عدالت نے پی ٹی اے کو ٹیلی کام کمپنیوں کو صارفین پر نگرانی کا نظام نافذ کرنے سے روک دیا

اسلام آباد (انتخاب نیوز) گزشتہ ماہ، سابق وزیراعظم کی اہلیہ بشریٰ عمران خان کی غیر قانونی سرویلنس سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران اسلام آباد ہائی کورٹ کو معلوم ہوا کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ٹیلی کام کمپنیوں کو شہریوں کے ڈیٹا کی بڑے پیمانے پر نگرانی کے قابل بنانے والا نظام خریدنے، امپورٹ کرنے اور نصب کرنے کا حکم دیا تھا۔ عدالتی دستاویزات کے مطابق لا فل انٹرسپٹ مینجمنٹ سسٹم (LIMS) کے نام سے جانا جانے والا یہ نظام نجی پیغامات، ویڈیو، آڈیو مواد، کال ریکارڈز، اور ویب براﺅزنگ ہسٹری تک رسائی کی اجازت دیتا ہے۔ 26 جون کے حکم نامے میں، جسے اتوار کے روز جاری کیا گیا، اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار نے لکھا کہ LIMS کو ’نامزد ایجنسیاں‘ نگرانی کے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہیں۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ہدایت کے تحت ٹیلی کام کمپنیوں کو اپنے 2 فیصد صارفین پر سر ویلنس کی سہولت فراہم کرنا ہوگی، جس سے ممکنہ طور پر بیک وقت 40 لاکھ سے زائد شہری متاثر ہوسکتے ہیں۔ جسٹس بابر ستار نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ بڑے پیمانے پر نگرانی میں قانونی بنیادوں کا فقدان تھا اور اسے عدالتی یا انتظامی نگرانی کے بغیر چلایا جا رہا تھا، جبکہ LIMS نے ایجنسیوں کو ایس ایم ایس، کال ڈیٹا اور انکرپٹڈ ڈیٹا تک رسائی کی اجازت دی، لیکن اس نے انکرپٹڈ ڈیٹا کے لیے آٹو میٹڈ ڈیکرپشن فراہم نہیں کیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے مطابق، ایک ’نامزد‘ قانون نافذ کرنے والی ایجنسی صارف کے ڈیٹا کے لیے ٹریک اور ٹریس کی درخواست شروع کرتی ہے۔ اس کے بعد درخواست خودکار طریقے سے LIMS کے ذریعے جاتی ہے، جس کے بعد ٹیلی کام نیٹ ورک پر دستیاب شہری کے ایس ایم ایس اور کال ڈیٹا جیسی نجی معلومات ایجنسی کو واپس بھیج دی جاتی ہیں۔ عدالتی دستاویزات نے انکشاف کیا ہے کہ ’اس طرح کی نگرانی کے ذریعے صارفین کی طرف سے کی جانے والی آڈیو کالز کو بار بار سنا جا سکتا ہے اور ان کے ایس ایم ایس پڑھے جاسکتے ہیں۔ صارفین کی ڈیوائسسز کے ذریعے تیار کیے گئے آڈیو اور ویڈیو مواد اور صارفین کے ذریعے براﺅز کیے گئے ویب پیجز کی تفصیلات کا نہ صرف جائزہ لیا جاسکتا ہے بلکہ اسے محفوظ بھی کیا جا سکتا ہے‘۔ فی الحال، اسلام آباد ہائی کور ٹ نے عارضی طور پر ٹیلی کام کمپنیوں کو LIMS کو اپنے نیٹ ورکس تک رسائی دینے یا صارفین کا ڈیٹا حاصل کرنے سے روک دیا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو مزید ہدایت کی کہ وہ ایک سربمہر رپورٹ میں تفصیلات درج کرے کہ کس طرح لافل انٹرسیپشن مینجمنٹ سسٹم کو حاصل اور انسٹال کیا گیا، اس کا انتظام کیسے کیا جاتا ہے اور وہ کون سے ادارے اور افراد ہیں جن کے پاس اس تک رسائی ہے اور وہ اسے حاصل کر چکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں