بلوچستان میں روزگار کے ذرائع اور درپیش چیلنجز

تحریر: سخی کریم
بلوچستان پاکستان کا سب سے بڑا مگر پسماندہ صوبہ ہے جہاں قدرتی وسائل کی فراوانی کے باوجود عوام کی ایک بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ یہاں کے باسیوں کے روزگار کی وابستگی صدیوں پرانا انحصار دو بنیادی ذرائع پر ہے، جن میں بارڈر سے منسلک تجارت اور دوسرا ذرائع ماہی گیری ہے ،تاہم موجودہ حالات میں یہ دونوں شعبے شدید مشکلات کا شکار ہیں، جس سے ہزاروں خاندانوں کا معاشی مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے،بارڈر ٹریڈ روایتی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،بلوچستان کے سرحدی علاقے، خاص طور پر ایران اور افغانستان سے متصل مقامات، طویل عرصے سے تجارت کا مرکز رہے ہیں۔ بارڈر سے منسلک کاروبار نہ صرف ایک کلیدی معاشی سرگرمی ہے بلکہ ہزاروں افراد کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی ہے۔ چاہے وہ گاڑیوں کے مالکان ہوں، ہوٹل والے، چائے فروش، یا سادہ سا پنکچر لگانے والا مزدور، سبھی اس معیشت کا حصہ ہیں۔ لیکن حالیہ برسوں میں سیکورٹی وجوہات یا دیگر حکومتی پالیسیوں کے تحت بارڈر کی بندش نے ان لوگوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ روزگار کے دروازے بند ہو رہے ہیں اور متبادل مواقع نہ ہونے کے سبب غربت میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف ماہی گیر سمندر کی بے رحم موجوں سے جنگ کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتے ہیں،بلوچستان کا ساحلی علاقہ، خاص طور پر گوادر، پسنی اور اورماڑہ جیسے مقامات، ماہی گیری کا گڑھ رہے ہیں، جو ماہیگیری کی مد میں سالانہ قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا فائدہ پہنچاتے ہیں ، یہاں ہزاروں ماہی گیر روزانہ اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر سمندر کی لہروں سے مچھلیاں پکڑتے ہیں تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکیں۔ لیکن بدقسمتی سے اب یہ شعبہ بھی "ٹرالر مافیا” کی نذر ہو چکا ہے۔ غیر قانونی گجہ ٹرالرز جو مہلک جالوں سے لیس ہیں، اکثر غیر قانونی طور پر بارہ ناٹیکل میل عبور کرکے مقامی ماہی گیروں کے روزگار پر قدغن لگانے ساحل میں داخل ہوتے ہیں، مچھلیوں کی نسل کشی کے ساتھ مقامی ماہی گیروں کو براہ راست نقصان پہنچاتے ہیں، جن کی روزی روٹی خطرے میں پڑ چکی ہے،حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بلوچستان کے عوام کے محرومیوں کا ازالہ کرے اور میکنزم بنا کر ان کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرے تاکہ بلوچستان کے عوام کی محرومیوں میں مزید اضافہ نہ ہو، اس کے لیے حکومت کو فوری اقدامات کرنے ہوں گے۔ سب سے پہلے، سمندری حدود میں ٹرالر مافیا کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور مقامی ماہی گیروں کو تحفظ دیا جائے۔ انہیں جدید آلات، سبسڈی اور مناسب مارکیٹ تک رسائی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنا پیشہ جاری رکھ سکیں۔ دوسری جانب، بارڈر سے منسلک کاروبار کو مکمل بند کرنے کی بجائے اسے منظم اور قانونی دائرے میں لایا جائے۔ اگر قومی مفاد میں بندش ضروری بھی ہو، تو متاثرہ افراد کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔ فنی تربیت، چھوٹے کاروبار کے لیے قرضے، اور مقامی صنعتوں کے قیام جیسے اقدامات سے حالات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، بلوچستان کے عوام کو روزگار کے ان محدود ذرائع سے بھی محروم کرنا نہ صرف معاشی ناانصافی ہے بلکہ اس سے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا۔ اگر حکومت واقعی قومی یکجہتی کی خواہاں ہے تو بلوچستان کے عوام کے معاشی تحفظ کو ترجیح دینا ہوگا ، بارڈر اور سمندر ، دونوں بلوچستان کے باسیوں کی زندگیوں سے جڑے ہوئے ہیں ، ان کا تحفظ دراصل پاکستان کے مستقبل کا تحفظ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں