علی زرداری نے بھٹو کے عدالتی قتل کے خلاف ایک صدارتی ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا تھا جسے موجودہ دور میں سماعت کے لئے منظور کیا گیا ہے، جب یہ ریفرنس پر سماعت شروع ہوگی تو زرداری کے سابق بہادر بچہ ریٹائرڈ ایس پی انوارالحق نے جو پینڈورا بکس کھولا ہے اور وہ یک طرفہ طور پر متعدد مقدمات میں از خود سلطانی گواہ بن گئے ہیں وہ زرداری کو اپنی گرفت میں لے لیں گے۔ انوار الحق نصیب اللہ کیس سے بری ہو کر بے شمار قتل اور 1992 کے فوجی آپریشن میں اہم کردار ادا کرنے کے باوجود دندناتے پھر رہے ہیں۔ انہوں نے کسی ایک وقعہ کی ذمہ داری بھی قبول نہیں کی۔ موصوف کے الزامات کو لے کر زرداری مخالف قوتیں خوب فائدہ اٹھائیں گی۔ ایم کیو ایم ، جی ڈی اے اور ن لیگ انتخابی مہم کے دوران رج رج کر ان الزامات کا فائدہ اٹھا کر زرداری کی درگت بنائیں گے۔ اس کا کوئی نتیجہ برآمد ہو نہ ہو انتخابی مہم کو چار چاند لگ جائیں گے۔ وہ مرتضیٰ اوررحمن بلوچ کے قتل سے لے کر 18اکتوبر کو بی بی کی ریلی پر حملہ اور 27اکتوبر 2007 کو کمپنی باغ راولپندی میں بی بی کی شہادت کے سارے واقعات کے مجرم زرداری کو گردان رہے ہیں ۔ لگتا ہے کہ زرداری نے کافی عرصہ سے اپنے اس بہادر بچہ کا ہاتھ جھٹک دیا ہے اور تو اور انوار صاحب بحریہ ٹاﺅن کی قبضہ گیری میں بھی اپنے کردار کو چھپا رہے ہیں اور اس کی ذمہ داری بھی زرداری پر ڈال رہے ہیں۔ حالانکہ مالی اعتبار سے انوار کی پانچوں گھی اورسر کڑاہی میں ہے ۔ وہ واحد ایس ایس پی ہیں جس کی بے شمار جائیدادیں دبئی میں ہیں۔ دیکھیں انوار کے الزامات کی بنیاد پر زرداری پر کوئی کیس بنتا ہے کہ نہیں ۔ البتہ یہ بات واضح ہے کہ پیش کردہ الزامات بلیک میلنگ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان الزامات سے صرف انوار فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں یا وہ کسی کے اشارے پر یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم تائید غیبی حاصل ہونے کے بعد پہلے ہی اعلان کرچکی ہے کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں وہ سندھ میں حکومت بنائے گی اور عمران کی طرح زرداری کا قصہ بھی ختم ہوجائے گا۔ تحریک انصاف کے خلاف کارروائی ہو یا زرداری کے خلاف سنگین الزامات یہ پری پول دھاندلی کے زمرے میں آتے ہیں۔ حیف ہے ایم کیو ایم کی قیادت پر کہ سیاسی مقاصد کی خاطر راﺅ انوار جیسے شخص کو معاف کرنے کے لئے تیار ہے۔ حالانکہ اس جماعت نے الزام لگایا تھا کہ 1992 کے نواز شریفی آپریشن میں راﺅ انوار نے ایم کیو ایم کے سینکڑوں اراکین کا ماورائے عدالت قتل کیا تھا۔ راﺅ انوار کے الزمات سے یہ عندیہ بھی ملتا ہے کہ انتخابات میں کیا ہونے جارہا ہے اور من پسند جماعتوں کے لئے کیا کیا آسانیاں پیدا کی جارہی ہیں جبکہ مخالفین کو کس طرح دیوار سے لگانے کا منصوبہ بھی ہے۔
پاکستان میں انتخابی دھاندلی کسی کو گرانے اور کسی کو لانے کی سائنس کافی عرصہ سے روبہ کار ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ 1985 سے جو کھیل کھیلا جارہا ہے وہ بدستور جاری ہے اور حکمرانوں نے ماضی کے حالات و واقعات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اتنی سازشوں کے باوجود سیاسی پارٹیاں باری باری استعمال ہورہی ہیں اور بڑے مقام پر جا کر اپنے چہرے پر سیاہی مل کر شدید رو سیاہی کے بعد دوبارہ استعمال کےلئے تیار ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ نہ بڑوں نے اپنا خو بدلا ہے اور نہ ہی سیاستدانوں نے رو سیاہی کی عادت چھوڑی ہے۔ لہٰذا ابھی سے واضح ہے کہ آئندہ سال اگر ہوئے تو جو الیکشن ہونے والے ہیں وہ بدترین مذاق ہوں گے ۔ اس سے تو یہی بہتر تھا کہ زیادہ ڈرامہ کرنے کی بجائے مصر کے آمر عبدالفتح سیسی کی طرح یا روس کے پوٹن اور چین کے صدر شی پنگ کی طرح کسی کو اکیلے کھڑا کیا جاتا اور الیکشن کمیشن اعلان کرتا کہ میاں صاحب کو 94 فیصد رائے دہندگان نے منتخب کیا ہے۔ پاکستانی عوام جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں یہ تماشہ دیکھ چکے ہیں۔ اگر وہ ایک اور تماشہ دیکھیں گے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ حکمران جس کو بھی لائیں وہ 18ویں ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ ختم کرنا چاہتے ہیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ چوتھی بار الیکشن کا لالچ دے کر میاں نواز شریف کو اس بات پر آمادہ نہ کیا جائے کہ پارلیمانی سسٹم دھڑن تختہ کرکے صدارتی نظام کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ توقع یہی ہے کہ میاں صاحب اس حد تک نہیں جائیں گے کیونکہ ایسا ہونے کے بعد ریاست کی سلامتی کی کوئی گارنٹی نہیں دے سکتا۔
بلوچ یکجہتی کمیٹی کے زیر اہتمام بالاچ کے قتل کے خلاف جو کامیاب دھرنا دیا گیا اس نے حکومت کو مجبور کیا کہ پولیس اور سی ٹی ڈی کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے۔ دھرنے کے بعد شالکوٹ تک لانگ مارچ شروع کیا گیا جو بے حد کامیاب رہا۔ اگرچہ یہ لانگ مارچ پہلا نہیں لیکن عملی طور پر یہ پہلا لانگ مارچ ہے جو شہری آزادیوں کی باقاعدہ تحریک کی حیثیت اختیار کرگیا ہے۔ ہمارے حکمران عجیب ہیں اگر کوئی متشدد احتجاج کرتا ہے تو اسے ملک دشمنی سے تعبیر کیا جاتا ہے اگر عدم تشدد کی بنیاد پر پرامن تحریک شروع کی جاتی ہے تو اسے بھی قبول نہیں کیا جاتا ۔ سوال یہ ہے کہ عوام کون سا راستہ اختیار کریں۔ ان رویوں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم روس، ایران، مصر، چین اور ترکی میں رہتے ہیں۔ وزیراعظم کے سامنے نوجوان تو سخت ترین سوالات پوچھ سکتے ہیں لیکن بادی النظر میں مخالفانہ سوچ اور سیاسی مخالفت اور اظہار رائے پر قدغن سخت ترین ہے۔ میڈیا پر بدترین کنٹرول ہے۔ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو گرفتار کرکے تربت جانے سے روک دیا گیا اور پھر بلوچستان بدر کردیا گیا۔ یہ کون سا طریقہ ہے ، یہ کون سی آزادی ہے کہ ایک شہری کے اپنے ملک کے اندر نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی جائے۔بلوچ یکجہتی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے عزت مآب خواتین کو گھروں سے نکال کر قومی تحریک کا حصہ بنایا ہے۔ تربت دھرنے میں خواتین کی شرکت یا اس سے قبل مولانا ہدایت الرحمن کی گوادر میں ہزاروں خواتین کی آمد یا اب لانگ مارچ میں سینکڑوں خواتین کی آمد، بسیمہ گریشہ اور نال جیسے کم آبادی والے علاقوں میں دھرنے کے شرکاءکا ہزاروں خواتین کی طرف سے استقبال ایک بڑی تبدیلی ہے۔ مستقبل میں یہ خواتین تحریک میں ہراول دستہ بن کر شہری آزادیوں کی تحریک کو مزید بلندیوں کی طرف لے جائیں گی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں