اسے ماتھے پہ بوسہ دو!

تحریر: محمد خان داﺅد
اسے وندر جانا تھا جس کے لیے لطیف نے لکھا ہے کہ
”جو وندر نہیں گیا اس نے محبت ہی نہیں کی!“
وندر محبت کا سنگ میل ہے!!
پر وہ ان روڈوں پر گئی جو روڈ گرمیوں میں جل کر کوئلہ ہو جاتے ہیں، پیر تو کیا روح تک کو جھلسا دیتے ہیں۔ ان روڈوں پر اس درد کی کتھا لکھی ہوئی ہے کہ وہ کن کن روڈوں سے گزری اور کہاں تک پہنچی۔ جب وہ ان روڈوں پر درد کا سفر لیے چلتی تھی تو روڈ بھی یہ چاہتے تھے کہ وہ سکڑ جائیں اور یہ سفر مختصر سے مختصر ہو جائے، پر روڈوں میں دل نہیں ہوتے، ایسے ہی جیسے سسی جب پنوں کو پہاڑوں میں تلاش رہی تھی اور پہاڑوں سے ہوکر پتھروں سے گزری تھی تو پتھروں نے سسی سے پوچھا تھا کہ
”اے سسی ہم تمہارے لیے کیا کریں؟“
تو سسی نے ان پتھروں سے کہا تھا کہ تم تو سنگ ہو میرے ساتھ چل تو نہیں سکتے پر میرے ساتھ رو تو سکتے ہو، بس تم میرے ساتھ رو!!!
”ڈونگر مون سین روئ
کڈھی پار پنہوں جا!“
ان پتھروں پر ریاست کی حکمرانی نہیں تھی۔ وہ پتھر یا تو پہاڑوں کے دامنوں سے بندھے ہوئے تھے۔ یا سسی کے درد سے۔ اس لیے وہ پتھر سسی کے درد میں بہت روئے ہیں۔ پر یہ سیاہ تار کول کے روڈ کیچ کے پہاڑوں سے نہیں بندھے ہوئے یہ روڈ تو حکم کی زنجیر سے بندھے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان روڈوں نے کبھی سمی سے یہ نہیں پوچھا کہ ”ہم تمہارے لیے کیا کریں؟“ حالانکہ سمی کے قدم سسی کی مانند ان ہی روڈوں پر پڑے ہیں، نہ تو روڈ سمی کے ساتھ روئے ہیں، پر جب ان روڈوں پر دردیلا قافلہ چلا ہے تو یہ روڈ اپنے دامنوں میں سکڑے ضرور ہیں۔ یہ روڈ چاہتے تھے کہ ہم درد کا سفر کم نہیں کرسکتے پر ہم پیروں کا سفر تو کم کرسکتے ہیں۔ ہم انہیں جلدی وہاں تو پہنچا سکتے ہیں جہاں یہ درد دل کا قافلہ ٹھہرے گا!
اس لیے چاہے شال کے سیاہ روڈ ہوں یا، کراچی کے شہر اقتدار کے، یا پھر شال کی گلیاں یہ سب اپنے دامنوں میں سکڑی ضرور ہیں!
وہ وندر کی گلیاں چھوڑ کر ان روڈوں پر آئی۔ وہ جانتی تھی کہ وندر محبت کا سنگ میل ہے!۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ جو وندر نہیں گیا اس نے محبت نہیں کی! پر جب محبت ہی مسافر ہو تو وہ کیا کرے؟ جو محبت ہی مصلوب ہو تو وہ کیا کرے؟ جو محبت ہی کال کوٹھڑی میں ہو تو وہ کیا کرے؟ جب جسم یہاں رہ جائے اور روح اٹھالی جائے تو وہ کیا کرے؟ جب آہیں یہاں رہ جائیں اور اور کوئی سینے میں ہاتھ ڈال کے دل ہی لے جائے تو وہ کیا کرے؟ جب دامن ہی تار تار ہوجائے تو وہ کیا کرے؟ جب پیروں کے مقدر میں سفر کسی تعویذ کی مانند باندھ لیا جائے تو وہ کیا کرے؟ جب آنکھوں میں انتظار کسی موسم کی طرح ٹھہر جائے تو وہ کیا کرے؟
وہ رات کو خوابوں میں بابا کو دیکھے اور دن میں اس کا پتا پوچھے تو وہ کیا کرے؟ وہ کبھی مصلوب ہو، کبھی ہجوم کی آخری قطاروں میں ہو، کبھی مریم بنے، کبھی یسوع، کبھی صلیب!
مصلوب ہونا بہت آسان ہے، پر صلیب کا بار کاندھوں پر اٹھانا بہت مشکل!
وہ مصلوب بھی ہے اور اسے کے کاندھوں پر بھاری صلیب کا بار بھی!
اس کے کاندھے بھاری صلیب سے شل ہیں!
یسوع ہونا بہت آسان ہے
پر مریم ہونا بہت مشکل!
پنوں ہونا بہت آسان ہے
پر سسی ہونا بہت مشکل
وہ سسی بھی ہے اور مریم بھی!
جب دن گزر ہی جائے اور رات کاٹے نہ کٹے تو کیا کیا جائے؟ جب رات ہوتے ہی تارے آنسوﺅں سے بھر جائیں اور چاند بس اسے ہی تکتا رہے تو کیا کیا جائے؟
اسے وندر کی گلیوں کا علم تھا۔ وہ جانتی ہے وندر محبت کا سنگ میل ہے اور وہ یہ بھی جانتی ہے کہ جو وندر نہیں گیا اس نے تو محبت ہی نہیں کی،
پر وہ سسی سے بھی عظیم ہے، وہ بغیر محبت کے دردکی گلیوں سے ہو آئی ہ،ے
وہ وندر نہیں گئی پر اپنے پنوں کا تلاش رہی ہے۔
وہ وندر کے پاس سے بھی نہیں گزری پر وندر اسے جانتا ہے۔
وہ جو ان سے کہنا چاہتی تھی جو طاقت رکھتے ہیں۔ جو سب کچھ جانتے ہیں۔ پر جو اندھے بہرے ہیں۔ اس کا وہ سب کہا وندر نے سنا ہے۔ وندر اس کے نام پر اپنی آنکھیں جھکا لیتا ہے۔ اسے روڈوں پر گھسیٹا گیا، پر کیچ کے پہاڑ اپنی تمام تر چوٹیاں اس کے نام کرچکے ہیں۔ کیچ کے پہاڑوں نے اپنے دامنوں میں اس کے نام کے پھول کھلائے ہیں جو اس کے نام کی طرح سرخ ہیں!
دیس نے اپنی دھرتی اس کے نام کی ہے
پسنی نے اپنے ساحل پر اس کا نام لکھا ہے”سمی!“
گوادر کا نیلگوں پانی اس کے پیر چومنے کو بے قرار ہے!
اب کی بارشیں اس کے نام پر برسیں گی
اور ان بارشوں سے پہاڑوں کی چوٹیاں گلال رنگ کی بہ بوٹیاں محبت میں اگ آئیں گی۔
دھرتی کے تمام سرخ رنگ اس کے نام!
دھرتی کے تمام گلال رنگ اس کے نام!
وہ جو کہنا چاہتی ہے وہ کہہ چکی ہے
اور جو سننا چاہتے ہیں وہ سن چکے ہیں
پہاڑوں میں اس کی صدائیں گونج رہی ہیں
چاند اسے محبت سے تک رہا ہے
اور سورج شرما رہا ہے
اس نے بہت ہی چھوٹا دیا جلایا تھا
اس دیے نے سورج کو جلا کر راکھ کر دیا ہے
وہ شہیدوں کی وارث ہے
وہ ہمت ہے وہ حوصلہ ہے
وہ کئی مریموں کو مسافر ہونے سے بچائے گی
وہ کئی یسوعوں کو مصلوب ہونے سے بچائے گی
اس نے دیس کی صلیب اپنے کاندھوں پر اٹھا لی ہے
اس کے کاندھے شل ہیں
پر وہ باقی کاندھوں اور دلوں میں
نئے پھول کھلا گئی ہے
جب وہ واپس پہنچے تو
اس کے ماتھے پہ بوسہ دو!
اس کے پیر دیس کی دھرتی چومیں گے
اس کے دامن کو محبت سر وندر چوم لے گا
اس کے پیروں کے لیے دیس کا ساحل
اور نیلگوں پانی بے قرار ہیں
بس تم
اس کے ماتھے پہ بوسہ دو!
وہ شال کی گلیوں کی سسی ہے!

اپنا تبصرہ بھیجیں