شہید حمید بلوچ کی 43 ویں برسی اور برصغیر میں آزادی پسندوں کے چند تلخ واقعات

تحریر: محمد صدیق کھیتران
کابل یونیورسٹی میں انجینئرنگ کا 22 سالہ بلوچ طالب علم 1980 کو چھٹیاں گزارنے واپس تربت آیا۔وہ حسب عادت اپنے گاوں دشت کنجدی سے نکلا اور مکران کے سب سے بڑے شہر تربت پہنچا۔صبح کا وقت تھا۔تربت کے مشہور ریسٹ ہاوس کے گراونڈ میں نوجوانوں کی لمبی لمبی قطاریں کھڑیں تھیں۔یہ نوجوان عمان کے کرنل خلفان کی نظر کرم کے منتظر تھے۔کہ شاید ان کو اس گروپ کی طرف کھڑے ہونے کا اشارہ مل جائے۔جن کے چہروں پرنسبتا” بھرتی کے امکانات روشن تھے۔کرنل کی نظر کا بظاہر میعار جوان لڑکوں کے سڈول مضبوط جسم اور چہرے کی سختی پر تھا۔ ان دنوں عمان میں بھی ظفاری قوم کی آزادی کی تحریک چل رہی تھی۔ جس کو کچلنے کیلئے عمان فوجی بھرتی یمن اور بلوچستان سے کرتا تھا۔ دنیا میں کمیونسٹ بلاک قومی آزادی کی تحریک کے پشت پر کھڑا تھا۔ یمن کے ایک حصے پر الگ کیمونسٹ حکومت تھی۔ بلوچستان میں اس عشرے میں شورش چل رہی تھی۔ بھٹو نے نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کو برخواست کرکے تمام مرکزی قیادت کو حیدرآباد سازش کیس میں قیدی بنا لیاتھا۔ بی ایس او، پشتون اسٹوڈنٹ فیڈریشن اور نیشنل عوامی پارٹی مسلح جدوجہد کررہی تھی۔ اسی انتخابات کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہوکر بنگلا دیش بن چکا تھا۔ دنیا میں پہلی دفعہ اکثریت نے اقلیت سے جان جھڑوانے کیلئے جنگ لڑی۔ ہندوستان کی فوج ٹینکوں اور طیاروں کے ساتھ ڈھاکہ پہنچ گئی۔ 90 ہزار فوجی قیدی بنالیے گئے۔ مکتی باہنی مسلح تنظیم نے ملک کا کنٹرول سنبھال لیا۔ 23 سال کے اندر اندر بیزار ہوکر دو قومی نظریے اور نام "پاکستان” کو اقلیت کے سپرد کرکے اپنی علیحدہ راہ اپنا لی۔ اسی ستر کی دہائی میں بھٹو کی جمہوریت نے دوسری فوج کشی بلوچستان پر کردی تھی۔ جب شیخ مجیب الرحمان کو گرفتار کرکے لاہور لاکر قید تنہائی میں رکھا گیا۔ تو اس پر تشدد کیا گیا۔ تو اس نے تشدد کرنے والے پولیس اہلکار کو کہا بھٹو کو پیغام دے دو۔ مجھ سے فارغ ہونے کے بعد یہ تجھے دفنائیں گے۔
خیر وہ بلوچ نوجوان بھی عمان فوجی بھرتی کی ایک قطار میں کھڑا ہوگیا تھا۔ جیسے ہی عمانی کرنل ان کے نزدیک سے گزرا اس طالب علم نے جیب سے پستول نکالا اور کرنل پر فائر کیا۔ تاہم کرنل اور دیگر عملہ محفوظ رہا۔ ملک میں جنرل ضیا کا مارشل لا پہلے سے چل رہا تھا۔ صوبہ بلوچستان میں ان کے سمدھی جنرل رحیم الدین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر تھے۔ حمید بلوچ کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کیخلاف قتل کی ایف آئی آر درج کردی گئی۔قتل ہونے والے کا نام غلام رسول بتایا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ بنائی گئی۔ جس پر زخم اور جسم کے کسی حصے کے متاثر ہونے کا کوئی حوالہ نہ تھا۔ فوجی عدالت میں مقدمہ چلا۔دوران مقدمہ کہا گیا کہ ایف آئی آر میں مقتول کا نام غلطی سے کچھ اور لکھوایا گیا۔ اصل نام عبدالرزاق ہے۔ مقدمے کی گواہی کے دوران عبدالرزاق کے والدین عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے تسلیم کیا ان کا بیٹا زندہ سلامت ہے۔ پھر دوبارہ کہا گیا کہ قتل ہونے والے کا وہی نام ہے جو ابتدائی رپورٹ میں درج ہے۔ بہرحال فوجی عدالت نے 24 اکتوبر 1980 کو طالب علم حمید بلوچ کو سزائے موت سنا دی۔ عام تاثر تھا کہ فوجی حکومت ہر حال میں اس حمید کو پھانسی چڑھانے پر بضد ہے۔ ان دنوں حبیب جالب بلوچ بی ایس او کے چیئرمین ہوا کرتے تھے۔ بی ایس او کے طلبا نے ملکر تربت جیل کی دیوار کو بم سے اڑا کر حمید کو فرار کرانے کی کوشش بھی کی مگر منصوبہ ناکام ہوا۔ حکومت نے جلدی میں حمید بلوچ کو مچھ جیل منتقل کردیا۔ ادھر حمید بلوچ کے خاندان نے ملٹری کورٹ کے فیصلے کو بلوچستان ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔ بلوچستان ہائیکورٹ کے چیف جسٹس خدا بخش مری نے ایف آئی آر، چالان اور ناقص پوسٹ مارٹم رپورٹ کی بنیاد پر پھانسی پر عملدرآمد کو روک دیا تھا۔ اسی دن مارشل لا ایڈ منسٹریٹر جنرل رحیم الدین میڈیا پر آئے اور اعلان کیا کہ حکومت فوجی عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد کراوئے گی۔ اس پر حمید بلوچ کے وکیل مبشر قیصرانی واپس ہائیکورٹ پہنچے اور حکومتی ارادوں پر اپنے خدشات ریکارڈ میں لائے۔ چیف جسٹس خدا بخش مری نے نئے آرڈر جاری کیے کہ اگر جلدی میں 22 سالہ طالب علم کو پھانسی کی سزا پر عملدرآمد کیا گیا تو جیل کے عملے کیخلاف مقدمہ چلایا جائے گا۔ مجبور ہوکر فوجی حکومت کو مارچ 1981 میں عبوری آئین نافذ کرنا پڑا۔ ملک میں ہمیشہ کی طرح بہت سارے ججوں کی خدمات دستیاب تھیں۔ جن کو مارشل لا کی وفاداری کا حلف دے کر انصاف کی مسند پر بٹھایا گیا جبکہ جسٹس خدا بخش مری سمیت متعدد ججوں کیلئے عدالتوں کے راستے بند کردیے گئے۔ یوں 11 جون 1981 کو نوجوان طالب علم حمید بلوچ کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ دنیا میں کسی نے نہیں رہنا۔ بھٹو، ضیا، غوث بخش بزنجو، رحیم الدین اور وہ جج سب چلے گئے ہیں۔ البتہ اس سال 2024 میں عدالت عظمیٰ نے اپنے ایک حکم میں تسلیم کیا کہ بھٹو کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ کیا کبھی حمید شہید کے بارے میں بھی عدالتی فورم کوئی ایسا فیصلہ کرپائیں گے؟؟
جاری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں