بلوچستان اور میڈیا
تحریر: نصیر عبداللہ
امریکی نامور اخبار کے نمائندےان شخصیات میں سے ہیں جن کے کام سے میں کافی متاثر ہوا ہوں۔ کچھ دن پہلے ان سے بات ہوئی، مجھے توقع تھی کہ وہ مجھے صحافتی حوالے سے رہنمائی فرمائیں گے لیکن اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ پوچھتا انہوں نے مجھے صحافت چھوڑ کر کسی دوسری فیلڈ میں جانے کا مشورہ دیا۔ مجھے افسوس کے ساتھ ساتھ تعجب بھی ہوا۔ تعجب اس بات پر ہوا کہ جس شخص کو آپ اپنا رول ماڈل سمجھتے ہوں اور وہی آپ کو فیلڈ میں آنے سے منع کردے تو یقینا تعجب تو ہوگا ہی۔
میں نے بضد یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ لکھنا میرا بچپن سے ہی شوق رہا ہے اور میں نے اس فیلڈ میں کافی کام کیا ہے۔ اس لیے آپ یہ کہنے کے بجائے کہ صحافت چھوڑ دیں بلکہ میری رہنمائی کریں اور یہ پہلی بار تھا کہ شاید کسی نے مجھ سے پوچھا ہو کہ آپ نے کتنا پڑھا ہے؟ میں نے اکثر و بیشتر یہ بات چھپانا چاہی یا شاہد بتانا ضروری نہیں سمجھا وہ اس لیے نہیں کہ میں ایف ایس ای سیکنڈ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا اور حال میں سیکنڈ ایئر کا امتحان دے چکا تھا۔ کیونکہ میری عمر کے مطابق میرا تعلیمی سلسلہ مناسب ہے۔ وہ الگ بات ہے کہ حالات اور وقت نے مجھے کم عمری سے ہی سنجیدہ شخصیت کے لبادے میں ڈھال دیا۔ کوئٹہ آنے سے قبل میں کافی عرصہ تعلیمی سلسلے میں کراچی میں وقت گزار چکا تھا، اپنے آبائی علاقے آواران میں کچھ عرصہ گزارنے کے بعد میں نے مزید تعلیمی سرگرمیوں کے لیے کوئٹہ کا انتخاب کرلیا۔ اس سے قبل اسلام آباد میں میڈیا کے حوالے سے ایک ورکشاپ میں شرکت کی۔ وہاں بلوچستان اور میڈیا کے حوالے سے ایک مضموع مقرر تھا جو موجودہ صورتحال سے بالکل مطابقت رکھتا ہے۔ ہمارے ایک ٹرینی نے بتایا کہ کنفلکڈ زون میں میڈیا تابعداری کو ترجیح دےکر زندہ رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صوبے میں آپ کو ڈمی اخبارات کا ہجوم نظر آئے گا لیکن ان کے اوراق پلٹیں تو آپ کو بلوچستان پیرس نظر آئے گا۔ اور یہ بات سو فیصد درست ہے۔ کوئٹہ آنے سے قبل میں نے سوچا تھا کہ کوئٹہ پریس کلب جاکر سینئر صحافی استادوں سے رہنمائی حاصل کرلوں گا یہاں آکر معلوم ہوا کہ وہ تو خود زنجیروں میں ایسے جکڑے ہوئے ہیں کہ شاید صحیح رہنمائی بھی نہیں کرسکتے۔ دکھ اس بات کا ہوا ہے جب مسنگ پرسنز کا احتجاج پریس کلب کے باہر جاری تھا اور پریس کلب میں صحافی بیٹھے چائے کی چسکی لے رہے تھے جب میں نے وہاں موجود ایک صحافی سے پوچھا کہ یہاں کوئی لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے نکالے گئے مظاہرے کو کوریج کیوں نہیں دیتا ان کا جواب دل افسردہ کرنے والا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ لاپتہ افراد کے احتجاج کو کوریج دینا ایسے سمجھ لو کہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کرنا ہے اور ہم میں سے کسی میں ایسی طاقت نہیں کہ ہم ریاست کی رٹ کو چیلنج کریں۔ یہ الفاظ کسی عام شخص کے نہیں بلکہ ایک سینئر صحافی کے تھے۔ مجھے کچھ دن پریس کلب کے چکر لگاتے یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جس سچائی کی مجھے تلاش ہے وہ یہاں دستیاب نہیں، اس لیے میں نے پریس کلب جانا کم کردیا۔
بلوچستان کے اخبار روزنامہ انتخاب کے اشتہار حکومت نے بند کردیے لیکن پھر بھی ان کے حوصلے پست نہیں کرپائے۔
ایک صحافی نے بھی یہی مشورہ دیا کہ اگر پیسے کے لیے صحافت میں آنا چاہتے ہو تو مت آﺅ اگر یہ آپ کا فیشن ہے تو ضرور اس فیلڈ میں آئیں اور کام کریں۔ بہرحال کوئٹہ آنے سے قبل توقعات زیادہ تھیں کہ سینئر استادوں سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا اور وہ میری رہنمائی فرمائیں گے لیکن میں غلط تھا۔ جتنے بھی بڑے بڑے نام ہیں سب نے فیلڈ کو برا بھلا کہہ کر فیلڈ چھوڑ دینے کا مشورہ دیا لیکن رہنمائی کرنا نہیں چاہا۔ صحافتی میدان میں کچھ ایسے بھی بڑے نام ہیں جن کا نام لینا میں یہاں مناسب نہیں سمجھتا ان کا بھی یہی موقف تھا۔
میری تو خیر ہے خود کو اس ڈیجیٹل دور میں اس کم عمری میں اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ خود کو معاشی و صحافتی یا دیگر حوالے سے مضبوط کرلوں گا لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ فیلڈ میں آنے والے ہر نوجوان کو مایوس کرکے وہ کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ کیا ان کو اپنی اجاراہ داری قائم نہ رہنے کا خطرہ لاحق ہے۔
تبدیلی کو قبول کرکے خود کو جدید دور میں ڈھال دیں اس سے آپ کو کسی سے خطرہ لاحق نہیں ہوگا۔ تبدیلی کبھی نہ رکی ہے اور نہ رکے گی۔
بلوچستان میں اس وقت حقیقی صحافی چند ایک گنی چنی تعداد میں ہیں۔ جن کو ہم اور آپ سب جانتے ہیں جو مسنگ پرسنز کے مسئلے پر بھی بولتے ہیں۔ پروفیسر منظور بلوچ صحیح فرماتے ہیں کہ اگر پریس کو بلوچ کے جینوئن مسئلے سے کوئی سروکار نہیں تو ہمیں اپنے صوبے میں ایسے پریس کی ضرورت نہیں جو صرف فنڈز کے خاطر قائم کردیے گئے ہوں۔