بلوچستان کی جیلیں اصلاحی مراکز کے بجائے نفسیاتی مریض پیدا کر رہی ہیں

تحریر: شاکر منظور
بلوچستان کے جیل خانہ جات وہ مقام بن چکے ہیں جہاں انسان کا جسم ہی نہیں بلکہ اس کا ذہن، احساس اور خودی بھی قید کر دی جاتی ہے۔ یہ جیلیں اصلاح، تربیت اور بحالی کے مراکز بننے کے بجائے ذہنی اذیت، ناانصافی، کرپشن اور استحصال کے گڑھ بن چکی ہیں۔ قیدی جسمانی طور پر دیواروں کے اندر قید ہیں، لیکن ان کی اصل قید ذہن کے اندر ہے، ایک ایسی قید جو انسان کو خاموش، بے حس اور اندر سے ٹوٹا ہوا بنا دیتی ہے۔ نفسیاتی بیماری اس کیفیت کو کہا جاتا ہے جس میں انسان کے خیالات، احساسات اور رویے غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔ بلوچستان کی جیلوں میں قیدیوں کی بڑی تعداد افسردگی، اضطراب، تشویش، (mood disorder) اور ڈپریشن کے شکار ہے۔ کئی قیدی شدید نفسیاتی دباو¿ میں psychological breakdown کا سامنا کرتے ہیں۔ بلوچستان کے جیل خانہ جات کے حوالے سے یہ بات حیرت انگیز ہے کہ آج بھی ان کا نظام برطانوی دور کے پرانے قوانین کے تحت چل رہا ہے، وہی اصول جو British Prisons Act of 1894 کے تحت قائم کیے گئے تھے۔ اس ایک صدی سے زیادہ پرانے قانون میں قیدیوں کے لیے کھانے کی مقدار و معیار، صفائی کے انتظامات، بیرکوں میں قیدیوں کی تعداد، اور روزمرہ نظم و ضبط کے اصول طے کیے گئے تھے۔المیہ یہ ہے کہ بلوچستان میں آج تک نہ تو ان جیلوں کے ڈھانچے (infrastructure) میں کوئی بنیادی تبدیلی کی گئی ہے، نہ بلوچستان اسمبلی سے کوئی نئی قانون سازی ہوئی ہے، اور نہ ہی انتظامی پالیسیوں میں کوئی بہتری آئی ہے۔ خوراک، صحت، اور تربیتی نظام میں بھی کوئی اصلاح عمل میں نہیں لائی گئی۔ نتیجتاً قیدی نہ صرف اپنے انسانی حقوق سے محروم ہیں بلکہ شدید نفسیاتی اذیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ جب جیلوں کو آج بھی نوآبادیاتی دور کے سو سال پرانے اصولوں کے تحت چلایا جائے، تو قیدیوں کا ذہنی طور پر بیمار ہونا ایک فطری عمل ہے۔ فرانسیسی فلسفی میشل ف±کو (Michel Foucault) کے مطابق، جیل محض ایک دیواروں والا ادارہ نہیں بلکہ طاقت کے نظمِ سماج (disciplinary system of power) کا آلہ ہے۔ جیل میں انسان کو صرف سزا نہیں دی جاتی بلکہ اس کی شخصیت، اس کی سوچ، حتیٰ کہ اس کے احساسِ انسانیت کو بھی کنٹرول کیا جاتا ہے۔ بلوچستان کی جیلوں میں کرپشن ایک منظم نظام کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ اگر قیدی کے پاس پیسہ ہو تو اسے بہتر کھانا، آرام دہ جگہ اور سہولتیں میسر آتی ہیں۔ لیکن غریب قیدیوں کے لیے جیل ایک جہنم بن چکی ہے۔ منشیات فروشی، رشوت، بھتہ خوری اور استحصال عام ہیں۔ جو قیدی رشوت دینے سے انکار کریں، ان پر سختیاں، تشدد اور غیر انسانی مشقت مسلط کی جاتی ہے۔ خواتین قیدیوں کے ساتھ غیر اخلاقی رویے، ناقص خوراک، گندے برتن، اور صفائی کی شدید کمی نے جیل کے نظام کو اخلاقی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ منشیات کے استعمال نے قیدیوں کو ذہنی و جسمانی طور پر تباہ کر دیا ہے۔ استمعال شدہ سرنجوں کے دوبارا استعمال سے ایچ آئی وی (HIV/AIDS) کے کیسز میں خطرناک اضافہ ہو رہا ہے۔ ان حالات نے جیلوں کو اصلاحی اداروں کے بجائے نفسیاتی بیماریوں کے مراکز میں بدل دیا ہے جہاں قیدیوں کے کردار درست ہونے کے بجائے وہ ذہنی مریض یا تربیت یافتہ ڈاکو بن رہے ہیں۔ گڈانی اور مچھ میں قیدیوں کی تعداد زیادہ اور جگہ تنگ، ماہر نفسیات، طبی سہولت اور دوائیاں کی عدم موجودگی اس بحران کو مزید گہرا کر رہی ہے۔ جیلوں کے اندر عورتوں کی بری حال ہے، ان کے لیے نہ باقاعدہ فیمل ڈاکٹرز ہیں، نہ کہ وہ اپنی گائناکالوجکل معاملات مرد اسٹاپ کے ساتھ بیان کرسکتی ہیں، نہ کہ میڈیکل چیک اپ ہے، خاموشی سے درد سہ رہی ہیں۔ اس کے علاوہ فیمل قیدیوں کے لیے نہ بچوں کی مرکز (baby care centre) جہاں انکے معصوم اور بے گناہ بچے صحیح تربیت حاصل کریں۔ عدالتی کارروائیوں میں تاخیر نے قیدیوں کی ذہنی اذیت کو مزید بڑھا دیا ہے۔ بلوچستان کے عدالتوں میں psychosis کے مریضوں سزا دیا جارہا ہے جسکو اپنی سزا کا احساس بھی نہیں ہے جو کہ انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ بعض قیدی اپنی سزا پوری ہونے کے باوجود رہائی سے محروم ہیں، اور ان سے مختلف قسم کے جبری کام لیے جاتے ہیں۔ یہ سب انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہیں۔ بلوچستان کی جیلیں دراصل ہمارے سماجی زوال کا عکس ہیں۔ جب ایک سماج انصاف، احساس اور انسانی وقار کھو دیتا ہے تو اس کے قیدخانے ظلم کے مراکز بن جاتے ہیں۔ قیدیوں کے ساتھ ہونے والا سلوک دراصل اس سماج کے اجتماعی اخلاقی رویہ کی علامت ہے۔ جب جیل اصلاح کے بجائے تشدد کی جگہ بن جائے تو یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ پورا سماج ذہنی اور اخلاقی طور پر بیمار ہو چکا ہے۔ حکومت بلوچستان خاص طور پر وزارت داخلہ، صحت اور آئی جی جیل خانہ جات، بلوچستان کے تمام مرکزی اور ضلعی جیلوں کو اصلاحی و تربیتی مراکز بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ جیلوں میں کھانا، صفائی، بیرکس اور صحت کے سہولیات اور نگرانی کو بہتر بنانے کے لیے نیا قانون سازی کرنا، ماہرِ نفسیات اور تربیتی عملہ تعینات کرنا۔ منشیات، رشوت، اور جسمانی استحصال کے خلاف قانونی کاروائی کرنا، نگرانی کی نظام کے لیے ایک شفاف تحقیقی و تفتیشی کمیشن تشکیل دینا ہے۔ اگر جیل کا فرسودہ نظام کو بہتر نہ کیا، تو یہ جیلیں نفسیاتی مریضوں اور مجرموں کے مزید کارخانے بنتی رہیں گی، اور پورا سماج اخلاقی زوال کی طرف بڑھتا جائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں