بلوچ یکجہتی کمیٹی کا لانگ مارچ

تحریر: نصیر عبداللہ
ریاست جان بوجھ کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کے لانگ مارچ کو طول دیکر دنیا کو بتانا چاہتی ہے کہ بلوچ آزادی نہیں بلکہ مملکتِ خداد سے انصاف چاہتے ہیں۔ اقوام متحدہ میں پسِ پردہ بلوچ جلا وطن رہنمائvوں نے راہیں ہموار کیں تو ریاست نے یہ چال چل دی۔ ریاستی اداروں نے بالاچ بلوچ کو قتل کرکے بلوچ اقوام کے جذبے کو ابھارا۔ بلوچ کو اس قدر مجبور کیا کہ وہ تربت تا کوئٹہ سب سے پر ہجوم لانگ مارچ کیا۔ کوئٹہ پہنچتے ہی انہیں ایسی اذیتیں دیں کہ لانگ مارچ نے اپنا رخ اسلام آباد کی طرف کرلیا، وہاں انہیں طرح طرح کی اذیتیں دیں۔ ٹھٹرتی سردی میں واٹر کینن کی شیلنگ کی، بلوچ خواتین، بچے اور طلبا پر تشدد کیا انہیں اسلام آباد سے زپردستی بسوں میں بٹھا کر کوئٹہ بھیجنا چاہا، جس پر بلوچوں نے شدید ردِعمل احتجاجوں کی صورت میں دیا۔ اس سے قبل بھی بلوچ مسنگ پرسنز کے لواحقین اسلام آباد میں لانگ مارچ کی صورت میں آچکے ہیں۔ لیکن اس بار ان کا خوش آمدید لاٹھی اور ڈنڈوں سے کیا۔ 226 کے قریب طلبا کو گرفتار کرلیا گیا جن میں خواتین، بچے و طلبا شامل تھے۔ بالاچ مولابخش کے ماورائے عدالت قتل سے دو اہم باتیں واضح ہوکر سامنے آئی ہیں۔ ایک یہ کہ ریاست نے بلوچ قوم کو یہ پیغام دیا کہ وہ و ملکی آئین و قانون سے بالاتر ،ہیں جِن عدالتوں سے تم انصاف کی فریاد کرتے ہو ہم اس عدالت کو ہی نہیں مانتے۔ دوسری بات یہ کھل کر سامنے آگئی ہے کہ اس لانگ مارچ سے ریاست کے مفادات وابستہ ہیں، یہ بات الگ ہے کہ دوسری جانب ریاست نے یہ تاثر ظاہر کیا ہے کہ وہ اس لاگ مارچ سے سخت نالاں ہے۔ سردی میں کمبل چھین لینا، اسپیکر اٹھا کر ساتھ لیجانے جیسی اوٹ پٹانگ حرکتیں ریاست کی غیرسنجیدگی کو ظاہر کرتی ہیں۔
ان حرکتوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ریاست بلوچ قوم کے جذبات سے کھیل کر اس مارچ کو طویل دینے کے حق میں ہے، اسے حل کرنے کے حق میں قطعی نہیں ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کے احتجاج کے دوران سیکڑوں نوجوان اٹھائے گئے ہیں کئی دیگر افراد پر جنہوں نے احتجاج میں حصہ لیا ہے ان پر جعلی ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ 15 اگست 2020ءکو جب تربت میں ایف سی ہلکار کے ہاتھوں حیات بلوچ کا قتل ہوا تو اس پر بلوچوں نے احتجاج کی صورت میں شدید ردِعمل دیا۔ مجبوراً ریاست نے ایف سی اہلکار کے خلاف ایف آئی درج کروادی اور انہیں گرفتار کرواکر عمر قید کی سزا سنادی گئی۔ بالاچ مولابخش کے کیس میں سی ٹی ڈی انہیں عدالت میں پیش کرکے 10 دن کا جسمانی ریمانڈ لے لیتی ہے۔ اس کے بعد اسے قتل کردیا جاتا ہے۔ احتجاج کی ایک نہ ختم ہونے والی لہر اٹھتی ہے ا سکے باوجود بھی ریاست مسئلے کے حل کی خواں نہیں ہوتی، سی ٹی ڈی اہلکاروں کیخلاف کاروائی تو دور کی بات ہے۔ البتہ سی ٹی ڈی اہلکار بھی اکثر بلوچ ہیں وہ باآسانی یہ کیس دو تین بلوچ افسران کے ہتھے چڑھا کر انہیں پھانسی کی سزادلواکر معاملہ ختم کرواسکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ پوری دنیا کو یہ بتانا چاہتے تھے کہ بلوچ قوم ریاست کے ساتھ ہے اور وہ تخریب کاری کی مذمت کرتے ہیں، اس مقصد کے لیے انہوں نے میڈیا کے کچھ ٹاﺅٹ تیار کردیے جو بلوچ لواحقین کے کیمپ میں جاکر ا±ن سے بلوچ مسلح تنظیموں کی مذمت کرواتے رہے۔ بجائے اس کے کہ وہ لاپتہ افراد کے مسئلے پر نظرثانی کرتے وہ بارہا بلوچ لواحقین سے بلوچ مسلح تنظیموں کی مذمت کرواتے رہے۔ ہمارے نگران وزیراعظم جناب انوارالحق کاکڑ صاحب تو یہاں تک کہتے ہیں کہ جو لوگ لاپتہ افراد کے لواحقین کی حمایت بھی کرتے ہیں وہ تخریب کار ہیں یا ان کے ساتھی ہیں۔ کیا ریاست دنیا میں بلوچ کو تخریب کار ثابت کرنا چاہتی ہے؟ یا یہ ڈرامہ رچا کر دنیا کو یہ بتانا چاہتی ہے کہ بلوچوں پر ظلم ریاست نہیں بلکہ بلوچ کررہے ہیں؟ اِس مقصد کے لیے انہوں نے حال میں جمال رئیسانی کی سربراہی میں لاپتہ افراد کے لواحقین کے سامنے ایک کیمپ لگوا دیا ہے جو بلوچ مسلح تنظیموں کیخلاف نعرے بلند کررہے ہیں۔ ریاست چاہتی ہے کہ ظلم بھی ہو اور امن بھی رہے۔ بلوچ خواتین نے دنیا میں ایک نئی تاریخ رقم کردی ہے اور بتایا ہے کہ بلوچ قوم اپنے حقوق کے لیے آخری دم تک کھڑی رہے گی۔ ما ہرنگ بلوچ، سمی دین بلوچ اور سیما بلوچ نے خواتین میں وہ جان ڈالی جس سے ہر بلوچ بچی، بچیاں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں