قوم پرست جماعتیں اور جمہوریت کی حالت

تحریر: محمد ایوب
جمہوری ریاستوں میں سیاسی پارٹیاں عوامی طاقت سے قانون سازی، سیاسی منصوبوں کی تشکیل، عوام کے مسائل کا حل تلاش، عوام کی نیازوں کی تشخیص، اقتصادی ترقی، تعلیم، صحت، امن و امان، اور قومی ترقی کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ کثیر القومی ریاستوں میں قوم پرست پارٹیاں ان ذمہ داریوں کے ساتھ قومیت کی فروغ قومی وسائل تحفظ، قومی حقوق، تاریخ، فرہنگ، اور معیشت کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔ جو محکوم و مظلوم قوموں کی آواز بن کر ان کیلئے جدوجھد کرتے مگر موجودہ حالات میں سیاسی پارٹیاں اس سے بلکل برعکس دکھائی دے رہے ہیں بعض دانشوروں کے مطابق سیاسی پارٹیاں خودپرستی سے نکل کر ظالم طاقتور کے سامنے کھڑے ہونے کی ہمت نہیں کرپا رہے بلکہ ان کے ساتھ مل کر انہیں مزید طاقتور بنا رہے ہیں۔ جس کی واضح مثال 2024 کے عام انتخابات ہیں۔
حالیہ انتخابات میں جس طرح اسٹیبلشمنٹ نے پورے ملک میں چند جماعتوں کی طرح بلوچستان میں بھی قوم پرست پارٹیوں کو جس طرح عوامی طاقت کے بجائے چور دروازے سے صفایا کیا جس کی کوئی مثال نہیں۔ قوم پرست جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے کامیاب امیدواروں کا مینڈیٹ چرا کر من پسند لوگوں کو مسلط کیا۔ ان نتائج کو تقریباً کوئی بھی سیاسی جماعت قبول نہیں کر رہی۔ بلوچستان میں ایسی صورتحال یا ایسے نتائج کا آنا پہلی بار نہیں، اس سے پہلے بھی من پسند افراد کو سیاسی مفادات کیلئے مراعات سمیت اقتدار سے نوازا گیا ہے اور مرضی کی حکومت بنائی گئی۔ 1971ءمیں سردار عطاءاللہ مینگل کی حکومت گرانے کے بعد بار بار تاریخ دہرائی گئی مگر ہر بار اس تسلسل میں جمہوریت کو آہستہ آہستہ دیمک کی طرح کھا کرگئی ، پچھلے الیکشن میں باپ کی شکل میں جمہوریت کے قتل کا چہلم حالیہ انتخابات میں بھٹو کو زندہ کرکے منایا گیا تاکہ من پسند افراد کو جیالہ بنا کر ایوانوں میں پہچایا جائے۔ ہر دور میں جمہوریت کے قتل کے بعد بلوچستان میں کرپٹ اور نا اہل حکومت نافذ کر کے بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار سمیت بلوچستان میں ریاستی قبصہ گیری سمیت ڈیتھ اسکواڈ کو جنم دیا جاتاہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد سیاسی رہنماﺅں نے بلوچستان کے مسائل حل کرنے کے بجائے مزید پیچیدہ ہوگئے، وسائل پر قبضہ گیریت اور بڑے پیمانے پر آپریشن اور ماروائے آئین و قانون اغواءاور فیک انکاﺅنٹر میں مارنے کی پیشگوئی کی ہیں۔ یہ پیشگوئیاں سچ ثابت ہوتے دکھائی دے رہے ہیں 8 فروری کے بعد بلوچستان میں 8 سے 10 نوجوان لاپتہ کیے گئے۔ جہاں ابھی تک حکومت نہیں بنی ایسے معاملات پیش آئے اس سے ان پیشگوئی حقیقت پر مبنی بن سکتی ہیں۔ جو بلوچستان سمیت پورے خطے کیلئے نیک شگون نہیں۔
بلوچستان کے تاریخ میں فوجی آپریشن لاپتہ افراد کا مسئلہ وسائل پر وفاق کی من مانی کے ذریعے سودا بازیاں اس تسلسل کا حصہ رہی ہیں۔ اسی دوران بلوچستان میں ریاستی جبر نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا ہے۔ آئے روز بلوچ نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کی شرح میں اضافہ اور ان کے لواحقین کو ہراساں کرنے کا نا ختم ہونے والا سلسلہ تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ جہاں ملکی تمام سیاسی جماعتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔المیہ یہ رہا کہ بلوچستان کے وفاقی پارٹیوں کے نمائندے اس آگ پر پیٹرول ڈالنے اور زخموں پر نمک ڈالنے کا کردار ادا کر رہے ہیں۔جو ماروائے آئین و قانون اغواءاور قتل کو درست قرار دیتے اور لواحقین کو دہشت گرد قرار دیکر انکو ہراساں کرتے۔ تربت میں شہید بالاچ کے انصاف کے خاطر نکلنے والا احتجاجی ریلی انصاف کی خاطر اسلام آباد پہنچا تو دوسری جانب ریاست ان کو انصاف فراہم کرنے کے بجائے چند افراد کو لاپتہ افراد کے لواحقین کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے بٹایا گیا۔ جو پر امن احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لیے معصوم عورتوں کو دہشت گرد قرار دے کر اپنے آقاﺅں کو خوش کررہے تھے۔ وہ اس بات سے بلکل نا واقف تھے کہ بلوچ خواتین مزاحمت کا علم اٹھائے لاپتہ افراد کی بازیابی کےلئے سراپا احتجاج تھیں۔ یہ وہ انقلاب کی آگ تھی جس نے بلوچستان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اس دو ماہ کی جہدوجہد نے بلوچ قوم کو شعوری بیدار کردیا تھا۔
ہمیشہ بلوچستان پر ظلم و زیادتیوں اور وسائل کی تحفظ کیلئے قوم پرست جماعتوں اور قوم پرست رہنماﺅں نے ہی آواز بلند کرکے جدوجہد کی۔ بلوچستان میں قوم پرستی کو پروان چڑھانے میں قوم پرست طلباءتنظیموں بالخصوص بی ایس او کا اہم کردار رہا ہے یہی وجہ تھی کہ ایک ڈکٹیٹر نے طلباءیونین پر پابندی عائد کی، جمہوری حکومت کا دعویٰ کرنے والی کئی پارٹیوں کے حکومت بننے کے باجود اس پابندی ختم نہیں کرسکے۔ بلوچستان کے قوم پرست رہنماﺅں جن میں نواب خیر بخش مری، سردار عطاءاللہ مینگل، میر غوث بخش بزنجو، گل خان نصیر سمیت کئی دیگر قوم پرست رہنما تھے، جنہوں نے اپنی زندگی بلوچ قوم کیلئے قربان کردی کئی قربانیوں سے قوم پرستانہ سیاست اور جدوجہد کو زندہ رکھا۔ پارلیمنٹ قومی اور صوبائی اسمبلی ہو یا عالمی اداروں کے محاذ، بلوچستان کی توانا آواز صرف قوم پرست رہنما اور قوم پرست جماعتیں ہی بنی ہیں۔ سردار عطاءاللہ مینگل، نواب خیر بخش مری جیسے بلوچ قوم پرست رہنماﺅں کی جدوجہد کے آخری ادوار میں پارلیمنٹ سے دوری اور مایوسی، حالیہ قوم پرست جماعتوں کی موقع پرستی، قومیت کے بجائے مراعات کو ترجیح نے نوجوانوں کو بھی پارلیمنٹ سے کافی حد تک مایوسی کی طرف دھکیلا، البتہ آج بھی کچھ ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے پارلیمان کی بالادستی، آئین کی پاسداری اور آئین کے تحت پارلیمانی جدوجہد پر یقین رکھتے تھے، اسی بنا پر 8 فروری کے الیکشن میں حصہ لیا یا الیکشن کے دن اپنا قیمتی ووٹ کاسٹ کیا تاکہ جمہوری طرز سے ان کی مظلومیت اور بلوچستان میں ہونے والے مظالم کا ازالہ ہوسکے اور وہ اپنی آواز پارلیمنٹ تک کسی طرح پہنچا سکے۔ پارلیمنٹ سے مایوسی کے باوجود بلوچستان کی پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والے عوام کا یقین بھی صرف قوم پرست رہنماﺅں سے وابستہ تھا کیونکہ پچھلی حکومت کے دوران اسمبلیوں میں بلوچستان کی آواز ہلکی لیکن توانا بنتی تو سردار اختر مینگل جیسے قوم پرست رہنماﺅں کی وجہ سے تھی جہاں اختر مینگل قوم پرستانہ طرز سیاست سے بلوچ قومیت اور مظلومیت کی بات کی بلوچستان کی آواز بنے۔ اس کے علاوہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رہنماﺅں میں کوئی جماعت بھی بلوچستان کی نمائندگی کرنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح پشتون اور سندھی قوموں کی نمائندگی کرنے میں پشتون اور سندھی قوم پرستوں کے علاوہ کسی سے جماعت نے مظلوم قوموں کی نمائندگی کرنے کو گناہ کبیرہ سمجھ کر خاموشی اختیار کی۔
8 فروری کو انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو بلوچستان کے رہنماﺅں سمیت پورے عوام کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی ایسے افراد کو کامیاب کیا گیا جن کو ان حلقوں میں کوئی جان پہچان تک نہیں، قوم پرست امیدواروں کو ناکام بنانے کیلئے ہر ممکن کوشش کی گئی۔ جس پر بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں نے کھل کر احتجاج کی۔ پریس کانفرنس میں اسٹیبلشمنٹ کو دھمکیاں تک دے ڈالی۔ "اب کیا پچھتانہ جب چڑیا چگ گئی کھیت” الیکشن گزرنے کو ایک ہفتہ ہونے کو ہے مگر دن گزرنے کے باوجود رزلٹ میں کوئی بدلاﺅ نہیں آیا جن کو کامیاب کروانے کا پروانہ اوپر سے جاری ہوا ہو اس کو کون روک سکتا ہے۔ حالیہ انتخابات نے ستر کی دہائی کی یاد تازہ کردی۔ جہاں قوم پرستوں کیلئے ایک سخت اور کٹھن راہ انتظار کررہی تھی ماضی میں پہلے ون یونٹ کا قیام، ایوبی آمریت کا دور سیاسی پابندیاں اور بلوچستان کی قوم پرست رہنماﺅں کو گرفتار کرنا۔ جس سے بلوچستان کو نا ختم ہونے والے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا۔ ون یونٹ کا خاتمہ اور بلوچستان حکومت کو برطرف کر کے گورنر راج قائم کرکے قوم پرست لیڈر شپ کو حیدر آباد سازش کیس میں گرفتار کرکے بلوچستان کے وسائل پر قابض ہوگئے اور ظلم و ستم کا نہ ختم ہونے والا داستان جاری ہیں۔
حالیہ انتخابات کے نتائج بلوچ پشتون سندھی ہزارہ اور دیگر مظلوم و محکوم قوم پرستوں کیلئے سخت حالات انتظار میں ہیں اب وقت کا تقاضا ہے بلوچ، پشتون ہزارہ سندھی قوم پرست جماعتیں ذاتی مفادات کے بجائے بلوچستان میں ہونے والے استحصال کے خلاف اتحاد و اتفاق سے واضح حکمت عملی طے کریں۔ بلوچستان پر قابض سرمایہ دارانہ سیاست اور غیر جمہوری حکومت کا حصہ بننے سے انکار کریں۔ ریاستی کی غلامی سے نکل کر بلوچستان میں ہونے والے مظالم کیخلاف مزاحمت کا آغاز کریں۔ نواب خیر بخش مری سردار عطاءاللہ مینگل غوث بخش بزنجو کی حقیقی راہ پر چل کر جدوجہد کریں۔ ریاستی مشینری کے لیے خود کو استعمال نہ کریں اور ریاستی پالیسیوں کے سامنے نہ جھکنے کی جرات رکھے قوم میں شعور پیدا کرنے کیلئے شعوری پروگرام کا انعقاد کریں سیاسی اور شعوری قیادت کیلئے نوجوانوں کی ذہن سازی کریں اور طلبہ یونینز کو تعلیمی اداروں میں فعال کرنے میں کردار ادا کریں۔ شعوری سیاست کا حصہ بن کر بلوچستان کے مسائل اور حقوق کی بات کھل کر کریں۔لاپتہ افراد، جعلی مقابلے، ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف واضح حکمت عملی سامنے لائے۔ قوم پرستانہ نظریات کو فروغ دیں۔ قومی مفادات کیلئے اسمبلیوں کو ٹکرانے کی جرات پیدا کریں۔ سیاسی اختلافات کے باوجود قومی مفادات کیلئے ایک دوسرے کے رائے ہموار کریں۔ نفرتیں ختم کر کے محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔ سیاست و جدوجہد کو مضبوط بنائے تاکہ متحدہ طور پر قومی شناخت تشخص کا دفاع ممکن ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں