آتش فشاں
تحریر : انور ساجدی
بلوچستان کے کمسن یا انتہائی نوجوان رکن اسمبلی جمال خان رئیسانی نے چند روز قبل نہایت ذومعنی بات کہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بہت جلد بلوچستان کے نوجوان محب وطن بن جائیں گے یا سارے کے سارے باغی ہو جائیں گے۔غالباً اس گفتار کا مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ عنقریب حکومت ایسی حکمت عملی اختیار کرے گی کہ لوگ اپنے نظریات سے تائب ہوکر ریاستی بیانہ کے ساتھ ہو جائیں گے اگر یہ حکمت عملی کامیاب نہ ہوسکی تو نتیجہ الٹ نکلے گا۔چند روز ہوئے وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے فرمایا تھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف ٹارگیٹڈ آپریشن کیا جائے گا۔شاید میر صاحب کو یاد نہ رہا کہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں وقفہ وقفہ سے کارروائیاں جاری ہیں۔ لہٰذا یہ ٹارگیٹڈ آپریشن چہ معنی دارد یا وہ صاف کہتے کہ حکومت ایک بڑا اور ناقابل بیان آپریشن کرے گی تو بات سمجھ میں آتی۔جمال خان رئیسانی نوابزادہ سراج رئیسانی کے صاحبزادے اور نواب غوث بخش رئیسانی کے پوتے ہیں۔ان کی تربیت ایک بڑے گھرانے میں ہوئی ہے چنانچہ وہ اپنی عمرسے کہیں زیادہ تجربہ کار ہیں اور وہ اکثر اپنی عمر سے بڑی باتیں کہہ جاتے ہیں۔جب وہ پیپلزپارٹی میں شامل ہوئے تو حیرانی کی بات تھی۔اسی طرح میر سرفراز کی بھی پیپلزپارٹی میں شمولیت باعث حیرت تھی۔بہرحال پیپلزپارٹی سے قطع نظر یہ تبدیلی واضح نظر آتی ہے کہ مقتدرہ کو اپنے پرانے اور بزرگ اثاثوں پر اعتماد نہیں رہا۔شاید انہیں ازکار رفتہ تصور کیا جا رہا ہے۔اگرچہ زرداری والی پیپلزپارٹی ایک نئی پارٹی ہے لیکن دیکھا جائے تو رئیسانی خاندان کا پیپلزپارٹی سے پرانا تعلق بنتا ہے۔ نواب غوث بخش رئیسانی پیپلزپارٹی بلوچستان کے صدر تھے جبکہ سرفراز کے والد میر غلام قادر 1972 میں پارٹی میں شامل ہوئے تھے لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہ پیپلزپارٹی سے زیادہ ریاست کے اثاثے ہیں اور ریاست کو ان پر حد درجہ اعتماد ہے جب کابینہ کی تشکیل ہو جائے گی تب پتہ چلے گا کہ سرفراز بگٹی کیا پالیسی لے کرآئیں گے۔وہ امن کے قیام کےلئے کیا منصوبے بنائیں گے اور ریاست سے اپنی شدید وابستگی کوکس طرح روبہ عمل لائیں گے۔ آیا وہ پیپلزپارٹی قیادت کے احکامات کے تابع ہوں گے یا آزادانہ طور پر ایکٹ کریں گے۔
سرفراز بگٹی میں کئی خامیاں اور کمزوریاں ہوں گی لیکن ان کے نظریات بہت واضح ہیں۔ وہ کافی عرصہ سے اس کا اظہار کرتے چلے آ رہے ہیں پہلے نوجوان تھے اب پختہ عمر میں قدم رکھ چکے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ پختگی اور ذمہ داری آنے کے بعد ان میں تبدیلی آجائے لیکن یہ بات عیاں ہے کہ انہیں بلوچستان میں جاری سرکشی کو ختم کرنے کےلئے لایا گیا ہے۔گو کہ میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ وہ تمام لوگوں کے عام معافی کا اعلان کریں گے لیکن ان کا ذاتی خیال ہے کہ ریاست کو ایسا نہیں کرنا چاہیے اور زیادہ آہنی ہاتھوں سے اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے۔ چنانچہ یہ واضح ہوگیا کہ اگر عام معافی کا اعلان ہو جائے تو وہ کارگر نہیں ہوگا کیونکہ بلوچستان کے برسرپیکار لوگ کسی معافی کے طلب گار نہیں ہیں۔ اسی طرح گفت وشنید کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہے۔دونوں فریق بات چیت پر یقین نہیں رکھتے کیونکہ ان کے ایجنڈے الگ الگ ہیں اور بات چیت کے لئے کسی ایک نکتہ پر متفق ہونا ضروری ہے۔مسئلہ یہ ہے کہ راولپنڈی اور لاہور کے حکمران بلوچ مسئلہ کو سرے سے سمجھتے ہی نہیں ہیں ان کا خیال ہے کہ معاملہ طاقت کے استعمال سے حل ہوگا اور جو برسرپیکار لوگ ہیں وہ بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ لڑائی کے ذریعے اپنامقصد حاصل کرلیں گے۔پہلے کہا جاتا تھا کہ یہ 1971نہیں ہے خود پرویز مشرف نے بھی یہی کہا تھا اور یہ عندیہ دیا تھا کہ ہم آپ کو ایسی جگہ ہٹ کریں گے کہ پتہ بھی نہیں چلے گا۔انہوں نے نواب صاحب سے مذاکرات شروع کر کے انہیں ادھورا چھوڑا اور طاقت کا بے تحاشہ استعمال کیا لیکن ان کا یہ اقدام گلے پڑگیا اور گزشتہ دو دہائیوں سے جاری جنگ کی شدت برقرار ہے۔ ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی ہے کہ بلوچستان کی نااہل اور بد انتظام حکومتوں کی وجہ سے عوام میں زیادہ مایوسی پھیل گئی ہے اس لئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے پہاڑوں کا رخ کیا ہے۔ چند سال ہوئے بلوچ تحریک میں خود کش حملہ آوروں کا عنصر بھی شامل ہوگیا ہے۔کئی واقعات میں اس کا تسلسل نظر آیا ہے۔ایک اور بنیادی تبدیلی تحریک میں خواتین کی شمولیت اور”بلوچ پیش مرگہ“ کا قیام ہے۔ایک تیسرا فیکٹر انسانی حقوق کی بنیادپر ایک تحریک کا جنم ہے جس کی قیادت ماہ رنگ بلوچ کررہی ہیں جبکہ ان کے ساتھ ہزاروں خواتین سرگرم عمل ہیں۔یہ ایک اربن”فنامنا“ ہے کیونکہ پارلیمانی سیاست دانوں ،جعلی قوم پرست رہنماﺅں اور پیٹ پرست دوغلے لیڈروں کے طرزعمل نے تنگ آمد بجنگ آمد کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔چنانچہ یہ جو نئی صورتحال ہے اس سے نمٹنا آسان نہیں ہے کیونکہ یہ فیڈریشن کی ایک اکائی ہے کوئی غزہ نہیں کہ یہاں پر کارپٹ بمبنگ کی جائے نہ تو ایسا ممکن ہے اور نہ ہی یہ کوئی درست حکمت عملی ہوگی کیونکہ بلوچ مسئلہ کی بازگشت دنیا کے ہر کونے میں سنائی دے رہی ہے اگر اپنے عوام کے بے رحمانہ قتل عام کا ارتکاب کیا جائے تو دنیا اسے قبول نہیں کرے گی۔اگرچہ دنیا کی جانب سے مسلح کارروائیوں کی حمایت مشکل ہے لیکن شہری علاقوں میں پرامن احتجاج کی حمایت ہر جگہ موجود ہے اور جدید دور میں یہ ایک کامیاب حربہ ہے۔جو منصوبہ ساز ہیں انہیں سوچنا چاہیے کہ ہزاروں نوجوانوں کی کسی تحریک میں شمولیت کی وجوہات کیا ہیں اور لوگ کیوں ہزاروں کی تعداد میں ماہ رنگ بلوچ کی ایک کال پر سڑکوں پر آجاتے ہیں۔یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ مسنگ کرنے کے طریقہ کار نے کئی مشکلات پیدا کی ہیں اگر یہ جاری رکھا گیا تو اور کتنے نوجوان مایوس اور بدظن ہوں گے۔
بلوچستان کے ساتھ ہی پختون بھی کم و بیش اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ریاست نے اپنی ہی پارلیمنٹ کے ایک رکن علی وزیر کے ساتھ جو سلوک کیا یا محسن داوڑ کو قومی دھارے میں آنے کی جو سزا دی جا رہی ہے پختون عوام میں اس کا کوئی اچھا پیغام نہیں جا رہا ہے۔اوپر سے افغان حکومت سے کشیدہ تعلقات بھی ایک ناقابل بیان انہونی پیدا کر رہے ہیں۔ ریاست نے اپنے ہاتھوں جو جنگجو پیدا کئے تھے آج وہ اس کے گلے پڑے ہیں۔ بجائے کہ پشتون عوام کو مطمئن کیا جائے سیاسی مفادات کی خاطر جنگجوﺅں کو ان کے خلاف استعمال کرنا ایک فاش غلطی ہے جس طرح طالبان کی حکومت ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔پاکستان کے پختون بھی اسی طرح کا رویہ اختیار کر سکتے ہیں۔جب بھٹو نے نیپ کے خلاف انتقامی کارروائیاں کی تھیں تو خان عبدالولی خان نے کہا تھا کہ اگر آپ کی یہ پالیسی رہی تو میں سرحد پر لگی زنجیر کو اٹک پر لگا دوں گا وہ کلاسیکل افغان سرحدوں کی بات کر رہے تھے۔کیا مذاق ہے کہ افغان امور پر رہنمائی حاصل کرنے کے لئے استاد افراسیاب خٹک سے رجوع کرنے کے بجائے مسخرہ صحافی ارشاد بھٹی کو بلا کر ان کی ماہرانہ تجاویز سنی جاتی ہیں۔حکمرانوں کی کیا پالیسی ہے کہ عوام سے رجوع کرنے کے بجائے ایک نئی خلائی مخلوق میدان میں اتاری جاتی ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر مغربی سرحدیں محفوظ نہیں ہیں۔مشرقی سرحدوں پر خطرہ ہے۔شمال اور جنوب میں ہر طرف خون بہہ رہا ہے تو آپ سیاسی و معاشی استحکام کیسے حاصل کریں گے چند قوم فروش اور دین فروش ملاﺅں کو آگے لا کر حکمران سنگین مذاق کا ارتکاب کر رہے ہیں،ہر بڑے سانحہ کے بعد یہ کہا جاتا ہے کہ آئندہ ایسے واقعات کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
بھلا انتہا پسندوں کو کیا ضرورت ہے کہ وہ آپ سے اجازت لے کر کارروائیاں کریں۔بلوچستان اور پختونخواہ میں بوجوہ سیاست کو ختم کر کے معاشرے کو غیر سیاسی کرنے کی کوششوں کا اچھا نتیجہ دیکھنے میں نہیں آ رہا ہے۔حکمرانوں نے طے کیا ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں عوام کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔ریاست میں کیا چل رہا ہے کوئی پالیسی اور حکمت عملی ہے کہ نہیں یہ کسی کو پتہ نہیں ہے۔سفر ایک ایسی سمت کی جانب رواں دواں ہے کہ جس کی کوئی منزل نہیں ہے۔