ترقی کے سائے میں پیاسا گوادر
تحریر: سخی کریم
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری (CPEC) اور گوادر پورٹ کی بدولت گوادر کو عالمی سطح پر ایک اہم خطہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایک طرف اسے عالمی منصوبوں کا مرکز مانا جاتا ہے جہاں سی پیک جیسے میگا پراجیکٹس کی بنیاد رکھی گئی، اور دنیا بھر کی نظریں یہاں کے ممکنہ معاشی انقلاب پر مرکوز ہیں۔ لیکن دوسری طرف گوادر کے باسی آج بھی اپنے بنیادی انسانی حقوق، خاص طور پر پانی اور بجلی، کے لیے سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتے ہیں۔
یہ المیہ صرف وسائل کی قلت کا نہیں، بلکہ اجتماعی بے حسی کا عکاس ہے۔ وہی گوادر جسے دنیا کی ابھرتی ہوئی بندرگاہ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، وہاں کے بچے، جوان اور بوڑھے ”پانی دو، بجلی دو“ کے نعرے لگاتے ہوئے اپنی زندگی کے دن گزار رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں گوادر کے شہریوں کے احتجاج میں شریک کچھ بچوں کی تصاویر اور وڈیوز منظر عام پر آئیں، جنہوں نے ہر حساس دل کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایک معصوم بچہ، جس کی آنکھوں میں لاشعوری مسکراہٹ ہے، سڑک پر روڈ بلاک کرتے ہوئے بیٹھا ہے۔ شاید اسے لگتا ہے کہ یہ سب ایک کھیل ہے، لیکن دراصل وہ گوادر کے ان زخموں کی نمائندگی کر رہا ہے جو برسوں سے رستے چلے آ رہے ہیں۔
اسے نہیں معلوم کہ ”پانی“ کیا ہوتا ہے، کیونکہ اس کے نلکوں سے صرف ہوا نکلتی ہے۔ اسے یہ بھی اندازہ نہیں کہ بجلی کتنی قیمتی چیز ہے، کیونکہ اس کی گرمیوں کی دوپہریں اندھیرے میں کٹتی ہیں۔ شاید جب یہ بچہ بڑا ہوگا تو یہی کہانیاں اپنی اولاد کو سنائے گا، کہ وہ کیسے بچپن میں احتجاج کا حصہ بنا، اور کیسے اس کے بزرگ نسل در نسل وہی مطالبات دہراتے رہے۔
گوادر جو کوہ باریک کے دامن میں واقع ایک قدیم ماہی گیر بستی ہے، آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ شہر کے نگہبان کی طرح خاموش کھڑے کوہِ باتیل کی خامشی گواہ ہے کہ دہائیوں سے یہی نعرے گونج رہے ہیں:
”پانی دو، بجلی دو!“
یہ نعرے اب صرف احتجاجی جملے نہیں، بلکہ گوادر کی ثقافت، روزمرہ کی زندگی، ادب، نغموں اور خوابوں کا حصہ بن چکے ہیں۔
کئی نسلیں ان نعروں کے سائے میں جوان ہو چکی ہیں، اور ان کے خواب بھی اسی گرد میں دفن ہو گئے ہیں۔ افسوس کہ حکومتی سطح پر اربوں روپے کے منصوبے گوادر میں نافذ کیے جا رہے ہیں، ترقی کی خبریں اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی ہیں، مگر گوادر کے عام شہری کے لیے یہ ترقی صرف تصویروں اور خبروں تک محدود ہے۔
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ: ”ہمارے نام پر ترقی ہو رہی ہے، لیکن ہمیں کچھ نہیں مل رہا۔“
انفرا اسٹرکچر تعمیر ہورہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری آرہی ہے، مگر پانی کی ایک بالٹی یا پنکھے کی ٹھنڈی ہوا آج بھی گوادر کے باسیوں کے مقدر سے باہر ہے۔
امید اور مزاحمت کا یہ سلسلہ ماضی سے لے کر آج تک جاری ہے، اور گوادر کے عوام مایوس نہیں ہوئے۔ انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ خاموشی سے حق نہیں ملتا۔ ماﺅں کے آنسو، بچوں کے نعرے، بزرگوں کی دعائیں اور نوجوانوں کی جدوجہد اس امید کا اظہار ہیں کہ شاید ایک دن گوادر کے بچے واقعی صرف کھیلیں گے، احتجاج نہیں کریں گے۔ شاید کوہِ باتیل ایک دن خاموش ہو جائے، کیونکہ اب کوئی نعرہ بلند نہ ہو کیونکہ مطالبات پورے ہوچکے ہوں۔
لیکن جب تک ایسا نہیں ہوتا، تب تک یہ صدا:
”پانی دو، بجلی دو!“
ہماری سماعتوں میں گونجتی رہے گی، ہماری بے حسی کو للکارتی رہے گی، اور شاید آنے والی کئی نسلیں انہی سڑکوں پر بیٹھ کر اپنے حق کا مطالبہ کرتی رہیں گی۔


