نیا سال اور بلوچستان

تحریر: فقیر بخش بلوچ
7 فروری 2024ءبدھ کا دن یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دس الیکشن مکمل ہونے کا دن اور گیارہویں الیکشن سے ایک روز قبل میں اپنے چھوٹے سے کمرے میں بیٹھا موجودہ حالات کے بدلتے ہوئے صورتحال پر سوچ رہا تھا کیونکہ ان دنوں بلوچستان کے حالات بہت سنگین اور کشمکش رنگ لے چکے تھے وہ اسلئے کہ ایک طرف الیکشن کی گہماگہمی اور دوسری طرف انسانی لہو بہہ رہا تھا کیونکہ چند روز قبل کی بات ہے کہ بلوچستان کے شہر تربت میں کسی نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک نو عمر طالبعلم بالاچ بلوچ کی شہادت ہوئی جس کے نتیجے میں بالاچ بلوچ کے خاندان تربت شہر میں عوام کے ساتھ مل کر احتجاج کرنے کے بعد سپرد خاک کر کے دوبارہ مظاہرہ کرنے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کی جانب پیدل لانگ مارچ پر نکلے دوسری جانب انسانی حقوق کی علمبردار خواتین ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور سمی دین بلوچ لاپتہ افراد کی لواحقین کی آواز بن کر اس لانگ مارچ میں شامل ہوئیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس لانگ مارچ نے شہرِ اقتدار (اسلام آباد) کی جانب اپنا سفر جاری رکھا راستے میں جوق در جوق لوگ اس قافلے میں شامل ہوتے گئے اور بالآخر یہ قافلہ شہرِاقتدار کی حدود میں داخل ہوا ایک جانب اس قافلے میں خواتین اور بچے تھے اور دوسری جانب انتظامیہ کی بدسلوکی سے اس قافلے کو بہت ساری مشکلات کا سامنا کرنا پڑا برعکس اسکے کے ان کی فریاد سنی جاتی ان پر آنسو گیس، لاٹھی چارج اور گرفتاریاں کی گئی بالآخر اس قافلے نے بے حد مصائب کا سامنا کرنے کے بعد اسلام آباد میں پریس کلب کے سامنے ڈیرے ڈال دئیے اور اپنی فریاد شہرِاقتدار کے حاکموں کے سامنے رکھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے پھر چند روز بعد کچھ ایسا ہوا جس کی کسی کو امید بھی نہ تھی، ہوا کچھ یوں کہ اچانک ایک روز ٹی وی پر یہ خبر چلی کہ بلوچستان سے ایک اور شہداءلواحقین کا قافلہ شہر ِاقتدار اپنی فریاد لے کر پہنچا، اب میں اس ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا کہ ان کا مسئلہ آخر کیا تھا (کیونکہ مجھے ہنسی تب آئی کہ ایک مشہور صحافی مطیع اللہ جان نے ان سے سوال کیا کہ آخر ان کا مطالبہ کیا ہے اور کس سے ہے؟) لیکن وہ سوال کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے پھر پورے دو ماہ بعد یہ خبر چلی کہ لاپتہ افراد کے لواحقین نے اپنا دھرنا ختم کر کے کوئٹہ کی جانب گامزن ہوئے اور اچانک چند گھنٹوں بعد یہ خبر چلی کہ شہداءکے لواحقین نے بھی اپنا احتجاج ختم کردیا اور یہ 27 جنوری 2024ءکی بات تھی۔
اس کے بعد اگر میں بلوچستان کے دیگر شہروں کی بات کروں تو بلوچستان کا ہر شہر، ہر گاﺅں، ہر گلی و کوچہ اور ہر چوک و چوراہا بدامنی کی لپیٹ میں آگیا تھا کیونکہ کہیں کریکر دھماکے تو کہیں دستی بم کے حملے اور کہیں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے بلوچستان کی زمین اپنے ہی باشندوں کی لہو سے سیراب ہو رہی تھی کیونکہ ان دھماکوں کے بعد اگر کچھ لوگ دور ہٹ رہے تھے لیکن وہاں بچ رہا تو صرف لہو، بوسیدہ کپڑے اور خاندانوں کے پیاروں کے جسم کے ٹکڑے ان تمام واقعات کا سننے کے بعد میں اندر ہی اندر بجھ کر رہ گیا اور اسی کشمکش میں میرے ذہن میں چند سوالات ابھرے وہ یہ کہ
ان تمام گزشتہ بدترین حالات کا ذمہ دار کون؟ (جہاں ہر طرف لہو ہی لہو بہہ رہا تھا اور اجتماعی قبریں بن رہی تھی)
کیا یہ لہو بلوچستان والوں کا تھا؟ (اگر ہاں تو اس کا ذمہ دار کون؟)
اور یہ سارا لہو کیوں بہایا جارہا تھا؟
کیا بلوچستان والوں کا لہو اتنا ارزاں ہے؟
جی ہاں! بلوچستان والوں کا خون پانی کی ایک چھوٹی سی چھوٹی سی بوتل سے بھی ارزاں ہے ایک جانب تو قوم اپنا لہو بہا رہی تھی دوسری جانب قوم کے ٹھیکیدار (سردار، نواب اور بڑے بڑے جاگیردار) الیکشن کی پیش رفت میں قوم کے سامنے ووٹ کے لئے اپنی پگڑیاں بھی قوم کے قدموں میں رکھ رہی تھی اور دوسری جانب یہی ٹھیکیدار الیکشن جیتنے کے بعد قوم کو اندھی کھائی میں دھکیل دیتے ہیں اور خود اقتدار کی رنگینیوں میں بدمست ہو کر عیاشیاں کرتے ہیں (یعنی قوم کے لہو پر عیاشیاں) یہ وہی لوگ ہیں جن کی بڑی بڑی مونچھوں کے سائے تلے قوم لاوارث ہے اور مظلوم قوم جو پچھلے دس دہائیوں سے لاوارث ہے یہی سمجھ رہی ہے کہ یہ (سر کے تاج) ان کی آواز کو ایوانِ بالا میں اجاگر کریں گے۔
بس یہی اس قوم کی سب سے بڑی بیوقوفی ہے، بلوچستان کے غیور عوام اب ہوش کے ناخن لیں، الیکشن، یا سردار، یا نواب، یا شہرِاقتدار والوں کو بلوچستان کے عوام نظر نہیں آتے لیکن ان کے پیروں تلے (سی پیک، سوئی گیس، ریکوڈک، سیندک، سونے کے ذخائر اور لاتعداد معدنیات) ہی نظر آتے ہیں وہ اس لئے کہ بلوچستان کے عوام انفرادی طور پر تو قوتمند اور اجتماعی طور پر تنکوں سے بھی کمزور ہیں اگر آج ہم نے اپنا طرزِ سوچ نہ بدلہ تو دوسری قومیں ہم پر مسلط رہیں گی، چاہے وہ کمزور ہوں خواہ طاقتور ان کی حاکمیت برقرار رہے گی اور ہم تاریخِ انسانی میں صرف ناپید نہیں ہوں گے بلکہ تاریخ کے پنے بھی ہمیں پہچاننے سے انکار کریں گے۔
لہٰذا ہمیں حقیقت کو تسلیم کر کے اپنی رنجشوں، ناراضگیوں کو مٹا کر آگے بڑھنا ہوگا تب ہی انسانی بقاءتک ہمارا نام رہے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں