بلوچ لانگ مارچ اور منافقانہ طرز صحافت

تحریر: یوسف عجب
بلوچستان اپنی محرمیوں، سیاسی بحران اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے ساتھ ساتھ گزشتہ دو دہائیوں سے انسانی حقوق کے ایک عظیم المیے یا بحران سے دوچار ہے، اور یقینا یہ بحران بلوچ سیاسی، سماجی، صحافتی اور ادبی شخصیات اور اساتذہ کرام کی جبری گمشدگی ہے بلکہ بعد ازاں ان کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا بھی ہے۔ ان ہی مجرمانہ کارروائیوں کیخلاف وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ گزشتہ پانچ ہزار دن سے زاہد بلوچستان میں جاری ہے۔ ان کے مطابق اب تک ہزاروں بلوچ جبری طور پر لاپتا کردیے گئے ہیں اور ان میں مزید اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ حال ہی میں ابھرنے والی احتجاجی تحریک بھی بلوچوں کو جبری طور پر لاپتا کرنے اور بعد میں ان کے ماورائے عدالت قتل کی ایک کڑی ہے، جس میں تربت کے بالاچ بلوچ کا واقعہ ایک نمایاں حوالہ ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کا تربت سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالیوں کیخلاف احتجاج اور تربت سے لیکر اسلام آباد تک بلوچوں کا ریاستی جبر کے خلاف یک زبان ہوکر احتجاج کرنا ایک مو¿ثر آواز بنی ہے۔ یہ تحریک نہ صرف تمام بلوچوں کو متحد کرنے کا سبب بن چکی ہے بلکہ ان پر ہونے والے جبر اور نا انصافیوں کے خلاف آواز بلند کرنے کا سبب بھی بن رہی ہے۔ اس تحریک کو موثر رکھنے کے لیے جدید میڈیا کے کردار سے انکار ممکن نہیں گوکہ ہر علاقے میں بلوچ یکجہتی کمیٹی کے ارکان کو آگے جانے اور اپنے احتجاج کو جاری رکھنے کے لیے بے شمار مشکلات کا سامنا رہا مگر ماسوائے چند بلوچ صحافتی اداروں کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کا کردار جانبدارانہ رہا اور خاص طور پر مین اسٹریم میڈیا میں وہ جگہ نہ پاسکا جس کا وہ حقدار تھا اور پھر اس کے بعد اسلام آباد میں اس لانگ مارچ کے ارکان اور ان کا ساتھ دینے کے لیے آئے ہوئے دیگر بلوچ نوجوانوں کو جس طرح تشدد کا شکار بناکر ان کو گرفتار کیا گیا یہ سب ناقابل فراموش ہیں۔ ان تمام واقعات کے بعد بھی سوائے چند صحافیوں کے اسلام آباد اور مرکز میں موجود صحافتی اداروں نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا۔ اسلام آباد کے ساتھ ساتھ صحافتی اداروں اور صحافیوں کی غیر سنجیدگی اور بلوچ کے ساتھ منافقانہ رویہ آج کی بات نہیں۔ گزشتہ دنوں اسلام آباد میں لانگ مارچ کو لیڈ کرنے والی ماہ رنگ بلوچ کے ساتھ غریدہ فاروقی اور ایک اورخاتون صحافی نے جو انداز اپنایا یہ نہ صرف صحافتی اخلاقیات کی پامالی ہے اور نہ ہی کسی کا انٹرویو کرنے کا صحافتی انداز ہے۔ ان کے اس طرح کی جانچ سے انٹرویو کم اور کسی ملزم سے تفتیش کا انداز زیادہ جھلک رہا تھا۔ ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک مخصوص ذہنیت کی ڈکٹیشن کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ اسی طرز فکر کو محسوس کرتے ہوئے قریباً دس سال پہلے راقم نے غریدہ فاروقی کو جس سوچ کے ساتھ پایا تھا اور محسوس کیا تھا کہ مین اسٹریم میڈیا کو بلوچستان کے حوالے سے اپنے سوچنے کا انداز بدل دینا چاہیے مگر نہ صرف غریدہ بلکہ مین اسٹریم میڈیا کے تمام صحافی اور ان کے ادارے بلوچستان کے حوالے سے مزید تنگ نظری کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔ ان کو بلوچستان کے وسائل تو نظر آتے ہیں مگر مظالم، غربت، مفلسی اور ناانصافیوں کے شکار بلوچ نظر نہیں آتے۔ دس سال پہلے ماما قدیر بلوچ کی رہنمائی میں گمشدہ بلوچوں کی بازیابی کے لیے نکلنے والے پیدل لانگ مارچ کو اسی طرح ہی نظر انداز کیا گیا۔ لانگ مارچ بچوں، مرد و خواتین اور کمزور افراد کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں رہا مگر صحافیوں کے طنزیہ اور بلوچ مخالف سوالات ان کے بلوچ بارے ذہنیت کوظاہر کرتا رہا۔ اس دوران فرزانہ مجید اور اب ماہ رنگ بلوچ سے پوچھے گئے سوالات ایک ہی طرز کے ہیں، جس سے یہ بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلوچ کے متعلق میڈیا کے منافقانہ رویے میں آج بھی کوئی کمی نہیں ہوئی اور آج بھی صحافت جیسے مقدس پیشے کو منافقانہ طرز پر چلنے کی کوشش جارہی ہے اور جس کسی نے بھی غیر جانبدارانہ صحافتی پیشہ اپنانے کی کوشش کی اسے جبری گمشدگی یا موت کا سامنا کرنا پڑا جس کی واضح مثالیں پاکستان میں درجنوں صحافیوں کا قتل اور چالیس سے زیادہ بلوچ صحافیوں کے ماورائے عدالت قتل یا ٹارگٹ گلنگ شامل ہے۔ صحافت جیسے پاکیزہ پیشے کو جس طرح بھیانک صورت دی گئی ہے یہ اس خطے کے علاوہ دنیا میں بہت کم ہی نظرآتا ہے۔ ایک قلمکار یا صحافی کو مظلوم کی آواز اور غیر جانبدار بن کر انصاف کی فراہمی کو آسان بنانا ہے نہ کہ اپنے مفاد کے لیے کسی کا آلہ کار بن کر حقیقت کی پردہ پوشی کرنا ہے جوکہ بدترین انسانی حقوق کی پامالی کا سبب بنتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان مظلوم بلوچ خواتین، معصوم بلوچوں اور سفید ریش افراد کی داد رسی کی جاتی، ان کو سنا جاتا مگر یہ نہ ہوسکا اور یہ بلوچوں کے حق میں ہی بہتر رہا کہ ان کو اسلام آباد سے مزید توقع رکھنے کا موقع نہ مل سکا مگر ساتھ ساتھ جانبدارانہ اور منافقت سے مزین صحافت ایک دفعہ پھر دنیا کے سامنے ظاہر ہوگئی۔

اپنا تبصرہ بھیجیں