شہید نواب اکبر خان بگٹی
ثناء بلوچ
جس طر ح آپ جانتے ہیں نواب اکبر خان بگٹی صاحب بلوچستان کے سابقہ وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں ۔اس معزز ایوان کے رکن رہ چکے ہیں کئی مرتبہ۔بلوچستان کے سابقہ گورنر ر ہ چکے ہیں۔وفاقی وزیر مملکت بھی رہ چکے ہیں۔12جولائی1927ء کو ان کی پیدائش ہوئی ۔جب وہ 20سے 22سال کے تھے۔خوبصورت جواں سال جب پاکستان کا قیام عمل میں آرہا تھا تو اس وقت قائداعظم محمد علی جناح صاحب جب بلوچستان تشریف لائے ائیر پورٹ پر استقبال کرنے والوں میں ان کی وہ وجاہت،ان کی وہ شخصیت کی تصویر ابھی تک میرے خیال انٹر نیٹ،سوشل میڈیا سب کے سامنے ہیں۔بڑی خوشی اسلوبی کے ساتھ ،خوش مزابی کے ساتھ،ایک اچھے طریقے سے قائد اعظم محمد علی جناح کو انہوں نے خوش آمدید کہا۔جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو بڑے شروع سے ہی پاکستان کے سیاسی،جمہوری معاملات میں انہوں نے بہت کلیدی کردار ادا کیا۔ان کی حسب توفیق جہاں تک ان کی رسائی تھی اپنے علاقے کی معاملات میں ۔جب 1952-53کے بعد جب سوئی سے گیس نکلنا شروع ہوا اس وقت سے لے کر پھر بعد ازاں تسلسل کے ساتھ مسائل رونما ہوتے رہے۔اور یہ مسائل بلوچستان کے سیاسی بھی تھے،بلوچستان کے معاشی بھی تے ان مسائل کی بنیاد پر وفاق کے ساتھ ان کا ہمیشہ جو کچھ تلخیاں رہتی تھیں کہ بلوچستان کو اس کا Constitution due shareمیں دیا نہیں جارہا تھا پہلے تو 1956ء کا Constitution تھا اس میں ہمارے گیس کے حوالے سے کوئی اچھی ہمیں جو ہمارا حق بنتا تھا وہ ہمیں نہیں ملا اس کے بعد 1962 Constitutionاور جب1973- Constitutionبنا جس میں guaranteesتھیں تو ان guaranteesاور تحفظات کی بنیاء پر جناب والا وزیراعلیٰ ایک اچھے ایڈمنسٹریٹر تھے۔ایک ان کی وجاہت اور ان کی شخصیت کو بلوچستان کی تاریخ میں ہمیشہ اسکو یاد رکھا جائے گا ۔مجھے یاد ہے جب2002-2003میں جب جنرل مشرف ایک آمر پاکستان پر مسلط ہوئے تو انہوں نے پورے بلوچستان کا وطیرہ تھا کہ پورے بلوچستان کے تمام سیاسی شخصیات نے جس میں سردار عطاء اللہ مینگل صاحب،نواب خیر مری صاحب ہوں۔نواب اکبر بگٹی خان صاحب ہوں،محمود خان اچکزئی صاحب ہوں یا بلوچستان کے دیگر قوتیں جن میں بزنجو فیملی کے لوگ تھے۔ڈاکٹر مالک تھے کسی بھی جمہوری لوگوں نے آمریت کی کبھی بلوچستان میں حمایت نہیں کی تو جب آمریت کا یہ دور آیا تو اس وقت بلوچستان میں تاریکیاں بڑھ گئیں۔بلوچستان گھٹن بڑھ گیا۔بلوچستان کے معاملات جو سمجھنے کی بجائے الجھانے کی کوشش کی گئی اسلام آباد میں کچھ ایسے لوگ آئے وہ بلوچستان کے لوگوں کو جانور سمجھ کر وہ چاہتے تھے کہ بلوچستان کی تمام زمین فتح کرلیں گے۔بلوچستان کے تمام خزانے اپنے ساتھ لیں گے بلوچستان کی تمام تیل اور گیس کے وسائل ہمارے ہوجائیں گے ہم سمندروں پر اپنا راج کریں گے تو جب بلوچستان کے جمہوریت پسند شخص نے پاکستان کے لئے اس وفاق کے لئے پاکستان کی سیاست میں اتنی قربانی دی ہوں ۔عمر کے آخر ی حد پر پہنچ کر جب وہ دیکھتا ہے کہ میری قوم کے ساتھ یہ زیادتیاں ہورہی ہیں ۔جناب والا ! انہوں نے جمہوری احتجاج کی۔میں اس وقت اس احتجاج کا حصہ تھا جب چار جماعتی ہماری اتحاد بنی۔میں ممبر تھا سینیٹ آف پاکستان کا 2003ء میں جب بلوچستان میں حالات خراب ہوئے تو ایک کمیٹی آئی بلوچستان کا دورہ کرنے کے لئے۔پھر ہم نواب اکبر بگٹی صاحب سے ملے اور اس میں یہ طے پایا کہ جناب والا! اگر اسلام آباد بلوچستان کے معاملات کو سلجھانا چاہتا ہے اصلاح احوال کے لئے گزشتہ بد عہدیوں کو ،بے وفائیوں کو بلوچستان سے کئے گئے وعدوں کو اگر وہ دبانا چاہتے ہیں ہم ان کو اپنے معاملاتConstitutional,politicalyاور پارلیمانی طریقے سے ان سے بات کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اس وقت جناب والا ستمبر2004ء میں بلوچستان سے متعلق ایک اسپیشل کمیٹی بلوچستان کی بنی میں اس کمیٹی کا رکن تھا جو اسپیشل کمیٹی بنی بلوچستان کے current Issuesپر نواب اکبر بگٹی کو ہم آج تک ہم نے نہیں دیکھا کہ وہ کسی کو یہ کہے کہ آپ ہتھیار اٹھائیں۔کسی کو یہ کہے کہ جی آپ جا کر لڑائی لڑیں،وہ ہمیشہ تعلیم پر جمہوری انداز میں جو ہے بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد کرتے آرہے تھے ۔جب ہم 2004میں میں اس کمیٹی کا حصہ رہا اس کا جو Terms of reference تھا وہ یہی تھا کہ جناب والا بلوچستان کے تمام مسائل تین مہینے کے اندر اس پر recommendationبن جائیں گی جب تین مہینے کا وقت گزرا ۔جب م نے دیکھا انہوں نے recommendations,یا سفارشات مرتب نہیں کیں تو میں اس سے استعفیٰ دیدیا How a was the architectبلوچستان پر بننے والی کرنٹ کمیٹی کی یہ پہلی ڈاکومنٹ ہے ڈرافت ڈاکومنٹ جو ابھی تک میں نے ریکارڈ میں رکھا ہوا ہے میں ابھی شرف تھوڑی کچھ اچھی چیزیں آپ کو بتائونگا وہاں سے ایک معزز اسمبلی ابھی اٹھ کر بجلی کا رونا دونا دے رہے ہیں آج سے چودہ پندرہ سال پہلے نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت ہوئی ان چودہ سالوں میں کمیٹی کی وہ ورپورٹ بعد ازاں بلوچستان پیکج کے نام پر ہمارے ساتھ دھوکے،بلوچستان میں جو ساری چیزیں ہوئی وہ آج تک جناب والا اپنی جگہ34 پر برقرار ہے۔ نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرنے والوں نے یہ کہا کہ جناب والا! یہ سردار، یہ نواب ، یہ بلوچستان کے سیاسی جمہوری لوگ یہ بلوچستان کی ترقی نہیں چاہتے۔ ہم تو بلوچستان کے یہ چار پانچ ، سر جو ہیں وہ کاٹ کر اْس کے بعد یہاں خوشحالی کے کھیتیں اْگائیں گے۔ ہم یہاں یونیورسٹیوں کی لائنیں لگا دیں گے۔ ہم یہاں کے نو جوانوں کو دنیا کے بہترین روزگار فراہم کریں گے۔ ہم بلوچستان کی گلی کوچوں میں گیس بھیجیں گے۔ ہم بلوچستان کے ہر جو نپڑیوں میں بجلی دیں گے۔ لیکن آج معزز رکن اسمبلی وہاں سے بھی اْٹھا ہوا ہے حکومتی ارکان ہے۔ آج بلوچستان ایک واحد صوبہ ہے۔ بجلی تو اپنی جگہ ہے جناب والا! گیس جو 54-1953 ء سے نکلتا ہے۔ آج بلوچستان کی گیس بلوچستان کے لوگوں کو میسر نہیں ہے۔ سوئی اور ڈیرہ بگٹی کے لوگ گیس سے محروم ہیں۔ جو معاہدے ہوئے وہاں کے نو جوان روزگار سے محروم ہیں۔ تو کہنے کا مطلب یہ ہے جناب والا! ریاستوں میں، جمہور یہ ممالک میں آج بلوچستان میں جو احساس مایوسی ہے۔ آج بلوچستان میں جو گھٹن ہے۔ آج آپ کو بلوچستان کے نوجوان جو سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں جناب والا! قوموں کی سیاست میں اْمید کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ کچھ چیزیں ہوتیں ہیں جو بڑی ٹیکنیکل ہوتی ہیں۔ political ہے۔ administrative ہے۔ سوشل ہے۔ لیکن کچھ ہے related administrativeہے۔ related security ہے۔ اْنکا psychology سے بڑا تعلق ہوتا ہے۔ بلوچستان کے عوام ہر پندرہ سال میں ایک نئی اْمید باندھتے ہیں۔ کہ بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے حل کیا جائیگا۔ بلوچستان میں اگر کوئی خون خرابہ ہوا ہے۔ تکلیفیں ہوئی ہیں مشکل ہوا ہے۔ شہادتیں ہوئی ہیں۔ تو بلوچستان کی لوگوں کو اْنکے گن گشتہ حقوق ملیں گے۔ یہ جو امید بنتی ہے ہر دس پندرہ سال کے بعد۔ جب وہ اْمید ٹوٹتی ہے تو جناب والا! آپ کو نظر آتا ہے کہ، یہ اندھیرے جو ہوتے ہیں۔ تو ان میں آپ کو شمعیں جلائے ہوئے نو جوان سڑکوں پر نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں اْمید دم توڑ رہا ہے۔ اور جب اْمید دم توڑتی ہے تو اْس کے بعد سب سے تکلیف دہ مراحل شروع ہوتے ہیں۔ امید انسان کو جوڑ کر رکھتا ہے ریاست کے ساتھ۔ سیاست کے ساتھ۔ شخصیت کے ساتھ۔ آپ کے حلقے کے لوگوں نے ایک اْمید کے ساتھ آپ کو منتخب کیا۔ میرے حلقے کے لوگوں نے مجھے ایک اْمید کے ساتھ منتخب کیا۔ ان سب کو آج بلوچستان میں پسماندگی۔ بھوک ، پیاس ، افلاس بجلی کی عدم دستیابی۔ اسکولوں کی عدم دستیابی۔ ادویات کی عدم دستیابی۔ بڑھتی ہوئی بے روزگاری۔ دہشت خوری۔ بھتہ خوری۔ چیک پوسٹ بنانار پبلک بن گیا ہے۔ اسے ریپبلک بنانا جہاں انسانوں کو اپنے جان و مال کا تحفظ نہ ہو جناب والا! اْمید دم توڑ دیتا ہے۔
جب اْمید دم توڑ دیتا ہے خدانخواستہ پھر حالات خراب ہوتے ہیں۔ ہم بار بار جب چیزوں کو لانا چاہتے نے ہیں اس فورم پرکیونکہ بلوچستان میں کوئی اور تو کبھی گرینڈ جرگہ یا لوئے جرگہ نہیں ہو گا۔ بلوچستان کا اثاثہ اْس کی یہ اسمبلی ہے۔ اصلاح احوال کیلئے ہم اسلام آباد کو۔ اْنکے اداروں کو۔ اْنکے ذمہ داروں کو بلوچستان کے ذمہ دار حلقوں کو سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان سے مسلسل وعدے کیئے جارہے ہیں۔ جناب والا! بلوچستان سے متعلقAnonynous Recomnnedation of the Draft committee جو پارلیمانی کمیٹی کی۔ اس میں آٹھ چیزیں تھیں۔ میں صرف تھوڑا سا ، تا کہ اس اسمبلی کے ریکارڈ پر رہے۔ اور یہ نواب اکبر خان بگٹی کے مطالبات تھے۔ ان مطالبات کے بدلے میں ایک سفید ریش۔ ایک معزز قبائلی سردار۔ پاکستان کے لیئے اْنکی خدمات کو مد نظر رکھے ہوئے شہید کرنا کوئی بھی جواز نہیں بنتا تھا جناب والا! اور وہ سلسلہ ابھی تک رکھا نہیں۔ اس کے بدلے میں تو میں سمجھتا ہوں کہ اْنکو تمغہ امتیاز دیا جاتا۔ اْنکو اچھے اچھے دنیا کی تمغوں سے نوازا جاتا کہ ایک قبائلی سردار بلوچستان میں ترقی اور تعمیر کی بات کر رہا ہے۔ میں مسلسل 2003 ء اور 2004 ء میں اْنکے ساتھ فون پر رابطے میں رہتا تھا۔ تو جب یہ بلوچستان کمیٹی کی رپورٹس ہو رہی تھیں اْنکی مہربانی تھی اْنکی محبت تھی اْنکا اعتماد تھا کہ یہ یہ issues ہیں۔ آپ constitution کو سمجھتے ہیں۔ آپ لاء کو سمجھتے ہیں۔ بلوچستان کے چیلنجز کو مجھتے ہیں۔ facts کی basis پر۔ figures کی بنیاد پر شاء صاحب ہم اْسکے اولاد تھے ہم نے آج تک اْنکے لب و لہجے میں نہیں دیکھا کہ وہ کسی کے ساتھ جھگڑا چاہتے ہیں۔ ہو گیا۔ ایک سانحہ ہوا بلو چستان میں۔ اْس سانحہ کے بعد آج مجھے سوئی اور ڈیرہ بگٹی میں دکھا ئیں جناب والا! شہد اور دودھ کی نہری تو نہیں بہہ رہی ہیں سوئی کے نوجوان ، بچے ابھی تک خْدا شاید و واحد ہے ہمارے سب کے علاقوں میں لوگ ابھی تک ایران سے آنے والے وہ ” سل ” جس کو کہتے ہیں۔ blue collour کا ہوتا ہے۔ جس میں پیٹرول اور ڈیزل آتا ہے۔ جس کو صاف کر کے ہمارے سب کے علاقوں میں ابھی تک بلوچستان کے ساٹھ فیصد لوگ جو ہیں وہ ” سل ” سے۔ کنوؤں نوؤں سے اور کئی دور دراز سے پانی بھر کر لاتے ہیں۔ ڈیرہ بگٹی اور سوئی میں تو سب سے زیادہ ہے۔ میں نے تو ایسی صورتحال دیکھی ہے جو تکلیف دہ ہے۔ دیکھ نہیں سکتے کسی کو بتا نہیں سکتے ہیں۔ ابھی تک سوئی کے لوگوں کو گیس نہیں ملی۔ اس میں جناب والا! کچھ اس کے recommendations تھے۔ بعد میں یہ جناب والا !adopt بھی ہوا۔ اس میں سب سے پہلے جو ہم نے رائلٹی اینڈ گیس ڈویلپمنٹ سرچارج پر تھا کہ جناب والا والا ا پندرہ فیصد اس ضلع کو ، اْس علاقے کو ملے گا۔ جہاں سے بلوچستان کو اگر دس ارب روپے مل رہے ہیں۔ ہیں ارب روپے مل رہے ہیں تو اْس کا پندرہ فیصد جو ہے وہ ڈیرہ بگٹی کو جائیگا۔ اور ہم چاہتے ہیں یہ ڈیرہ بگٹی کا حق ہے۔ ڈیرہ بگٹی والوں نے جتنی دیکھیں ہیں۔ جناب والا! یہ انکا حق تھا کہ پندرہ پرسنٹ اس بلوچستان کمیٹی رپورٹ کے بعد جانا چاہیے تھا۔ پنجاب کے بارڈر پر بھوک سے رہنے والے آج پنجاب میں بھیک مانگنے پر مجبور ہونے والے ہمارے مزاری بگٹی۔ یہ ہمارے بلوچ یہ ہم سے سوال کرتے ہیں۔ ہمارے ضمیر کو جھنجوڑتے ہیں۔ سونے اور چاندی کی زمین سے اْٹھ کر برہنہ پاپھٹے پرانے کپڑوں کے ساتھ اسلام آباد کی سڑکوں پر آج کل بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔ اتنی سونے والی زمین کا۔ اور اس کیلئے maximum !یہ کہ سارا۔ اْس کے بعد جناب والا commitment ہوئی تھی۔MIximum Representation Should b Given to the province on the PPL-OGDCL- Sui southern Gass Company میں جناب والا! پچاس فیصد نمائندگی کی بات کی گئی تھی بورڈ میں۔ یہ ساری چیزیں ہم نے introduce کروائیں۔ اسکا فیصلہ ہو گیا تھا۔ اس کے علاوہ جناب والا! پانچ فیصد جو ہے سوشل سیکٹر کی ڈویلپمنٹ پر اس علاقے میں خرچ ہونی چاہیے تھی۔ قلات سے پھر گیس نکلا ہے۔ واشک میں امکانات ہیں کہ گیس نکلیں گے۔ ہم اسی لیئے یاد دلاتے ہیں کہ نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کا سانحہ صرف ایک شخص کی بلوچستان سے محرومی نہیں ہے۔ خداوند و تعالی اْنکو جنت الفردوس میں جگہ دے۔ وہ ویسے ہی شاید اپنی جو ہے وہ زندگی اور عمر میں وہ طبعی موت بھی کر سکتے تھے۔ لیکن قوموں کی تاریخ میں ایسے واقعات اور سانحات جو ہے اْنکو یاد اس لیے کیا جاتا ہے کہ انسان اپنی ماضی پر نظر ڈالتا ہے۔ ماضی بعید پر نظر ڈالتا ہے۔ ماضی قریب پر نظر ڈالتا ہے۔ اور مستقبل کیلئے فیصلے کرتا ہے۔ آج اس !میں جناب والا recommendation میں جناب والا! گیس کی فراہمی۔ یہ
Recommendation is the IS Froum recommendation is the I.S forum بلوچستان اسمبلی کی نہیں ہے۔ recommendations گیس کی فراہمی۔ یہ Joint Committeeبنی تھی بلوچستان کی۔ جس میں تقریباً کوئی ہم ساٹھ کے قریب ممبران تھے۔ جس میں مولانا شیرانی صاحب مشاہد حسین صاحب چوہدری شجاعت پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی کے رضا محمد صاحب اور اسلم بلیدی صاحب شامل تھے۔ جس میں بلوچستان کے کافی معزز۔ مجھے تو آج حیرت ہو رہی ہے کہ آج ہم نوابزادہ گہرام بگٹی کے دادا کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ آج اْسکے ہی اسمبلی کی جو فلور کے سارے دوست ، ساتھی ہیں۔ وہ ادھر سے گئے ہیں وہ اْدھر گئے ہیں۔ جیسے خدانخواستہ ہم کسی دشمن ملک کے رہنما کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ وہ اس وطن کا فرزند تھا۔ اْس نے اس کیلئے۔۔ ( مداخلت۔ آوازیں )۔۔ آپ لوگوں کا شکریہ۔ آپ لوگوں کی مہربانی جو یہاں بیٹھے ہیں میں یہ سمجھتا ہوں ہاں اگر کسی کے ذہن میں یہ گمان ہے۔ میں صرف دو، تین باتیں بتاؤ نگا۔ بلوچستان کی تاریخ میں یہ بڑی چیزیں تھیں۔ جناب والا! گوادر کا issue ہے۔ فیڈرل گورنمنٹ میں representation کا issue ہے۔ پچاس فیصد نمائندگی کا وعدہ گوادر کی جو ہے تمام اتھارٹیز وغیرہ میں کیا گیا تھا۔ اس کے بعد جناب والا ! سوئی اور ڈیرہ بگٹی میں یہ ہمارے ساتھ پورے بلوچستان میں کالجز کا قیام ہے۔ تربیتی ادارے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن ہے گوادر کے زمین کی الاٹمنٹ کے معاملے میں۔ یہ ایک بہت بڑی سڑکیں۔ روز یہاں ہم سڑکوں کے بارے میں روتے ہیں۔ یہ سارے نواب اکبر خان بگٹی کے یہی مطالبات تھے۔ آج سے چودہ پندرہ سال پہلے بلوچستان میں کوئی اْنہوں نے سونا چاندی نہیں مانگا۔ اْنہوں نے نہیں کہا کہ آسمان سے ہمارے لیئے تارے توڑ کر بلوچستان کے لوگوں کے ہاتھ میں دے دو۔ اْس نے یہی کہا تھا کہ یہ سڑکیں۔ اْس وقت بھی یہی صورتحال تھی اور یہ سارا میں پڑھ نہیں سکتا۔ آپ کے پاس وقت کم ہے۔ کوسٹ گارڈ اور ایف سی کے متعلق یہی تھا کہ انکے جو چیک پوسٹس ہیں وہ بارڈر پر نیشنل سیکورٹی کو ensure کریں۔ دہشت گردی تخریب کاری، منشیات کے خاتمے کو ممکن بنائیں۔ ہمارے ادارے ہیں۔ ہماری فورسز ہیں۔ ہمیں اْنکی ضرورت ہے۔ ہم بارڈر پر نہیں جاسکتے۔ اْنکو خدمات کے عیوض انکو وہ سہولیات فراہم کی گئیں ہیں۔ یہ اْس وقت accept ہوئیں یہ ساری چیزیں۔ اس کے علاوہ جناب والا! لیویز کا جو معاملہ ہے۔ آج ہمارے اے این پی کے دوست چلے گئے۔ جنہوں نے کورٹ میں بھی کیس تھا۔ ہم نے بڑی تفصیل کے ساتھ اسلام آباد کے ساتھ مشرف کے سارے دوستوں ، ساتھیوں کے ساتھ بلوچستان کا کیس لڑا۔ میں نے اس پر پوری کتاب لکھی۔ "اے” اور "بی” ایریا کے متعلق۔ ہم نے ایک ایک جو figure تھا facts تھے اْس سے justify کیا۔ سارے اسلام آباد کے بابوؤں کو۔ بادشاہوں کو۔ طاقتور طبقوں کو convince کر دیا کہ لیویز بلوچستان کا جو ہے وہ ایک اثاثہ ہیں اس کو جو ہے جس طرح شیروف امریکہ میں کام کر سکتے ہیں۔ کینیڈا میں ہو سکتے ہیں۔ افریقہ میں جو ہے traditional کابہت recommendation کریں۔ یہ اس کی strengthen ہیں۔ یہ آپ اس کو forces بڑا حصہ ہے دو سے تین صفحوں پر۔ قانون میں زیادتیاں لوگوں کے ساتھ۔ لوگوں کو ٹارچر۔ اسپیشل کوٹے کی بات کی گئی تھی۔ پی پی ایل کی پرائیوٹائیزیشن کی تھی۔ جناب والا! یہ تفصیل کے ساتھ۔ اور آخر میں تھے۔ flaws کے اندر جو Constitution Provincial Autonomoy آگیا تھا constitution کے اندر جو gap تھے۔ جو fault lines تھے۔ ہم نے کنکرنٹ لسٹ کے خاتمے کی بات کی تھی۔ چالیس اور چیالیس کے قریب چیزیں ہم نے اْن کو بتائیں۔ اور آج وہ خوش قسمت لوگ ہیں کہ وہ اٹھارویں ترمیم کے تحت وہ ساری چیزیں ہیڈریس ہوئیں۔ نیشنل فائنانس کمیشن کی بات۔ یہ نواب اکبر خان بگٹی کے ڈیمانڈ نڈ تھے جس کی وجہ سے بلوچستان کو آج سو ، دوسو، ڈیڑھ سو ارب روپے زیادہ ملا۔ تو ہم اس کے باوجود بھی اگر یہ یہ اسمبلی اْس کو خراج عقیدت پیش نہیں کرے۔ میں تو سمجھتا ہوں آج ایک بھی کرسی خالی نہیں ہونی چاہیے۔ ہم انسان ہیں، ہم میں خامیاں ہیں۔ کمی کوتاہی ہر انسان میں ہوتا ہے۔ لیکن جناب والا! جو بزرگ آج جن کی بدولت ہمیں دو چار روپے بلوچستان کو آکر مل رہے ہیں۔ جو یہاں وزراء ڈویلپمنٹ ، نان ڈویلپمنٹ کی مد میں خرچ بھی کر رہے ہیں۔ یہ مرہون منت ہے ہمارے بزرگوں کی۔ جناب والا نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کا واقعہ ہوتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ آپ اپنے دشمن کو بھی اگر اْس کی شہادت کے بعد موت کے بعد عزت دیتے ہیں۔ میں آپ کو صرف بلوچستان کے تین واقعات سْناؤ نگا۔ اصلاح احوال کیلئے اسلام آباد والے کل بھی بادشاہ ہیں۔ بندوق اٹھا کر ہم میں سے کسی بھی مار سکتے ہیں۔ لیکن میں ایک اْنکو واقع ، بتانا چاہتا ہوں ایسا کام نہ کریں کہ تاریخ میں جو ہے وہ لوگوں کے ذہنوں سے نہ نکلیں۔ نواب اکبر خان بگٹی کی تابوت پر لگا ہوا تالا۔ نواب اکبر خان بگٹی کی نماز جنازہ میں لوگوں کو اجازت نہ دینا۔ بلوچستان کے اتنے بڑے باریش اور باوزن قد آور شخصیت کے جنازے کے ساتھ بھی اس طرح کی زیادتی یہ مناسب نہیں تھا۔ میں تو سمجھتا ہوں جس طرح آسٹریلیا میں ” ہبر جنیز ” کے ساتھ جب زیادتی ہوئیں۔ تو آسٹریلیا کے پرائم منسٹر نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہم معافی مانگتے ہیں اجتماعی زیادتیوں کے۔ بچوں اور بچیوں کے ساتھ۔ آپ لوگوں کے بزرگوں کے ساتھ ہم نے کیا ہے۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں معافیاں مانگیں۔ آصف زرداری صاحب نے کہا۔ پتہ نہیں گیلانی صاحب نے۔ یہ نہیں۔ میں تو سمجھتا ہوں پاکستان کی پارلیمنٹ کو قرارداد پاس کرنی چاہیے کہ وہ ایک ایسا قد آور شخص تھا۔ جس نے پاکستان کیلئے اس کی خدمات تھیں۔ جمہوریت کیلئے خدمات تھیں۔ اْس کے ساتھ جو آخری وقتوں میں زیادتی ہوئی۔ میں آپکو ایک قصہ سناتا ہوں۔ پھر مختصر کر کے ختم کرتا ہوں۔ 1898 ء میں بلوچ خان نوشیروانی اور محراب خان گچکی انگریزوں کے خلاف جب وہ یہاں کچھ اپنا ٹیلیگراف لائن بچھا رہے تھے دوسری چیزیں۔ تو انہوں نے ان کے خلاف جدو جہد کی۔ دو چار چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں۔ ایک بڑی لڑائی ہوئی ” گوگ پروش ” کے علاقے میں۔ وہ کیچ اور تربت سے نزدیک ہے۔ شاید جانتے ہونگے کیچ کے علاقے تربت کے اگر ہمارے colleague بیٹھے ہیں۔ وہاں جب محراب خان گچکی اور بلوچ خان نوشیر وانگریزوں کے ساتھ اْنکی مد بھیڑ ہوئیں۔ کوئی ایک سو ساٹھ کے قریب بلوچ اْس میں شہید ہوئے۔ تو شہادت کے بعد بلوچ خان نوشیروانی کے اْنہوں نے ( انگریز ) نے کہا کہ ایسا بہادر دشمن ہم نے نہیں دیکھا ہے۔ ہم اْسکا احترام کرتے ہیں۔ کہاں اْنہوں نے وصیت کی تھی کہ کہاں اْن کو دفنایا جائے۔ اْنکی آباؤ اجداد کی جگہ کونسی ہے۔ جانتے تھے وہ نواب تھے بادشاہ تھے۔ انہوں نے جناب والا! بڑے احترام کے ساتھ۔ بڑے ہی اسلامی رسم و رواج کے ساتھ ساری سہولیات فراہم کیں۔ ہزاروں کی تعداد میں بلوچ خان نوشیروانی کا 1898 ء کی بات کر رہا ہوں۔ اْنہوں نے وہا ں اْس کو مدفون کیا۔ محراب خان احمد زئی کا نومبر 1839ء کا واقع لے لیں۔ انگریزوں کے ساتھ لڑتے ہوئے قلات میں شہید ہوئے۔ جنگیں اور لڑائیاں ہوتیں ہیں۔ گھروں میں ہوتی ہے۔ قبائلی ہوتی ہے۔ سیاسی ہوتی ہے۔ ریاست میں دوستوں کے درمیان ، بھائیوں کے درمیان لیکن کم از کم اصلاح و احوال کیلئے میں آج بھی انکو بتادینا چاہتا ہوں خدا کے لیئے اگر کسی کے ساتھ دوستی اور دشمنی۔ رفیقی اور رقابت دونوں اگر مول لیتے ہو تو اْس میں تھوڑی بہت انسانیت۔ تھوڑی بہت احترام انسانیت، احترام اسلام ، اخلاقیات، قدرے، اقدار۔ انکو مد نظر رکھنا چاہیے۔ سردار جیند خان خلیل خان گمشادزئی کی لڑائی جنرل ڈاہر کے ساتھ ہوئی۔ جو جنرل ڈاہر بڑا مشہور تھا سیندک کے مقام پر۔ میں آپکوسینکڑوں ایسی تاریخیں بتاؤ نگا۔ ہم نے انگریزوں کے خلاف جناب والا! ایک سو چھیاسٹھ چھوٹی بڑی جنگیں لڑیں۔ اس خطے میں پشتونوں نے لڑیں۔ اس خطے کی ساری قوموں نے انگریزوں کے خلاف لڑیں۔ انگریز یہاں سے گیا وہ جناب والا ! ہمارے آباؤ اجداد کی اْس سرخ خون کی بدولت ہے جسکی خوشبو آج بھی بلوچستان میں اور پاکستان میں ہر طرف مہک رہی ہے۔ یہ انگریز بابا اتنے بڑے بڑے توپوں کے مالک۔ پوری آدھی دنیا پر سورج غروب نہیں ہوتا تھا اْسکی empire میں۔ کہ جناب والا! یہ علاقہ چھوڑ کر گیا ہے۔ کوئی تعویز اور دم سے نہیں گیا ہے۔ یہ کچھ بھوت اور جادوٹونہ سے نہیں گیا ہے۔ یہ طاقت ے گیا ہے جناب والا!۔ اس کو اتحاد سے، اتفاق سے لوگوں کی قربانیوں سے۔ آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ اکبر خان بگٹی کو خراج عقیدات پیش کرنے کیلئے سب سے بہتریں ذریعہ اسلام آباد سے جو غلطیاں ہوئیں ہیں۔ اسلام آباد بلوچستان کو خدا را تین چیزیں بڑی important ہیں۔ ابھی بھی بلوچستان میں معاملات کو بہتری کی طرف لے جایا جا سکتا ہے۔ بلوچستان کے Political Issues کو resolve Politicallyکریں۔ بلوچستان میں پولیٹکل انجینئرنگ۔ سیاست میں مداخلت۔ کھیلوں میں لیڈرا گانے کا سلسلہ۔ الیکشن میں مداخلت۔ یہ ساری چیزیں اْس وقت سے آج بلوچستان کو سب سے زیادہ بڑی تباہی کی طرف یہی لے جا رہے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ بلوچستان کا اکانومک ایشو۔ بلوچستان کا معاشی ایجنڈا ابھی تک حل نہیں ہوا۔ بلوچستان میں ستاسی فیصد لوگ ابھی بھی غربت کا شکار ہیں۔ میں کل ایک webinar میں تھا۔ یو اینڈ ڈی پی کے ایڈوائیزری کونسل کا ممبر ہوں پاکستان کے حوالے سے۔ سب سے بڑی رپورٹ اور مستندر پورٹ اْسکی آتی ہے۔ میں نے اْس کے لیے لکھا۔ ابھی جب کل میں اسکے ڈاکٹر حفیظ پاشا صاحب اور ہم سب Webinar میں تھے۔ اسلام آباد ہم جا نہیں سکے۔ کل جو اْس نے ڈیٹا بلوچستان کے حوالے سے دکھائے پھر اتنی تکلیف دہ آپ تصور نہیں کر سکتے۔ نوجوانوں کے حوالے سے۔ بے روزگاری کے حوالے سے۔ بچوں کی نیوٹریشن کے حوالے سے تعلیم کے حوالے سے۔ بلوچستان کے GDO گروتھ اور اکنامک ڈویلپمنٹ کے حوالے سے۔ بلوچستان میں سڑکوں کی صورتحال کے حوالے سے۔ بلوچستان میں جو ہے صنعت کاری وغیرہ رکھنے کے حوالے سے۔ یہ کیا ہے جناب والا ! stagnation economic ہے؟ معاشی جمود ہے۔ اگر کوئی بلوچستان کے ساتھ اچھائی کرنا چاہتا ہے تو جناب والا! شروعات ڈیرہ بگٹی سے کریں۔ میں اس قراردو کے ساتھ ساتھ میں کہتا ہوں نواب محمد اکبر خان institute نواب اکبر خان یونیورسٹی آف سائنس اور ریسرچ بنائیں۔ اگر اسحاق خان صدر پاکستان کے نام سے بن سکتا ہے، نواب اکبر خان یو نیورسٹی آف سائنس اینڈ منجمنٹ سے اکبرخان یونی بنائیں۔ آرٹ اینڈ کلچر بنائیں۔ آج اْن کو خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ڈیرہ بگٹی میں بلوچستان کے سارے پیسے لے جائیں وہاں دودھ اور شہد کی نہریں بنائیں ہمیں اعتراض نہیں ہوگا تا کہ کم از کم وہاں کے کچھ لوگوں کے دلوں میں ابھی تک تکلیف و درد ہے تو اْس کا ازالہ کیا جا سکے۔ کم از کم یہ تصویریں نہیں آنی چاہئیں کہ گرمیوں میں 43 یا 44 ڈگری میں جو ہیں ایک جو نپڑی کے نیچے ہمارے بچے اور بچیاں بیٹھ کے سکول پڑھ رہے ہیں ابھی تک ڈیرہ بگٹی میں۔ خاران میں آتا ہے تو آنے دو چلو یہاں گیس نہیں ہے۔ واشک ویسے ہی در پدر ہے۔ پورے بلوچستان کو تو آپ لوگوں نے در پدر ہی سمجھا ہوا ہے۔ لیکن کم از کم جس کی بدولت میں حلفیہ کہتا ہوں بلوچستان کے ہر ایک شخص کے خون میں اْس کے جسم میں بلوچستان کے سوئی گیس کا پیسہ اس کا وسیلہ کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ بلوچستان پیدا ہی کیا کرتا ہے ؟ بلوچستان آج وہاں کے لوگ سب سے زیادہ لاغر بدن ہیں۔ اسپیشل فنڈ بنایا جائے۔ اسپیشل اْن کو incentives دیئے جائیں۔ جو علاقیں بلوچستان میں دس یا پندرہ سال کے بد حالی مسائل ، مشکلات، جنگ کی طرف سے سیاسی بدامنی کی وجہ سے خراب ہوئے ہیں جناب والا! ہم پولیٹیکل لیڈرشپ ہیں بلوچستان کو استحکام کی جانب لیجانے کیلئے ہمیں اپنے گہرے جو علاقہ ہیں ، gray areas ہمارے جو deeply region ہیں سب سے پسماندہ علاقے ہیں اْن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تا کہ کم از کم اکبر خان بگٹی کا۔ آج ذوالفقار علی بھٹو اور اْس کے شہداء کے بڑے بڑے مزار بنے ہوئے ہیں اکبر خان بگٹی اگر کسی مزار کے حق میں نہیں تھے تو کم از کم انکے مزار کے پاس بڑی سی میوزیم بنائی جائے۔ اْس کی تاریخ پڑھا ہے، اْس کے اچھے پہلو بھی ہیں اگر کسی کو سر کار چاہتا ہے اْس کے اختلاف رائے ہیں وہ اختلاف رائے والا پہلو بھی میوزیم میں کسی ایک جگہ پر لگا لیں۔ لیکن تاریخ کو مسخ نہ کریں۔ تاریخ کو مسخ کرنے سے تو میں نہیں بنتیں۔ تاریخ کو سمجھنے