ماں کا عالمی دن!!

تحریر: ایڈووکیٹ فریدہ بلوچ
ماں کا عالمی دن 1870 میں انسانی حقوق کے کارکن اور شاعر جولیا وارڈ نے اپنے ماں کی یاد میں منایا اس کے بعد 1907 میں فلاڈیلفیا میں ایناجیروس نامی خاتون ٹیچر نے باقاعدہ طور پر اس دن کو اپنی ماں کے یاد میں منایا اینا جیروس کی والدہ اینا راوس نے انیسویں ویں صدی میں امریکہ میں سول وار کے بعد نے انہوں نے ایک کلب بنایا جس کا نام مدر کلب رکھا اس کلب کا مقصد یہ تھا اپنے بچوں کی پرورش اور ان کو پال پوس کر بڑا کرنا تھا۔
یہ کلب پورے امریکہ میں مشہور ہونے کے بعد امریکی صدر نے اس دن کو ماﺅں کے احترام کے طور پر موسوم کیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کافی ملکوں نے اس دن کو ماﺅں نام کا دن پر منانا شروع کردیا۔
10 مئی کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی ماں کا عالمی دن کو عقیدت اور احترام سے مناتے ہیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دن کو محض ایک رسم کے طور پر منا کر ایک دن کے لیے ماں کو ماں کے قربانیوں کا ایوارڈ دیا جائے ؟
میرے خیال سے نہیں !!
ماں دنیا کی وہ ہستیوں میں سے ایک ایسی ہستی ہیں جسے ایک دن کے ایوارڈ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ماں کے درجات کو سب سے افضل درجہ قرار دیا ہے اور ماں کے پیروں کے نیچے جنت رکھی ہے۔
ایک صحابیؓ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حسن سلوک کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں تو دوسری بار پوچھا تو فرمایا ماں تیسری بار پوچھا تو آپ نے فرمایا ماں چوتھی بار پوچھا تو آپ نے فرمایا باپ۔
اسی طرح دیکھا جائے دنیا بھر کے لوگوں کا سوال بھی یہ ہوتا ہے کہ آپ کی مادری زبان کون سی ہے۔
دنیا کی تمام اقوام اپنی سر زمین کو مدر لینڈ سے تشبیہ دیتی ہیں۔
روز محشر میں اولاد کی پہچان ماں کے نام سے ہوگی۔
بشرطیکہ آج کل کی اولاد اس بات کو سمجھ سکے۔
ماں وہ ہستی ہے جو اپنی اولاد کو نو مہینے اپنی کوکھ میں رکھ کر اسے اس دنیا میں لا کر پوری پوری رات جاگ کر دودھ پلا کر اور محنت ومشقت کرکے ایک بہترین انسان بنانے میں اپنی جوانی سے اپنے بڑھاپے تک بلا معاوضہ واقف کر دیتی ہے۔
بغیر سوچے سمجھے میری اولاد میرے ساتھ کیا سلوک کرے گی؟
ماں اپنے بچے کو لوریاں سنا کر اپنی زبان کی شناخت کرواتی ہے اسے اپنے ہاتھوں سے کھانا کھانے سے لے کر چلنے تک سکھاتی ہے، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی ہے۔
مگر ایک ماں کو دکھ اور تکلیف اس وقت ہوتا ہے جب اس کا نوجوان بیٹا یا بیٹی اپنی جوانی کے جوبن میں گم ہو کر نافرمانی کی تمام حدیں پار کر دیتی ہیں۔
وہ ذرہ برابر بھی نہیں سوچتی میرے ماں پر کیا گزرتی ہوگی جب میں باہر سے نشے میں دھند ہو کر اس کے سامنے جاو¿ں گا تو اس پر کیا بیتی ہوگی۔
وہ بچی جو باہر جا کر تمام حدیں پار کر دیتی ہے جس کی وجہ سے اس کی ماں اور خاندان والوں کے لیے ذلت ورسوائی کا سبب بنتی ہے لیکن ماں پھر بھی ماں ہوتی ہے وہ اپنے بچے کو کبھی بھی کسی بھی صورت اپنے آپ سے، اپنی دعاﺅں سے اور اپنی شفقت سے دور نہیں کرتی، ماں کی دعا دعا ہوتی ہے جو فوراً قبول ہوتی ہے۔
جاکر پوچھیں بلوچستان کی ان ماﺅں سے جن کی اولادیں کئی سال سے لاپتہ ہیں، یہ مائیں بلوچستان کی سڑکوں پر اپنے لخت جگر کی تلاش میں بھٹکتی رہتی ہیں نہ ان کو گرمی کی پرواہ نہ ان کو بارش کی فکر اور نہ ان کو بھوک کی خبر ہوتی ہے، بس ان کی آنکھوں میں ایک پیاس اور تڑپ ہوتی ہے جو اپنے بچوں کو ایک نظر دیکھنے اور گلے لگانے کے لیے بے تاب ہوتی ہیں۔ جاکر پوچھیں ان ماﺅں سے جن کے جوان بیٹے یا بیٹیاں زمین میں منوں مٹی تلے دفن ہیں۔ جا کر فلسطین کی ان ماﺅں سے پوچھیں جن کے سامنے ان کے معصوم بچوں کو بمباری کرکے مارا جا رہا ہے وہ بے بس ہوکر اللہ سے زار و فریاد کررہے ہیں کہ کوئی وسیلہ ان کے لیے پیدا ہو تاکہ ان کے بچے ان کے سامنے قتل نہ ہوں۔
میں بھی ایک ماں کی حیثیت رکھتی ہوں، میں اچھی طرح جانتی ہوں جب میرے بچے تکلیف میں ہوتے ہیں تو مجھ پر جو پہاڑ گرتے ہیں۔ جب میں تکلیف میں ہوتی ہوں تو میری ماں پر کیا گزرتی ہو گی وہ ماں جو جوانی میں بیوہ ہو کر اپنی خوشیوں کی قربانیاں دے کر اور مجھ سے تمام چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھا کر ان کو معاشرے میں بہترین انسان بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔
ماﺅں کے عالمی دن کے موقع پر میں خصوصی طور پر بلوچستان کے لاپتہ افراد کی ماﺅں اور فلسطین کی ماﺅں سمیت دنیا بھر کی ماﺅں کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے اپنے بچوں کے لیے کوئی بھی قربانی دینے کے لیے کبھی بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں