ضیائی باقیات، موروثی سیاست اور سردار

تحریر: انور ساجدی
یہ کسی کو معلوم نہیں کہ الیکشن2024 کا اسکرپٹ کیا ہے۔ابتدائی خاکہ میں پی ٹی آئی کو بلے کے انتخابی نشان سے محروم کر کے بتا دیا گیا کہ اس پارٹی کی گنجائش نہیں ہے جس کے نتیجے میں پارٹی کے تمام امیدوار آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑنے پر مجبور ہیں۔بیشتر مبصرین امکان ظاہر کر رہے ہیں کہ ووٹر شدید ردعمل کے طور پر زیادہ تعداد میں باہر نکل کر ووٹ ڈالیں گے اور پارٹی کے آزاد امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہوسکتے ہیں لیکن آزاد امیدواروں کا کیا بھروسہ ان میں سے اکثر نوٹوں کی چمک دیکھ کر گدھوں کی طرح بک سکتے ہیں اور کامیابی کا تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔باالفرض محال اگر امیدوار ٹھہرے رہے تو دوسرے قدم کے طورپر9مئی کے مقدمات میں تحریک انصاف کو بحیثیت پارٹی کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے۔امکانی طور پر پارٹی کے خلاف اور عمران خان کی ذات کے خلاف سب سے بڑا مقدمہ9مئی کے واقعات کا ہے جو ملک دشمنی،غداری اور دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہے اور تو اور غریب شیدا ٹلی کو مرکزی ملزم قرار دیاگیا ہے اور گواہوں کے بیانات کے مطابق 9مئی کے واقعات کی منصوبہ بندی لال حویلی میں کی گئی تھی اور اس کے ماسٹر مائنڈ شیخ رشید احمد تھے۔برا وقت اتنا آیا ہے کہ تحریک انصاف نے بھی شیخ صاحب کو دھتکار دیا اور ان کے مقابلے میں اپنا امیدوار اتار دیا۔چند روز قبل شیخ صاحب ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے کہہ رہے تھے کہ وہ جیل کے چکی نمبر15میں بند ہیں اور زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ان کے زندہ بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ قلم دوات پر ٹھپہ لگا کر ان کو کامیاب کروایا جائے۔اس پیغام کے بعد انکوائری شروع ہوئی کہ سی کلاس قید کے دوران شیخ صاحب نے موبائل کیسے حاصل کیا اور اپنا پیغام ریکارڈ کروایا ضرور جیل کا چھوٹا عملہ اس میں ملوث ہوگا اور اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھا ہوگا۔شیخ رشید ایک غیر سنجیدہ اور مزاحیہ کردار رہے ہیں۔1990 کی اسمبلی میں انہیں میاں صاحب نے یہ ڈیوٹی دی تھی کہ جونہی محترمہ اسمبلی میں داخل ہوں تو آپ نے آوازیں کسنا ہیں۔مغلظات بکنی ہیں وہ یہ ڈیوٹی اچھی طرح سرانجام دے رہے تھے کہ ان کے مدمقابل گجرات کے نوابزادہ غضنفر علی گل آ گئے۔انہوں نے جوابی حملے شروع کر دئیے تاہم شیخ صاحب کا ڈھیٹ پن نہیں گیا۔ایک مرتبہ اسمبلی کے اندر کہہ رہے تھے کہ ہم بے نظیر کو اس وقت سے جانتے ہیں جب یہ”پنکی“ ہوا کرتی تھیں۔نوابزادہ ڈیسک پر چڑھ گئے اور کہنے لگے کہ ہم سب شیخ صاحب کو اس وقت سے جانتے ہیں جب وہ بچپن میں راجہ بازار کی گلیوں میں سخاوت بانٹتے پھرتے تھے۔پیپلزپارٹی کا یہ جیالا مسلسل ناکامیوں اور پیرانہ سالی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو چھوڑ کر مسلم لیگ ن میں شامل ہوگیا اور آج کل گجرات سے ان کے ایم این اے کے امیدوار ہیں۔جب شیخ صاحب بازنہ آئے تو کلاشنکوف کیس میں گرفتار کر کے انہیں بہاول پور جیل بھیج دیا گیا۔
وہ راتوں کو دھاڑیں مار کر روتے تھے اور کہتے تھے کہ وہ شیخ ہیں وہ بندوق تو کیا ڈنڈا بھی نہیں رکھتے۔بعد ازاں عدالت میں بھی انہوں نے یہی قسم اٹھائی تھی۔شیخ صاحب کے ساتھ زیادتی یہ ہوئی کہ پیپلزپارٹی کا تھنڈر اسکواڈ اس وقت کے شدید جیالے رانا ثناءاللہ کی قیادت میں بہاول پورجیل گیا تو رات کو شیخ صاحب کے ساتھ غیر شرعی واردات ڈال دی لیکن بعدازاں جب ان کے اچھے دن آگئے تو رانا ثناءاللہ کی واردات انہیں یاد نہ رہی اور وہ عمران خان کے عروج میں بلاول پر آوازیں کسنے لگے اور انہیں بلو رانی کا خطاب دیا۔نہ انہیں اپنی 75 سال کی عمر کا خیال تھا اور نہ ہی 1985 سے مسلسل قومی اسمبلی کے رکن ہونے کا احساس تھا۔
2014 میں عمران خان کی تحریک کے دوران جلادو آگ لگا دو سب کچھ ختم کردو جیسی دھواں دھار تقریر کرتے تھے۔آخر کار 9مئی2023 کو ان کے کہنے کے مطابق پنجاب اور پشتونخواہ میں خوب گھیراﺅ جلاﺅ ہوا۔فوجی تنصیبات اور عمارتوں پر حملے ہوئے۔میانوالی ائیربیس پر شدید تباہی پھیلائی گئی۔ان واقعات کے بعد بھی شیخ صاحب کہتے تھے کہ میں ”اصلی اور نسلی“ ہوں اور عمران خان کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔تاہم پچھلے سال جب وہ ایک ماہ کے لئے گرفتار ہوئے تو رہائی کی شرط یہ رکھی گئی کہ وہ کسی ٹی وی چینل جا کر وضاحت پیش کریں واقعات کی مذمت کریں اس کے بعد ہی انہیں رہائی مل سکتی ہے۔چنانچہ انہوں نے ہدایات پر عمل کیا۔البتہ یہ کہا کہ وہ چلہ کاٹنے گئے تھے عارضی رہائی تو ملی لیکن دوبارہ اصلی اورنسلی ہونے کا اعلان کر کے اپنے سابقہ بیانات سے منحرف ہوگئے جس پر انہیں9مئی کے سنگین واقعات کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔اگر فوری سماعت کی گئی عدالت نے شیخ صاحب کی عمر قید کی سزا سنائی تو وہ ضرور رحم کی اپیل کریں گے۔تاہم یوں سمجھیں کہ یہ ان کے طویل سیاسی کیرئیر کا ”تمت بالاخیر“ ہے۔وہ جلد پنڈی کی سیاست اور تاریخ کے اوراق سے معدوم ہو جائیں گے۔البتہ ان کی شیخیاں،بڑھکیں اور مسخرہ پن کچھ عرصہ لوگوں کو یاد رہے گا۔
ایک بنیادی حقیقت یہ ہے کہ1985 میں جنرل ضیاءالحق نے جس سیاسی نظام کی بنیاد ڈالی تھی ان کی باقیات تقریباً ختم ہو رہی ہیں ۔اس نظام کے جو نمایاں لوگ ہیں ان میں میاں نوازشریف،شیخ رشید،راجہ ظفرالحق،شاہ محمود قریشی،فخرامام اوریوسف رضا گیلانی حیات ہیں۔گیلانی اور قریشی صاحب بعد ازاں اپنے کئے پر نادم ہو کر پیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے جبکہ نوازشریف سو فیصد حقیقت کے باوجود یہ ماننے کو تیار نہیںکہ وہ ضیاءالحق کی سیاسی تخلیق ان کے سیاسی جانشین اورسب سے بڑی باقیات میں سے ہیں۔نوازشریف کو اگر8فروری کے انتخابات میں کامیابی ملی تو یہ ان کے سیاسی کیرئیر کی آخری کامیابی ہوگی جس کے بعد سیاست اگلی نسل کو منتقل ہوجائے گی بے شک مریم بی بی اور حمزہ نمائندگی کریں یا چوہدری شجاعت کی جگہ چوہدری سالک اور مونس الٰہی آگے آئیں تاریخ کا یہ ناقابل فراموش مگر افسوسناک باب بند ہو جائے گا۔اسی طرح پشتونخواہ میں انورسیف اللہ اورغلام احمد بلور پرانی نسل کے آخری سیاست دان باقی رہ گئے ہیں۔بزرگوں کی جگہ ایمل ولی ،ہوتی اور ثمر بی بی نے لے لی ہے۔جہاں تک سندھ کا تعلق ہے تو سید غوث علی شاہ اور موجودہ پیر صاحب پگارا ضیاءالحق کی آخری نشانیاں ہیں جبکہ قائم علی شاہ 90 سال کی عمر میں بھی انتخابی میدان میں موجود ہیں۔ زرداری چونکہ بڑا سیاسی ورثہ نہیں رکھتے اس لئے قیادت بلاول اور آصفہ بی بی کو منتقل ہو جائے گی۔یہ سب کچھ کیا ہے۔اسے کہتے ہیں موروثی سیاست۔پاکستان جیسے پسماندہ ممالک میں یہ سلسلہ75سالوں سے چل رہا ہے جبکہ انڈیا میں ہندو انتہاپسندوں نے مودی کی قیادت میں تاریخی اور آزادی کی داعی جماعت کانگریس کو زمین بوس کر دیا ہے۔نوازشریف نے آئی جی آئی بناکر پیپلزپارٹی کا بھی حشر کر دیا تھا جس کے بعد وہ پنجاب سے دوبارہ اٹھ نہ پائی۔جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وہاں کے حالات تبصرہ سے کہیں آگے چلے گئے ہیں۔وہاں پر مروجہ سیاست انتخابات اور پارلیمان بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔بلوچستان ایک خطرناک مرحلے سے گزر رہا ہے۔نہ جانے انتخابات کے بعد حالات کیا رخ اختیار کریں وہاں چونکہ سرداری نظام صدیوں سے رائج ہے اس لئے سردار موروثی نظام کو لے کر چل رہے ہیں نہ صرف یہ بلکہ سیٹوں اور وزارتوں کی خاطر قدموں پر سر رکھنے کو بھی عار نہیں سمجھتے۔نوابزادہ جمیل بگٹی نے ایسے لوگوں کو بوٹ چاٹ قرار دیا ہے یہ طبقہ قائم تو رہے گا لیکن سیاسی اور عوامی اعتبار سے درس عبرت بنے گا۔بلوچستان کی نئی نسل اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے لہٰذا اس نے سرکار کی گود میں پناہ لی ہوئی ہے لیکن سردار اور سرکار کا ایکا زیادہ عرصہ قائم نہیں رہ سکتا۔لاکھ کوشش کی جائے تاریخ کے پہیے کو عہد گزشتہ میں لے جایا نہیں جا سکتا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں