Bugti Dossierمیگا پروجیکٹس

اس وقت بلو چستان سمیت چھوٹے صوبے جن مسائل اور پاکستان جن سیاسی معاشی اور آئینی بحران کا شکار ہے اس کی بنیادی وجہ فیڈ ریشن کی غیر منطقی اور غیر متوازن ہیئت ہے جب تک فیڈ ریشن اور اکائیوں کے درمیان ایک ایسا جامع دیر پا اور عوام کی خواہشات سے ہم آہنگ معاہدہ نہیں ہو جاتا اس وقت تک بحران نہ صرف جاری رہیں گے بلکہ بحران پر بحران آئیگا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائیگا ماضی میں جن قوموں نے عمرانی معاہدے کئے اور ان معاہدوں کو آئین کی صورت میں مرتب کر کے اس پر ایمانداری کے ساتھ عمل درآمد کیا انہوں نے بے مثال ترقی کی۔ عہد حاضر میں کئی ممالک کی مثال دی جا سکتی میں ہے جن میں انگلستان امریکہ فرانس اور سوئٹرز لینڈ کی مثالیں سامنے ہیں امریکہ متعدد ریاستوں کا فیڈ ریشن ہے اس کی ریاستیں مکمل مالی اختیارات رکھتی ہیں جس کا یہ نتیجہ ہے کہ کیلی فورنیا کی ریاست دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے اور اس نے بڑے ممالک میں اپنے سفارتی مشن بھی کھول رکھے ہیں برطانیہ کے دارالحکومت لندن میں خود امریکہ کے سفارت خانہ سے بڑا کیلی فورنیا کا سفارتی مشن ہے برطانیہ دنیا کی شاندار جمہوریت ہے لیکن لیبر پارٹی نے ٹونی بلیئر کی قیادت میں اسکاٹ لینڈ ویلیز اور شمالی آئر لینڈ کی جدا اسمبلیاں قائم کیں تا کہ ان علاقوں کو ریاست کی شکل دی جائے لہذا دنیا کے اہم خطوں کے سیاسی آئینی اور معاشی تناظر میں یہ امر ضروری ہے کہ پاکستان کی قیادت یا تو ایک نیا آئین مرتب کرے یا 1973 ء کے آئین میں ایسی ترامیم کی جائیں کہ صوبوں کے سیاسی انتظامی اور مالی اختیارات میں اس حد تک اضافہ ہو کہ ان کے عوام مطمئن ہو سکیں کیونکہ 1973 ء کا آئین مخصوص حالات میں خاص طور پر ملک کے دولخت کے بعد بنایا گیا تھا اور چھوٹے صوبوں کے اراکین پار پارلیمنٹ نے تحفظات کے ساتھ اے قبول کیا تھا بد قسمتی سے اس آئین کو خو اس کے خالق نے تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ اس کے نفاذ کے ساتھ ہی اس میں متعدد ترامیم کی گئیں جس سے اس کا حلیہ بگڑ گیا ایک اور حقیقت یہ ہے کہ اس آئین پر بھی کمل طور پر عملدرآمد نہیں کیا گیا مثال کے طور پراس میں کنکرنٹ لسٹ شامل کی گئی اور وعدہ کیاگیا کہ یہ اختیارات 10 سال بعد صوبوں کو منتقل کئے جائیں گے لیکن 1977 ء میں مارشل لاء￿ کے نفاذ کی وجہ سے آئین معطل ہو گیا 1985 ء میں یہ آئین 8 ویں ترمیم کے ساتھ بحال کیا گیا جس میں مزید اختیارات مرکز کو دے دیئے گئے حتیٰ کہ پارلیمنٹ کی تحلیل کا اختیار بھی فرد واحد کو سونپ دیا گیا 1985ء سے 1999ء تک کنٹرول حکومتوں نے کنکرنٹ لسٹ کو صوبوں کو منتقل نہیں کیا جبکہ 1999 ء میں ایک بار پھر سے 1973 ء کا آئین معطل کیا گیا بار بار معطلی کے عمل کے بعد یہ آئین اپنی وقعت کھو چکا ہے ویسے بھی یہ ایک فیڈ ریشن اور اس کے یونٹوں کی ضروریات اور خواہشات سے ہم آہنگ نہیں ہے نہ صرف یہ بلکہ ملک میں جو سیاسی اور آئینی بحران پیدا ہوئے 1973 ء کے آئین میں انہیں حل کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے چنانچہ اس وقت فیڈ ریشن اور صوبوں کے مابین جو نا چاقی کشیدگی یا تنازعہ ہے اس کی بنیادی وجہ یہ فیڈریشن کی غیر منطقی اور غیر متوازن ہیئت ہے اس لئے پاکستان کا استحکام تنازعات کا مستقل حل اور عوام کی خوشحالی اس میں ہے کہ 1973ء کے آئین میں دی گئی خود مختاری میں اضافہ کیا جائے اس مقصد کیلئے وفاقی حکومت اکثریتی صوبہ پنجاب کے اراکین پارلیمنٹ کو قائل کرے کہ ایسی صورت میں جبکہ ایک وفاقی یونٹ کی آبادی باتی 3 یونٹوں کی کل آبادی سے زیادہ ہے اور وسائل کی تقسیم کی بنیاد بھی آبادی کو قرار دیا گیاہے تو چھوٹے یونٹ نہ تو اپنے آپ کو محفوظ تصور کرتے ہیں اور نہ ہی مطمئن ہو سکتے ہیں لہذا 1973 ء کے آئین میں ترمیم کر کے بعض اختیارات کی صوبوں کو منتقلی بے حد ضروری ہے اس سلسلے میں جے ڈبلیو پی نے ایک بل بنا کر سینٹ میں پہلے ہی پیش کر دیا ہے اس سلسلے میں حکومت اسے اسٹینڈنگ کمیٹی کے سپرد کرے اور اپنے آئینی ماہرین کو ہدایت کرے کہ وہ مذکورہ بل کا جائزہ لیں اگر اس میں مزید ردو بدل مقصود ہو تو بے شک تجاویز مرتب کی جائیں اور اتفاق رائے سے اسے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے اور اس کی منظوری دی جائے اگر صوبائی خود مختاری کا مسئلہ حل کیا جائے تو بلوچستان سمیت دیگر تمام صوبوں کے مسائل مشکلات اور وفاق سے تنازعات خود بخود حل ہو جائیں گے تاہم اس ضمن میں پیش رفت نہ ہونے یا مشکلات حائل ہونے کی وجہ سے درج ذیل تجاویز عارضی طور پر پیش کی جارہی ہیں ۔
گوادر پورٹ جو کہ موجودہ آئین کے تحت فیڈرل سبجیکٹ ہے اوروفاقی حکومت اس پورٹ کی وجہ سے ایک وسیع ساحلی پٹی کو مختلف وفاقی اداروں کے نام پر جیسے کہ پورٹ اتھارٹی کنٹینر ٹرمینل ٹرانسپورٹ ٹرمینل ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کسٹمز ایف آئی اے کوسٹ گارڈ وغیرہ کے نام پر اپنی تحویل میں لے رہی ہے اہل بلوچستان کیلئے بے حد تشویش اور اضطراب کی بات ہے وفاقی حکومت لاکھ کہے اور ہزار یقین دہانیاں کروائے لیکن آبادی کے انفلیکس کو روکا نہیں جا سکتا چونکہ وفاقی حکومت کے بیشتر ملازمین کا تعلق پنجاب سے ہو گا اس لئے ساحلی پٹی پر گوادر سمیت دیگر قصبوں کے بلوچ اقلیت میں چلے جائیں گے یہی وجہ ہے کہ آبادی کا ایک حصہ خاص طور پر نو جوان شدت پسندی کی طرف مائل ہو رہے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ساحل چلا گیا تو بلوچستان کی اہمیت باقی نہیں رہے گی کیونکہ بلوچستان کی کل آبادی 65 لاکھ ہے اور آئندہ 25 برسوں میں ساحل پر اتنی آبادی آسانی کے ساتھ بس جائے گی جس سے ڈیموگرافک تبدیلی واقع ہو جائے گی اس تناظر میں میگا پرو جیٹس کو ایک ایسے منصوبہ کی نظرسے دیکھاجارہاہے جس کا مقصد آبادی کے تو ازن کوبگاڑ کر نہ صرف بلوچوں کو اقلیت میںتبدیل کرنا ہے کہ ان کے تشخص کو ہمیشہ کیلئے کرنا ہے لہذا یہ معاملہ بلوچ قوم کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے اس سلسلے میں خدشات یہ ہیں کہ جس طرح ترکی نے آبادی کو بسایا بلوچستان میں بھی پاکستان کی حکومت بالکل ویسا ہی کر رہی یہ ہے ایک اور مثال وسط ایشیائی ریاستوں کی ہے جہاں لینن اسٹالن خروشیف اور برژنف نے لاکھوں روسی آباد کئے تا کہ مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہو جائے اس سلسلے میں قازقستان از بکستان ، آذربائیجان ، چیچنیا اور داغستان کی مثال دی جا سکتی ہے روس کو آج بھی فائدہ ہے کیونکہ روس نے ریاستوں کو آزادی دینے کے باوجود اپنی آبادی کا بوجھ ان پر ڈال دیا ہے اس صورت میں گوادر پورٹ کی تعمیر یا اسے آپریٹ کرنے کی اجازت دینا خودکشی کے مترادف ہے خدشہ ہے کہ پنجاب اپنی کم زمین کم وسائل کے باعث اپنی آبادی کا ایک بڑا حصہ بلوچستان میں آباد کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے اس سلسلے میں ایوب خان اور بھٹو کے دور میں بھی کوششیں ہوئیں خاص طور پر پٹ فیڈر کے علاقے میں آباد کار لائے گئے لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہو سکی ماضی کی غلطیوں کو پیش نظر رکھ کر ایک نیا منصوبہ سونے کے غلاف میں رکھ کر اس طرح پیش کیا گیا نام بلوچستان کا اور کام پنجاب کا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جس طرح یورپی آباد کاروں نے امریکہ میں ریڈ انڈین کو اپنی زمین سے بے دخل کیا تھا پنجاب کے حکمران اسی عمل کو بلوچستان میں دہرانا چاہتے ہیں چونکہ یہ 21 ویں صدی ہے اس لئے لوگ باشعور ہیں اور وہ تا مرگ مزاحمت کیلئے تیار ہیں اگر وفاق نے بلوچ قوم کو اپنی تاریخی سرزمین سے بے دخل کرنے کی کوشش کی تو اسے ایک بڑی مزاحمت کا سامنا کرنا ہے پڑے گا اور اس مزاحمت کو خاموشی سے کچلنا مشکل ہے کیونکہ یہ میڈیا کا دور ہے اور کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی ہے لہذا میگا پروجیکٹس کی اجازت صرف اس صورت میں ی جا سکتی ہے کہ حکومت پاکستان یہ ’’ساورن گارنٹی‘‘ فراہم کرے کہ پورٹ کی 70 فیصد ملازمتیں بطور حق صرف مقامی لوگوں کیلئے مختص ہونگی ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ پورٹ کو اسپیشل اسٹینس دے کر اسے حکومت بلوچستان کی نگرانی میں دیا جائے اس سلسلے میں کشمیر کی مثال سامنے ہے ہندوستان کے آئین میں اسے خصوصی حیثیت حاصل ہے اور پاکستان میں بھی کشمیری عوام کو ملازمتوں ، میڈیکل اور انجینئر نگ کی تعلیم کیلئے خصوصی اسٹیٹس حاصل ہے لہذا ایسا قابل عمل فارمولہ وضع رکھا جائے کہ اس پورٹ کوآپریٹ کرنا ممکن ہو ہمیں یہ گارنٹی بھی چاہئے کہ پورٹ اتھارٹی کا سربراہ کسی اہل لوچستانی کو مقرر کیا جائے اور یہ طے کیا جائے کہ آئندہ 25 برس تک بلوچستان سے ہی اس کے سر براہ مقرر کئے جائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ حکومت کیلئے یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے ملک کے اشندوں کو یا ایک صوبے کے لوگوں کو دوسرے صوبوں میں کام اور رہائش کی اجازت نہ ے اگر یہ ممکن نہیں تو گوادر فری زون میں سرمایہ کاری کرنے والے تمام غیر ملکیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ یواے ای کی طرح مقامی لوگوں سے 49 فیصد اور 51 فیصد ارٹنر شپ کریں اور اس سلسلے میں با قاعدہ قانون سازی کی جائے اور پارٹنر شپ کے بغیرغیر ملکیوں کو کاروبار کے لائسنس جاری نہ کئے جائیں۔
ایک مطالبہ یہ ہے کہ پاکستان کے دیگر صوبوں سے کاروبار یا یا رہائش کیلئے آنے والوں کو 10 برس تک لوکل ٹیفکیٹ، پی آر سرٹیفکیٹ جاری نہ کئے جائیں اور دوٹرز لسٹ میں بھی ان کے ناموں کا اندراج نہ کیا جائے اس خدشہ کی بنیاد یہ ہے کہ ہزاروں لوگ جب دوٹرز لسٹ میں اپنے ناموں کا اندراج کریں تو آنے والے الیکشن میں غیر مقامی منتخب ہو کر آئیں گے اور مقامی لوگ نمائندگی کے حق سے محروم ہو جائیں گے۔
گو اور ماسٹر پلان جو کہ پوشیدہ ہے حکومت کے خطرناک عزائم کا منہ بولتا ثبوت ہے اس پلان کے مطابق ایئر پورٹ سے لے کر کوہ باتل تک گوادر کی موجودہ 50 ہزار آبادی کو باہر منتقل کیا جائے گا اس سلسلے میں حکومتی ادارے پر اسرار خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں کیونکہ پورٹ کے ارد گرد تمام زمینیں مکانات مارکیٹیں اور دکانیں حکومت کو درکار ہیں ہمارا مطالبہ ہے کہ اس زمین کو لیز یا کرایہ پر حاصل کیا جائے تا کہ مقامی لوگو ںکاحق مالکانہ برقرار ہے اگر حکومت مخلص ہے تو اس شرط کو ضرور پورا کرے گی جو کہ مشکل نہیں ہے ہمارے خدشات کو اس وجہ سے تقویت ملتی ہے کہ ساحلی پٹی پر قبضہ کا جو منصوبہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1976 ء میں بنایا تھا اسے والا فوقتا جاری رکھا گیا اسی لئے ایک سازش کے تحت گوادر ضلع کی ڈیڑھ لاکھ ایکٹر قیمتی کی زمین کو حکومت بلوچستان کی ملکیت سے نکال کر اسے مختلف افراد کے نام منتقل کیا گیا کہ تا کہ اس زمین کے حصول کے بعد یہ کہا جا سکے کہ یہ تو مالکان نے اپنی مرضی سے فروخت کی ہے اس سلسلے میں فلسطین پر قبضہ کیلئے یہودیوں نے جو طریقہ کار اختیار کیا پنجاب نے بالکل اس کی نقل کی جس کا ثبوت یہ ہے کہ گوادر اور اطراف کی 25 ہزار ایکٹر فیصل آباد، لاہور اور راولپنڈی کے لینڈ مافیا نے خریدی جو مہنگے داموں فروخت کی جارہی ہے اس کے علاوہ مافیا نے رہائشی اسکیموں کے نام پر غیر مقامیوں کی آباد کاری گوا کا ایک باقاعدہ اور منظم منصوبہ شروع کر رکھا ہے لہذا اہل بلوچستان کا یہ مطالبہ ہے کہ دو ضر سرکاری رہائشی اسکیموں سنگھار ہاؤسنگ اور نیوٹاؤن کے سوا تمام پرائیویٹ اسکیموں پر پابندی عائد کی جائے اس کے ساتھ ہی محکمہ بندوبست کے اہل کاروں قاضی ،سول جج اور انتظامیہ نے ملی بھگت کر کے نا قابل کاشت اراضی کو ریاست کی ملکیت سے نکال کر من پسند افراد کی ملکیت قرار دیا ہے جو غیر قانونی ہے جبکہ لینڈ ریونیو مینوئل کے مطابق یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ کوئی بھی زمیندار اپنی زرعی زمین کو کسی غیر مقامی شخص کو اس وقت تک فروخت نہیں کر سکتا تا وقتیکہ اس کے حق شفع کے دعویدار ڈسٹرکٹ کلکٹر کی منظوری سے اس زمین کو فروخت کرنے کی اجازت نہ دے گوادر اور سوئی کی زمینوں کے سلسلے میں اس لازمی اور قانونی شرط کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
چھائونیاں
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مرکز نے بلوچستان کو کبھی فیڈ ریشن کی اکائی کے طور پر تسلیم نہیں کیا بلکہ ہمیشہ اسے ایک کالونی یا محکوم علاقہ سمجھا یہی وجہ ہے کہ یہاں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران غیر محسوس طریقے سے چھاؤنیوں کا جال بچھایا گیا پہلے کوئٹہ کی چھاؤنی کی افرادی قوت میں اضافہ کیا گیا حتیٰ کہ اب یہ پاکستان کا سب سے بڑا کور بن گیا ہے کوئٹہ کے علاوہ سبی ، خضدار اور ژوب میں با قاعدہ چھاؤنیاں بنائی گئیں اور ماڑہ میں قدیم اور تاریخی شہر کو خالی کر کے پاکستان کا سب سے بڑا اور ایشیاء کا دوسرا بڑا نیول بیس بنایا گیا جسے جناح کے نام سے منسوب کیا گیا حالانکہ اور ماڑہ ہندوستان ، ایران اور خلیجی ممالک سے کافی فاصلے پر ہے اب کو ہلو ، سوئی اور گوادر میں نئی چھاؤنیوں کی تعمیر کا منصوبہ آخری مرحلے میں ہے جبکہ پسنی میں نیوی کی ضرورت کیلئے جہاز سازی کی خاطر ایک شپ یارڈ کا منصوبہ زیر غور ہے جو کراچی شپ یارڈ کی جگہ لے گا ان تمام فوجی منصوبوں کے دو پہلو ہیں یعنی پنجاب کی آبادی کو کہیں چھاؤنیوں کے نام پر کہیں نام نہاد ترقی کے نام پر بلوچستان کے طول و عرض میں بسایا جائے دوئم یہ کہ اگر بلوچستان کے عوام اپنے سیاسی و تاریخی قتل پر مزاحمت کی کوشش کریں تو قوت کے بل بوتے پر اسے کچل دیا جائے چونکہ پناجب کو بلوچستان کے وسیع قدرتی وسائل کی اشد ضرورت ہے س لئے اس نے ایسے مقامات پر نئی چھئانیوں کی تعمیر کا منصوبہ بنایا ہے جہاں پر یہ وسائل بڑے پیمانے پر موجود ہیںمثال کے طور پر مری ایریا میں تیل اور یورینیم کے وسیع ذخائر دریافت ہوئے ہیں اس لئے کو ہلو میں چھاؤنی تعمیر کی جارہی ہے اسی طرح بگٹی ضلع میں 1953 سے مختلف مقامات سے گیس نکالی جارہی ہے۔ لیکن اسکی آمدنی سے بلوچستان محروم ہے حکومت یہ جان بوجھ کر پرو پیگنڈہ کر رہی ہے کہ بگٹی علاقے میں گیس کے ذخارختم ہورہے ہیں نئے سروے کے مطابق گیس کے مزید ذخائر موجود ہیں سوئی میں چھائونی کے قیام کا مقصد مقامی لوگوں کو طاقت کے ذریعے زیر کرنا ہے تاکہ وہ اپنے حقوق طلب نہ کر سکیں اور مرکز کی لوٹ مار پر احتجاج نہ کریں سوئی میں زبردستی ایک وسیع علاقہ میں چھائونی کیلئے زمین حاصل کی گئی ہے ۔
اور ماڑہ نیول بیس کی موجودگی کے باوجود گوادر میں ایک نئی چھاؤنی کے قیام کا مقصد پورٹ پر قبضہ اور پنجابی آباد کاروں کو تحفظ فراہم کرنا ہے نہ صرف یہ بلکہ گوادر سے 40 میل دور جیونی کے پر فضا مقام پر بھی ایک اور چھاؤنی کی تعمیر زیر غور ہے اس طرح کوسٹل ہائی وے کے ساتھ ساتھ لیاری سے لے کر جیونی تک بلوچستان کی پوری ساحلی پٹی پر قبضہ جمانا اور مقامی آبادی کو بے دخل کرنا ہے سرزمین بلوچستا ن کا قیمتی حصہ اس کا ساحل ہے جس کے ایک حصے پر پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں کی جانشین قوم پنجاب قبضہ کرنا ہے چونکہ پنجاب میں قدرتی وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے بلوچستان کو وہ کیلی فورنیا کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جہاں یورپی آبادکاروں نے انڈین قبائل کو بے دخل کر کے بڑے پیمانے پر آباد کاری کی تھی ایک اندازہ کے مطابق بلوچستان کے سمندر سے ہر سال 3 ارب ڈالر کی مچھلی اور جھینگے نکالے جاسکتے ہیں جو پاکستان کی کل برآمدات کا ایک تہائی حصہ ہے اس وقت غیر ملکی ٹرالروں کو وفاقی حکومت لائسنس جاری کر رہی ہے جو ایک سے دو ارب ڈالر کی پیداوار حاصل کر رہے ہیں اس آمدنی سے بلوچستان کو ایک آنہ بھی نہیں مل رہا ہے چنانچہ حکمرانوں کے خیال میں ساحلی پٹی سونے کی چڑیا ہے جس کی معتدل آب و ہوا سمندری وسائل راستے اور عالمی مارکیٹوں سے قریب ہونے کی وجہ سے اسے اپنے قبضہ میں لینا ضروری ہے تا کہ سینٹرل پنجاب کے سوداگر اسے اپنے صوبہ کی خوشحالی کیلئے استعمال کر سکیں۔
1980ء کی دہائی میں سابق مارشل لاء ایڈ منسٹریٹو ضیاء الحق نے ایک خفیہ منصوبہ تیار کیا تھا جسے مکران ’’ڈاکٹرائن‘‘ کا نام دیا گیا تھا اس پلان کا مقصد ساحلی پٹی کو ایک صوبہ یا وفاق کا زیر انتظام علاقہ قرار دینا تھا اس مقصد کیلئے مکر ان سے تعلق رکھنے والے دو سرکاری سینیٹروں نوابزادہ شے عمر گچکی اور ڈاکٹر اسحاق بلوچ کے ذریعے یہ تجویز پیش کروائی گئی تھی کہ ساحلی علاقوں پر مشتمل نیا صوبہ بنایا جائے تبدیل شدہ وقت اور تقاضوں کے مطابق اس منصوبے پر ایک نئے اور سائنسی انداز میں عمل درآمد کیا جا رہا ہے اس منصوبہ کے جہاں مقامی پہلو ہیں وہاں اس کے انٹر نیشنل پہلو بھی ہیں اس وقت امریکہ جزیرہ نمائے عرب اور افغانستان میں موجود ہے ان دونوں خطوں کے درمیان بلوچستان حائل ہے اور اس خطہ کا سب سے اسٹرٹیجک مقام ہے چنانچہ عالمی مقاصد کیلئے بھی سرزمین بلوچستان اور اس کا سمندر درکار ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ افغانستان پر حملہ کے وقت پسنی ، گوادر ، سونمیانی شمشی اور جیک آباد کے ہوائی اڈے استعمال کئے گئے اس کے عوض وفاق نے سینکڑوں ملین ڈالر وصول کئے لیکن بلوچستان کی حکومت کو نہ تو اصل صورتحال سے آگاہ کیا گیا اور نہ ہی اس آمدن میں سے بلوچستان کو حصہ دیا گیا مستقبل میں بڑی طاقتیں اس خطے میں اپنے مقاصد کے حصول کیلئے مزید کارروائیاں کریں گی تو انہیں بلوچستان کی زیادہ ضرورت پڑے گی لینڈا کو بلوسے لے کر گوادر تک چھاؤنیوں کی تعمیر ، ایف سی کے قلعوں کا قیام اور کوسٹ کے گارڈ کی حالت میں اضافہ مسائل پر لوٹ مار کو برقرار رکھنے کے علاوہ اس ہونے کی چڑیا میں اٹھنے والی ہر آواز کو دباتا ہے اگر وفاق واقعی بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو وہ متذکرہ بالا چھاؤنیوں کے قیام کا منصوبہ ترک کر دے۔
بات چیت کی زبان یا طاقت کی زبان
حکومت کی جانب سے مذاکرات کیلئے پیرا میٹر مقرر کرنا عجیب بات ہے کیونکہ آزادی کا پیا پیمانہ ضرور ہوتا ہے غلامی کا کوئی پیمانہ نہیں ہوتا اگر چہ حکومت نے باضابطہ طور پر بات چیت کیلئے کوئی دائرہ کار مقر نہیں کیا ہے لیکن گورنر بلوچستان نے اپنی پریس کانفرنس میں درج ذیل پیچ امیر پیش کیا ہے ؟
(1بات چیتWith in Pkaistan ہو گی ۔
(2 قوم پرست لیڈرہ اخلی سیکورٹی کی ضمانت دیں۔
(3 بلوچستان میں جاری نام نہاد میگا منصوبوں پر کام جاری رہے گا ان کی بندش کامطالبہ قابل قبول نہیں۔
معلوم نہیں کہ اسلام آباد کے منصوبہ ساز اور ان کے گماشتہ بلوچستانی حکمران اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ جو لوگ حقوق کی بات کرتے ہیں وہ غدار ہیں اگر وہ یہ سمجھتے تو یہ شرط کبھی نہ رکھتے کہ مذاکرات پاکستان کے دائرہ کار کے اندر ہوں گے جب اہل بلوچستان فیڈ ریشن کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہی ہے کہ وہ اس فیڈ ریشن کو قبول کرنے پر آمادہ ہیں بشرطیکہ اسے حقیقی معنوں میں فیڈ ریشن بنایا جائے فیڈ ریشن کا مطلب ہے کہ اس کے تمام یونٹوں کو برابر حیثیت حاصل ہوگی اور کسی یونٹ کی دوسرے پر بالادستی نہیں ہوگی ایک حقیقی فیڈریشن کے قیام سے ہی یہ بات ممکن ہے کہ پاکستان قوموں کی برادری میں ہمیشہ قائم رہے اگر فیڈریشن برائے نام ہو اور پورے ملک پر ایک یونٹ کا غلبہ ہو جبکہ کمزور یونٹوں کو سبجیکٹ کی حیثیت دی جائے تو یہ ممکن نہیں کہ کمزور یونٹ اس بالادستی سے نجات کیلئے تگ و دو نہ کریں جب وہ تگ و دو کریں گے تو ظاہر ہے کہ مرکز کو استحکام حاصل نہیں ہوگا اور ملک کی سلامتی اور استحکام کی ضمانت نہیں دی جا سکتی ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ملک کو حقیقی فیڈریشن بنایا جائے اور یونٹوں کو خود مختار بنا کر ان سے کہہ دیا جائے کہ وہ اپنے وسائل کے مالک خود ہیں اس کا ہر یونٹ اپنے وسائل پر اکتفا کرے تو مرکزی حکمران جن پر پنجاب کا غلبہ ہے اس جائز تجویز کو ملک دشمنی سے تعبیر کرتے ہیں حالانکہ جو لوگ اکائیوں کو اپنی کالونی سمجھ کر اس ملک میں سامراجی نظام قائم کرنا چاہتے ہیں دراصل ملک کے دشمن وہی ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ اس صورت میں یہ ملک مستحکم نہیں ہو گا اور اسی طرح کے حادثے کا شکار ہو جائے گا جو 1971ء میں ہوا 1971ء میں پنجابی حکمرانوں نے اپنے ملک کا نصف حصہ دشمن کے حوالے کرنا قبول کیا لیکن اقتدار اپنے عوام کے حوالے کرنا قبول نہیں کیا اس سے یہ خدشہ بھی موجود ہے کہ حکمران آئندہ بھی ایسا ہی کریں گے چنانچہ اس سے واضح ہو چکا ہے کہ جو لوگ اپنے آئینی سیاسی اور بنیادی حقوق طلب کر رہے ہیں وہ محب وطن ہیں اور جو لوگ ملک کی سلامتی کی قیمت پر یہ حقوق دینے سے انکاری ہیں وہی غیر محب وطن ہیں یا وہ اس ملک کے نادان دوست ہیں جو پاگل ماں باپ کی طرح سے چوم چوم کر مارنے پر عمل پیرا ہیں لہذا اس ملک کو جو بھی نقصان پہنچا اس کے ذمہ داران بالادست پنجابی حکمران ہوں گے اس تناظر میں پاکستان کو تسلیم کرنے کی شرط پر مذاکرات پر آمادگی حکومت کی اپنی غلطی ہے کیونکہ حکومت ایک نان ایشو کو خطرناک ٔایشو میں تبدیل کر رہی ہے۔
جہاں تک اس شرط کا تعلق ہے کہ بلوچستان کے سیاسی رہنماء سیکورٹی کی ضمانت دیں گے یعنی گیس سمیت جو تنصیبات ہیں ان کے تحفظ کی گارنٹی فراہم کی جائے عجیب بات ہے کہ حکمران حقوق دینے پر بھی آمادہ نہیں اور وہ احتجاج کا حق بھی چھیننا چاہتے ہیں یہ تو معلوم نہیں کہ گوادر سے سوئی تک جو کچھ ہو رہا ہے اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں لیکن یہ امر طے ہے کہ جب تک بلوچستان کے بنیادی آئینی حقوق اور اس سرزمین پر اس کے مقامی باشندوں کے حق ملکیت وسائل کی بطور ان کی میراث تسلیم نہیں کیا جا تا احتجاج کو نہیں روکا جا سکتا اگر حکومت گارنٹی طلب کرتی ہے تو وہ خودان غصب شدہ حقوق واگزار کرنے کیلئے کیا گارنٹی دیتی ہے؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے جو مذاکرات کی صورت میں ہر بلوچ کے ذہن میں پیدا ہو گا اس سلسلے میں حکومت کو واضح پالیسی اختیار کرنا ہوگی محض جھوٹے دعوؤں اور الفاظ کی جادوگری پر کوئی یقین کرنے پر آمادہ نہیں جہاں تک نام نہاد میگا پروجیکٹس پر کام جاری رکھنے کی شرط کا تعلق ہے تو یہ من مانی ہے کیونکہ ان پر کام جاری ہے اور لاکھوں لوگوں کو بسانے کے منصوبوں پر کام کی رفتار تیز کر دی گئی ہے حکومت اور اس کے گماشتے لاکھ کہیں کہ ان منصوبوں کا مقصد بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنا نہیں لیکن حقیقت میں ان منصوبوں کا مقصد یہی ہے تا کہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری یہ نہ صرف ایک قومی جرم ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین میں بھی Ethnic Cleansing کو تہذیب انسانی کے خلاف سنگین جرم قرار دیا گیا ہے اہل بلوچستان کے نزدیک میگا پروجیکٹس ترقی کے نام پر ایک ایسا خطرناک عمل ہے جس کا مقصد بلوچ قوم کو تین لاکھ 50 ہزار کلو میٹر پر مشتمل اپنی مادر وطن سے بے دخل کرنا ہے 19 ویں صدی میں امپیریل طاقت انگریز نے ڈیرہ غازی خان کے وسیع و عریض علاقے کو بلوچستان سے جدا کر کے پنجاب میں شامل کر دیا اور اسی دوران ڈیڑھ لاکھ مربع میل کلو میٹر پر مشتمل جنوبی بلوچستان کو کاٹ کر پرشیا ( آج کا ایران ) میں شامل کر دیا اگر چہ انگریزوں نے بلوچستان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا لیکن انہوں نے بلوچستان کا نام اور بلوچوں کے قومی تشخص کو منانے کی کوشش نہیں کی جبکہ انگریزوں کے جانشین بلوچستان پر قبضہ کر کے بلوچ قومی تشخص کو ختم کرنا چاہتے ہیں یہ ایک دیدہ دانستہ عمل ہے جس کا مقصد موجودہ صدی یک پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ لا کر بلوچستان میں آباد کرتا ہے تا کہ پنجاب اور کراچی پر آبادی کا دباؤ کم کیا جاسکے اور پنجاب کی کروڑوں کی آبادی کیلئے بلوچستان کے وسائل کو لوٹ کر استعمال میں لایا جا سکے یہ امر طے ہے کہ پنجاب نئے وسائل کے بغیر اپنی کروڑوں کی آبادی کا موجودہ معیار زندگی برقرار نہیں رکھ سکتا اس حقیقت کے پیش نظر بلوچستان کے عوام جن خطرات کا شکار ہیں وہ سچے دل کے ساتھ نام نہاد میگا پروجیکٹس کو موثر ضمانتوں کے بغیر قبول نہیں کر سکتے اگر حکومت ملک سے مخلص ہے تو درج بالا تجاویز کو قبول کرے جو تحفظات کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں یعنی اگر حکومت وقتی طور پر ان تحفظات کو قبول کر
کے بعد میں منکر ہو جائے تو بلوچستان کے عوام یہ حق محفوظ رکھتے ہیں کہ وہ اپنا پراناموقف بحال کر دیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں