کیا بلوچ مسئلے کا حل معاشی پیکیج سے ممکن ہے ؟
تحریر : محمد صدیق کھیتران
انگریز نے 1920 میں درہ بولان اور شیلاباغ کے سنگلاخ پہاڑ چیر کر ریلوے سرنگیں بنائیں۔آج کا بے حیا انجنیئر ، سیاستدان اور بیوروکریٹ کوئی ایک کلو میٹر ڈھنگ کی سڑک نہیں بنا سکا۔سارا قصور پنجاب اور اسلام آباد کا ہو نا ہومگر اٹھارویں ترمیم کے بعد بلوچستان کی اپنی مڈل کلاس افسر شاہی کا بھی چہرہ بدصورت بن چکا ہے۔اچھے لوگ ہر سوسائٹی میں ہوتے ہیں۔بدقسمتی ہے ہمارے ہاں ان کا تناسب پانچ فی صد سے زیادہ ہرگز نہیں ہے۔البتہ اسلام آباد ہماری نیم خواندہ افسر شاہی کو اپنی کرپشن کا حصہ بنا کر اس ناتواں اور کمزور سوسائٹی کے شعوری ارتقا کو اخلاقیات سے محروم کر نے میں کامیاب ہوا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے بعد اب تک یہ صوبہ چار ہزار ارب روپے کاغذوں پر خرچ کر چکا ہے۔ مگر پھر بھی حالت یہ ہے کہ 1999 میں بلوچستان میں غربت 41 فی صد تھی اس دور میں صوبائی بجٹ 2 سو ارب ہوا کرتا تھا ہے۔آج غربت 76 فی صد ہے جبکہ سالانہ بجٹ 9 سو ارب روپے ہے۔ فیڈرل پی ایس ڈی پی، غیر ملکی امداد سے چلنے والے منصوبے، دفاعی ڈھانچے کی سرمایہ کاری اور انٹر نیشنل این جی اوز کے پروجیکٹس پر سرمایہ کاری ان کے علاوہ ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود بلوچستان میں ہر طرف انتشار ہی انتشار ہے۔وزیراعلئی کی ایک بات وزن ضرور رکھتی ہے۔جس طرح جمہوریت کا یہاں حال کردیا گیا ہے۔اور جو ماڈل گورننس کا متشکل ہوچکا ہے۔اس میں بہتری کی کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی ہے۔ حل یہ ہے کہ کرپٹ اور سماج دشمن عناصر کو پولیٹیکل دھارے سے نکال باہر کرنا ہوگا۔لوٹی ہوئی دولت واپس کرانی ہوگی۔وگرنہ اس بگاڑ سے باہر آنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی۔اب باہر سے خیرات نہیں ملا کرے گی۔بد امنی اور حکومتی رٹ ٹوٹ پھوٹ چکی ہے۔کرپٹ سیاستدانوں کی سربراہی میں چلنے والا بلوچستان اس وقت آتش فشاں بن چکا ہے۔اس کا حل کوئی امدادی پیکیج ہرگز نہیں ہے۔ایک طرف غربت، نفرت، ہیجان خیزی،افراتفری ،انتشار اور سب سے بڑھ کر پاکستان کے اپنے اندرونی سیاسی اور معاشی مسائل ہیں۔ تو دوسری طرف چین،ہندوستان، امریکہ، مشرق وسطئی اور خا ص کر اسرائیل و ایران کا بڑھتا تنازع ہے۔اس تنازع نے بلوچ بیلٹ کو پوری دنیا کی توجہ کا مرکزنگاہ بنا دیا ہے۔موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے پہلے ریڈیو خطاب میں کہا تھا۔ مستقبل کی جنگ کا مرکز بحیرہ عرب ہوگا۔ایسے میں تازہ واقعات سے بلوچستان کی جیو اسٹریٹجیک پوزیشن کے اندیشے مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ 7 اکتوبر 2023 کو جب اسرائیل پر حماس نے حملہ کیا تھا تو اس وقت راقم نے لکھا تھا کہ یہ تنازع جلد یا بدیر بلوچستان تک پہنچ جائے گا۔جس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ یہاں پر چلنی والی شورشوں کا تعلق عالمی ساذشوں سے ہے۔بلوچ عوام میں عورتوں،بچوں،عام چرواہوں،طالب علموں، متوست طبقوں کے نوجوان پڑھے لکھے لوگوں سمیت سردار عطا اللہ مینگل کے بیٹے ،نواب خیر بخش کے بیٹے،نواب نوروز خود اور انکے بیٹوں، نواب اکبر بگٹی خود ، چیئرمین غلام محمد بلوچ ، چئیرمین بانک کریمہ سمیت مکران کے ہزاروں بیٹوں اور بچیوں نے اپنی اپنی زندگیاں قربان کردی ہیں۔تیسری دھائی میں رواں حالیہ شورش کے اندر فریق دوئم کے کیمپ سے بھی کئی ہزار افراد بشمول فوجی، پولیس اور لیویز کے سپاہی،سرکاری اہلکار، محنت کش، اساتذہ اور حتیٰ کہ نوابوں کے بچے بھی مارے گئے ہیں۔قدیم کہاوت ہے۔دنیا میں کوئی ایسا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا جس کا حل اس مٹی میں موجود نہ ہو۔جبکہ جنگ و جدل بذات خود کسی مسئلے کی بدنما اور گھمبیر صورت ہوتی ہے۔ مگر انسانی تاریخ ازل سے بتاتی ہے ہر جنگ کا حل آوٹ آف بکس تھنکنگ سے نکالا جاتا ہے۔بلوچستان کے مسئلے کے حل میں اگر پیشرفت لانی ہے۔تو اس کا حل ماضی کے پیپلز پارٹی کے بلوچستان پیکیج سے نکلا تھا اور نہ ہی آج کی حکومت کے تازہ پیکیج سے نکلے گا۔بدقسمتی یہ ہے کہ بلوچ مسئلے کو سنجیدہ ہی نہیں لیا جارہا ۔اس طرف اگر جانا ہے تو 1940 کی قرار داد کو ری وزٹ Re-visit کر لیں ۔ ان نقاط سے شروع کریں تو شاید اپنے ہاتھوں سے لگائی گئ گانٹھیں کھلنا شروع ہو جائیں گی ۔