پی پی ایل 5 سال بعد معاہدے پر رضامند

اداریہ
یہ اچھی پیش رفت ہے کہ سوئی سے گیس نکالنے کے لئے حکومت بلوچستان اور پی پی ایل کے درمیان مئی2015میں ختم ہونے والا معاہدہ نئی شرائط کے ساتھ وزیراعلیٰ کی منظوری کے بعد نافذالعمل ہو جائے گا۔نئی شرائط کے مطابق پی پی ایل آمدنی کا 40فیصد بلوچستان کو40فیصدوفاق کو ملے گا جبکہ 20فیصد پی پی ایل خود لے گی۔اس کے علاوہ گزشتہ 5سال کے واجب الادا 20ارب روپے بھی مل جائیں گے۔قدرتی وسائل پر پہلا حق اس صوبے کا ہوتا جہاں یہاں یہ وسائل نکلتے ہیں۔لیکن ماضی میں جس اس اصول کو بوجوہ نظر انداز کیا گیاجس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قرون اولیٰ کا قانون نافذالعمل رہا۔بلوچستان پر اس قانون کااطلاق دوسرے صوبوں کی نسبت زیادہ رہا ہے۔سیندک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ کا معاہدہ تاحال صیغہئ راز میں ہے۔بلوچستان حکومت کو یہ بھی معلوم نہیں کہ بلوچستان کی سرزمین سے کاپر کے علاوہ کتنا سونا اور کتنی چاندی سالانہ نکلتی ہے؟اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سیندک پراجیکٹ میں وہ ریفائنری روزِ اول سے آج تک لگائی ہی نہیں گئی جس سے یہ معلوم ہو سکے کہ کاپر کے ساتھ کتنی مقدار میں سونا اور چاندی دوسرے ملک منتقل ہوجاتا ہے۔یہ شکایت قوم پرست رہنما ہر پلیٹ فارم پر کرتے رہے ہیں۔اس کی پاداش میں انہیں قید بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں لیکن ان کو کسی نے اطمینان بخش جواب آج تک نہیں دیا۔اگر سیندک پروجیکٹ سے نکلنے والا سونا اور چاندی کی درست مقدار میں بلوچستان اور پاکستان کو مل جائے تو انہیں کسی غیر ملک کے آگے قرض کے لئے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہ ہوتی۔سونا آج کل ایک لاکھ روپے سے زیادہ میں ایک تولہ ملتا ہے۔واضح رہے کہ سیندک سے ٹنوں سونا نکالا گیا ہے اس کے اعدادوشمار بھی دستیاب نہیں کہ کچھ کہا جا سکے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ اس غلطی سے سبق نہیں سیکھا گیا۔بلکہ ریکوڈک کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ میں اسے دہرایا گیا ہے۔یہاں بھی بلوچستان اور پاکستان دونو ں کو معلوم نہیں ہوسکے گا کہ یہاں سے کتناکاپر کتنا سونا اور کتنی چاندی نکل کر بیرون ملک منتقل کردی گئی؟ اس لئے کہ جس ریفائنری میں یہ تینوں قیمتی اجزاء الگ الگ کئے جاتے ہیں وہ سیندک پراجیکٹ کی طرح ریکوڈک میں بھی نہیں لگائی گئی۔معاہدہ یہی بتاتا ہے کہ چند ڈالروں کی گڈی دیکھ کر دستخط کرنے والوں کی عقل ایک بار پھرماؤف ہو گئی تھی ورنہ دوسری باری یہ غلطی سرزد نہ ہوتی۔اگر ایک (سابق) چیف جسٹس سپریم کورٹ نے جو نسلاً پنجابی مگر ڈومیسائل کی بناء پر بلوچستان ہائی کورٹ سے ترقی پاکر اس عہدہئ جلیلہ پر پہنچے تھے ریکوڈک کی لوٹ مار میں اپنا حصہ وصول کرنے کے لئے وہ سب کچھ نہ کرتے جو آج پاکستان کے لئے درد سر بنا ہوا ہے تو یہ معاہدہ سامنے نہ آتا اور نہ ہی حکومت کو متعلقہ کمپنی سے منت ترلے کرکے معاملات سنبھالنے کی کوشش کرنا پڑتی۔مذکورہ سابق چیف جسٹس پاکستان کا ارب پتی بیٹاایک کھلی کتاب ہے جو چاہے پڑھ سکتا ہے۔بلوچستان کے قیمتی وسائل اونے پونے داموں غیر ملکی کمپنیوں کے سپرد کرنے والوں کی شناخت کے لئے ان کے دستخط کافی ہیں۔ وقت آئے گا یہ بھی بے نقاب ہوں گے۔جیسے بہت سارے چہرے آج اپنے سیاہ کرتوں کی داستان اپنے چہروں پر لئے عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں یا بیرونِ ملک فرار ہوگئے ہیں۔ان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کو کچھ نہیں اسی لئے عدالتوں پر سنگ باری میں مصروف ہیں۔سپریم کورٹ کے درو دیوار پہلے ہی ان کے ہاتھوں بے توقیر ہو چکے ہیں۔یہی فارمولہ دوبارہ آزمایا جارہا ہے۔یہ کم عقل اپنے مفادات میں اتنے گم ہیں کہ انہیں یہ سادا فرق بھی یاد نہیں جوایک برسراقتدار وزیر اعظم اور سابق(بلکہ سزایافتہ مجرم) وزیر اعظم میں ہوتا ہے۔نیز23سال میں پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی بہہ چکاہے،بعض نئی حقیقتیں ابھر آئی ہیں ایف اے ٹی ایف پہلے نہیں تھا اب ہے۔پہلے چوری کا پیسہ یورپی، برطانوی اور امریکی بینکوں کی ضرورت تھا اب نہیں رہا۔پانامہ لیکس کا منظر عام پر آناکسی پاکستانی ایجنسی کا کارنامہ نہیں۔لیکن دنیا کے حکمرانوں کی طرح پاکستان کے حکمرانوں کو بھی اپنے اثاثہ جات کاحساب تو دینا ہوگامنی ٹریل بتانا ہوگی۔وقت کے تیور بتا رہے ہیں کوئی چور نہیں بچے گا، جو بچ گیا وہ انتہائی بد بخت ہوگا ہٹلر کی طرح اس کی قبر کا بھی کسی کو علم نہیں ہوسکے گا۔اس کی اپنی سگی اولاد اس کانام لینے سے شرمائے گی۔یہ وقت زیادہ دور نہیں تیزی سے قریب آرہا ہے۔ پاکستان کے عوام پر مسلط کردہ غربت، بیماری، جہالت اور بیروزگاری سابق حکمرانوں کی ہوس زر کا نتیجہ ہے۔ماضی کے مقابلے میں آج اپنے قدرتی وسائل بچانے کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔نئے معاہدوں کی ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ پڑھنے اور سمجھنے کے لئے دستخط کرنے والوں کوچوکس اور چوکنا رہنا ہوگا۔ موجودہ حکومت میں بھی مافیاز خود یا ان کے بااثر نمائندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان ان کا دفاع کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن وہ خود بھی معترف ہیں کہ ان سے بعض غلطیاں کرائی گئی ہیں۔اس کے معنے یہ ہوئے کہ کچھ غلطیاں نادانستہ بھی ہوئی ہوں گی۔پی پی ایل سے پانچ سال کی تاخیر سے نئی شرائط کے ساتھ ہونے والا یہ معاہدہ حوصلہ افزاء اشارا ہے۔آنے والے دنوں میں یہ معاہدہ دستخط کرنے والوں کے لئے مددگار ثابت ہوگا۔وقت سب سے بڑا استاد ہے۔جو وقت سے بھی نہ سیکھ سکے انہیں سوڈان اور صومالیہ کا حشر سامنے رکھنا چاہیئے۔عالمی سطح پر نئی شرائط خود کو منوانے کے لئے بیتاب ہیں۔قدرتی وسائل آئندہ نسلوں کی ترقی اور خوشحالی کی ضمانت ہیں ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ دانشمندی سے اپنا راستہ بنانے کی کوشش کی جائے۔