سرداروں کی دہلیزوں پر سیاست کی موج

تحریر : حاصل بلوچ
سیاست اس وقت سرداروں کی دہلیزوں پر موج کررہی ہے اور جتنے انسانی حقوق ہیں وہ بھی انہی کی دہلیز میں پائے جاتے ہیں، عام عوام کی دہلیز میں نہ سوچ ہے نہ سمجھ ہے نہ حقوق ہیں نہ اقدار ہیں نہ خوشحالی ہے عوام کی زندگی تکلیفوں میں جی رہی ہے۔
بلوچستان کے سارے سردار بشمول سردار اختر مینگل اور باقی تمام سردار بلوچ قوم کے حقوق کے مجرم ہیں، بلوچ قوم کی پسماندگی اور محرومی کے ذمہ دار ہیں، بلوچ قوم جس کرب اور مصیبتوں کو جھیل رہی ہے اس پر کسی کی نظر نہیں جاتی، ایک عام بلوچ ہر وقت جس کرب اور پریشانی میں مبتلا ہے اگر یہ لوگ ایک دن بھی یہاں اس کرب میں مبتلا ہوگئے تو مرجائیں گے۔ اتنے سخت حالات میں بلوچ قوم جی رہی ہے پھر بھی عوام کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنا فیصلہ خود کریں، عوام کو سیاست اور حقوق سے دور رکھ کر سرداروں نے اسے محض اپنی دہلیز اور دروازے تک برقرار رکھا ہے۔
عوام کی یہاں کوئی قدر نہیں، گویا ہر آدمی یہاں غلامی کی زنجیروں میں پوری طرح جکڑا ہوا ہے، سردار کی سیاست کبھی عوام کی طرف منتقل نہیں ہوتا، پیڑی در پیڑی اپنی دہلیز تک موجود رہتا ہے باپ کا جانشین بیٹا ہوتا ہے بیٹے کی جانشین ہوتا ہے، یہی سلسلہ ہے جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔
ایک سیاست کے میدان میں نہیں زمین کی تقسیم عوام کے پاس نہیں پورا زمین انہی سرداروں اور جاگیرداروں کے قبضے میں ہے، عوام بطور نوکر زمینوں پر محنت مشقت کرتے آرہے ہیں۔
ایک طرف سردار کی جاگیر ہزاروں ایکڑ پر محیط ہے، دوسری طرف عوام کے پاس زمین کا ایک ٹکڑا نہیں جس میں رہ کر وہ اپنا سر چھپا سکے۔ عوام کی بنیادی محروموں کی وجہ یہی ہے کہ عوام کے پاس اپنی زمین نہیں، جس ٹکڑے پر رہ رہا ہے، وہ بھی سرکاری دفتر میں اس کا اپنا نہیں بلکہ اس کا مالک وہاں کا ایک سردار ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا محرومی ہوسکتی ہے۔ سیاست پر قبضہ، قابیلت پر قبضہ، زمینوں پر قبضہ اس کیخلاف اگر قوم اٹھتی ہے تو پھر بڑے بڑے عوام کے خیر خواہ عوام سے بھاگ کر جاگیریں بچانے میں لگ جائیں گے اور سیاست اور جاگیریں بچانے کیلئے عوام کا استحصال کرنا شروع کریں گے، یہ جب تک خیر خواہ اور ہمدرد ہیں جب تک کہ سیاست اور جاگیر ان کی دہلیز پر ہے، انہیں نہ عوام کے حقوق سے دلچسپی ہے، نہ عوام کی خوشحالی سے دلچسپی ہے یہ اپنے آرام اور سہولتوں کے دل دادہ ہیں۔ ان کی نظروں میں ہر آدمی ایک غلام کی حیثیت رکھتا ہے، جسے نہ بات کرنے کا حق ہے نہ بیان کرنے کا، گویا عوام کو ایک لفظ کی بھی اجازت نہیں کہ سردار اور نواب کے سامنے فخر سے بیان کرسکے جو اسے قائل کرسکے۔
جہاں بولنے کا اور بات کرنے کا حق بھی چھین لیا جائے وہاں عوام کیلئے سیاست کے دروازے بند ہوجاتے ہیں۔ سرداروں کی محفل میں ایسے لوگوں کو بولنے دیا جاتا ہے جن کے اندر دانش مندی، سمجھ داری سرے سے موجود نہیں، جو صرف وہاں محفل اور سردار کو ہنسانے کیلئے اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہیں تاکہ محفل میں کچھ ہنسی مذاق ہوجائے۔ قوم کے متعلق، حقوق کے متعلق، آزادی کے متعلق، فیصلوں میں بہتری کے متعلق، فیصلوں میں جان ڈالنے کے متعلق، فیصلوں کو مضبوط کرنے کے متعلق بات کرنا اس کی تو کسی کو اجازت نہیں، سردار کی محفل میں وہ بات کرسکتا ہے جو اس کا چمچہ خاص ہو، یہ اس لیے ہے کیوں کہ عام عوام کیلئے بات کرنے، سمجھنے، سمجھانے کے دروازے بند ہیں۔ آدمی سیاست اپنی بات سمجھانے اور سمجھنے کی بنیاد پر کرتا ہے جب بات کرنے نہ دی جائے، ہر کونے میں ایک سناٹا اور ادب کی ایک چپ چھائی ہوئی ہو وہاں ذہنی نشوونما رک جاتی ہے اور سیاسی بیداری ختم ہوجاتی ہے، وہاں جی حضوری کا دور چلنے لگتا ہے۔ اس ماحول کو بلوچستان میں ایک صدی نہیں بلکہ صدیاں گزر گئیں، اب چاہیے کہ سیاست، حقوق اور زمین عام عوام کی طرف منتقل کرکے اس ذمہ داری کو اپنی دہلیز سے رخصت کرکے عوام کی چوکھٹ تک پہنچا کر عوام کو ذمہ دار بنایا جائے تاکہ عوام اور سردار مل کر عوام کے جان و مال کی حفاظت اور خدمت کریں، خود خوش رہیں اور عوام کو خوشحال رہنے دیں۔ یہ بلوچستان ایک طبقے کا نہیں بلکہ ہر فرد کا ہے، ایک ایک فرد کا ہے، یہاں جتنے حقوق اور احترام ایک سردار کو ملتا ہے وہی حقوق اور احترام ہر فرد کا ہے، جو یہاں کا باسی اور یہاں کا رہنے والا ہے، لہٰذا سب کے حقوق کا احترام اور لحاظ ہم سب پر لازم ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں