تربت کی زبوں حالی اور عوام کی بے چارگی

تحریر: شہزاد بدل
بلوچستان کا دوسرا سب سے بڑا شہر تربت آج ایک ایسے المیے کا شکار ہے جس نے نہ صرف شہر کی معیشت کو تباہ کر دیا ہے، بلکہ عوام کی زندگیوں کو بھی اجیرن بنا دیا ہے. بیروزگاری، غربت، عدم تحفظ اور حکومتی لاپرواہی نے تربت کو ایک ایسے دلدل میں دھکیل دیا ہے جہاں سے نکلنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے، شہر کا واحد ذریعہ معاش عبدوئی بارڈر ہے، جسے تین ماہ سے بند کیے جانے کے بعد اس شہر کی رگوں میں دوڑنے والے معاشی خون کو روک دیا ہے اور تربت کے لوگ بھوک، مایوسی اور مجبوری کے اندھیرے میں دھکیل دیے گئے ہیں۔
اس بات کا سب کو علم ہے کہ تربت کی معیشت کا دارومدار عبدوئی بارڈر پر ہے، جو ایران کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں کا اہم مرکز ہے لیکن جب سے یہ بارڈر بند ہوا ہے، ہزاروں خاندان بے روزگار ہو چکے ہیں، ڈرائیور، چھوٹے بڑے تاجر، مزدور، ہوٹل والے، ٹرانسپورٹرز اور دکاندار سب کے سب معاشی تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں، غریب گھرانوں کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول ایک جنگ بن چکا ہے، کئی لوگ ایسے ہیں جنہوں نے بھوک اور مجبوری کے ہاتھوں خودکشی تک کر لی ہے۔
تربت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ یہاں کا ہر دوسرا فرد بارڈر سے وابستہ کاروبار یا روزگار پر انحصار کرتا تھا، سب کی زندگیاں اس بارڈر کے کھلنے بند ہونے پر منحصر ہیں، اب جبکہ یہ واحد ذریعہ معاش بند ہے، لوگوں کے پاس کوئی راستہ نہیں بچا، کئی گھرانوں میں فاقے شروع ہو گئے ہیں، یہ صورتحال کسی المیے سے کم نہیں، لیکن حکومت کی طرف سے کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر نہیں آتے۔
عدم تحفظ نے تربت کے حالات کو اور بھی سنگین بنا دیا ہے، رات کی تاریکی میں گھروں پر ڈاکے، چوریاں اور قتل عام ہو رہے ہیں، بندوق کے زور پر لوگوں کو یرغمال بنا لیا جاتا ہے، ان کا سارا سامان / مال لوٹ لیا جاتا ہے اور کئی بار تو جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں. پولیس اور انتظامیہ کی خاموشی اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ یا تو وہ مجرموں کے ساتھ ملی ہوئی ہے، یا پھر وہ اس قدر کمزور ہے کہ ان جرائم کو روکنے کی سکت ہی نہیں رکھتی، عوام اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، ہر شام ان کے لیے ایک نیا خوف لے کر آتی ہے۔
ملک ناز نامی خاتون کا قتل اب بھی تربت کے لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے، جب 5 مئی 2020ءمیں رات کے اندھیرے میں بے گناہ عورت کو قتل کر دیا گیا تھا اور اس کے گھر سے قیمتی زیورات لوٹ لیے گئے تھے۔ چھوٹی بچی کو گولی مار کر زخمی کر دیا گیا تھا۔ آج تربت کے حالات اسی طرف جا رہے ہیں اگر فوری طور پر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو یہ شہر ایک اور المیے کی طرف بڑھ سکتا ہے، عوام کی چیخیں اور فریادیں کسی کے کانوں تک نہیں پہنچ رہیں، حکومت کی بے حسی نے تربت کے لوگوں کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔
حکومت کی اولین ذمہ داری عوام کو تحفظ اور روزگار فراہم کرنا ہے لیکن تربت کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے، وہ کسی بھی طور پر قابل قبول نہیں، بارڈر کی بندش نے نہ صرف معیشت کو تباہ کیا ہے، بلکہ سماجی عدم استحکام کو بھی جنم دیا ہے جب لوگوں کے پاس کمانے کا کوئی ذریعہ نہیں ہوگا، تو وہ مجرمانہ سرگرمیوں کی طرف مائل ہوں گے، کیا حکومت تربت کو جرائم کا گڑھ بنتا دیکھنا چاہتی ہے؟ کیا یہاں کے لوگ پاکستانی نہیں ہیں؟ کیا ان کے بنیادی حقوق محض اس لیے نظرانداز کیے جا سکتے ہیں کہ وہ دارالحکومت سے دور ہیں؟
تربت کے عوام کو فوری اقدامات کی ضرورت ہے، عبدوئی بارڈر کو کھولا جائے، یا پھر متبادل روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مضبوط کیا جائے تاکہ عوام کو تحفظ مل سکے، تربت میں صنعتی زون قائم کیا جائے تاکہ نوجوانوں کو روزگار مل سکے، تربت کے غریب عوام کے لیے ریلیف پیکجز دیے جائیں تاکہ وہ بھوک سے بچ سکیں، اگر ان بنیادی اقدامات پر توجہ نہیں دی گئی تو تربت کے حالات مزید خراب ہوں گے۔
تربت کے لوگ صبر کے آخری حد تک پہنچ چکے ہیں،ان کی آواز کو سننا اور ان کے مسائل کو حل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے اگر فوری طور پر اقدامات نہ اٹھائے گئے، تو یہ شہر مزید خون اور آنسوو¿ں کی نذر ہو جائے گا۔ تربت کو نظرانداز کرنے کے بجائے اس کے مسائل حل کیے جائیں، ورنہ تاریخ اس بے حسی کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔ تربت کے عوام کے ساتھ انصاف ہونا چاہیے اور انہیں وہ حقوق ملنے چاہئیں جو ہر پاکستانی شہری کا حق ہیں۔
تربت میں معاشی اور امن و امان کے بحران کے ساتھ ساتھ تعلیم اور صحت کے شعبے بھی تباہی کے دہانے پر ہیں، سرکاری اسکولوں میں بنیادی سہولیات کی شدید کمی ہے، جبکہ بیشتر اسکولوں میں فرنیچر، پینے کے صاف پانی اور بجلی جیسی بنیادی ضروریات تک میسر نہیں۔ نتیجتاً نوجوان نسل تعلیم سے محروم ہو رہی ہے جو مستقبل میں ان کے لیے مزید مشکلات کا باعث بنے گی۔ اسی طرح، سرکاری اسپتالوں میں ادویات، ڈاکٹرز اور جدید آلات کی عدم دستیابی عوام کے لیے علاج معالجے کو ناممکن بنا رہی ہے۔ بیمار افراد کو سیکڑوں کلومیٹر دور کوئٹہ یا کراچی جانا پڑتا ہے، جہاں غربت کی وجہ سے اکثر لوگ علاج کا خرچ برداشت نہیں کرپاتے۔ اگر حکومت نے فوری طور پر ان شعبوں میں اصلاحات نہ کیں تو تربت کی نئی نسل ناخواندگی اور بیماریوں کے شکنجے میں جکڑی رہ جائے گی۔
دوسری جانب تربت کے نوجوانوں کے پاس نہ روزگار کے مواقع ہیں، نہ تعلیم کی صحیح سہولیات، اور نہ ہی کوئی مثبت سرگرمیاں۔ اس مایوس کن صورتحال نے نوجوانوں کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ غیرقانونی طریقوں سے ایران یا یورپ کی طرف ہجرت کریں۔ ہزاروں نوجوان اسمگلروں کے ہاتھوں لٹ چکے ہیں، کئی راستے میں ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور جو کامیاب ہو جاتے ہیں، انہیں بھی اغیار کے ہاں ذلت اور محنت مشقت کی زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف تربت بلکہ پورے بلوچستان کے لیے ایک بڑا سماجی اور معاشی چیلنج ہے۔ مزید اگر نوجوانوں کو تعلیم، روزگار اور ترقی کے مواقع فراہم نہ کیے گئے، تو یہ نسل مزید غیرقانونی سرگرمیوں یا انتہا پسندی کی طرف مائل ہوسکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ نوجوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کے لیے ہنر مندی کی تربیت، کوچنگ سینٹرز اور اسپورٹس کے مواقع فراہم کرے تاکہ وہ ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں