گرفتاری میں ناکامی پر بھی پریس کانفرنس
شائد سیاسی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی وزیر اعلیٰ اور صوبے کے آئی جی نے مشترکہ پریس کانفرنس اس مقصد کے لئے بلائی ہو کہ عوام کو بتایا جائے ہماری پولیس سادہ لباس پہنے،سادہ گاڑیوں میں سوار ہوکر جب72گھنٹے قبل لاہور سے براستہ موٹر وے سفر کرنے والی ایک خاتون کے ساتھ زیادتی کرنے والے دو ملزموں میں سے ایک کی رہائش گاہ پہنچی تو وہ گاڑی دیکھتے ہی اپنی بیوی کے ساتھ کھیتوں میں فرار ہو گیا اور ہماری پولیس اس کی کمسن بچی کو گرفتار کرکے اور اس کا نکاح نامہ اٹھا کراپنے ہمراہ تھانے لے آئی ہے۔کسی ملزم کی گرفتاری میں ناکامی کی اطلاع دینے کے لئے پریس کانفرنس طلب اور خطاب کرنے کی یہ عجیب اور انوکھی مثال پاکستان کے بلحاظ آبادی سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے آئی جی پولیس انعام غنی اور دیگر صوبائی وزراء کے ہمراہ 12ستمبرکوقائم کر دی۔اس پر درست تبصرہ مستقبل کا مؤرخ کرے گا۔فی الحال اپوزیشن بالخصوص مسلم لیگ نون کی ترجمان مریم اورنگزیب اس ناکام چھاپے کا سہرا سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے سر باندھ رہی ہے۔ان کا دعوی ٰ ہے کہ اگر وہ ڈی این اے کا تجزیہ کرنے والی جدید لیب تعمیر نہ کرتے تو پولیس ہرگز یہ ناکام چھاپہ نہ مارتی۔عام آدمی حیران ہے کہ قیام پاکستان کے 73 سال بعد وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے لے کر نون لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب تک سیاستدانوں کو کیا ہوگیا ہے؟ انہیں اتنا ہوش بھی نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں؟ اور کیوں کہہ رہے ہیں؟ کیا کسی ملزم کی گرفتاری میں پولیس کی ناکامی اتنا اہم واقعہ تھا کہ عام آدمی کو اطلاع پریس کانفرنس کے بغیرنہیں دی جا سکتی تھی۔جو ہوا قابلِ رشک نہیں، اسے دہرانے سے گریز کیا جانا چاہیئے۔آئندہ کے لئے اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ کوئی وزیر اعلیٰ یا وزیر اعظم ایسی جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرسکیں۔ملزموں کی گرفتاری میں مدد دینے والے کا نام صیغہئ راز میں رکھنے یا انعامی رقم25،25لاکھ روپے مقرر کرنے کا اعلان بھی پریس کانفرنس کا متقاضی نہیں تھا۔ملزموں کی نشاندہی، ان کے جرائم کا ریکارڈ حاصل کرناکوئی بڑا کارنامہ نہیں کہلا سکتا، جس دن عدالتوں میں استغاثہ ان درندہ صفت مجرموں کو سزا دلوانے میں کامیاب ہوگا اس دن سب کو معلوم ہوجائے گا کہ پکڑے جانے والے ملزمان ہی اس واردات کے ذمہ دار تھے۔ اس قسم کی وارداتوں کے خاتمے کے لئے پارلیمنٹ کو خصوصی قوانین منظور کرنا ہوں گے۔جدید ٹیکنالوجی دے حاصل کردہ شواہد(سی سی ٹی وی فوٹیج، موبائل فون پر کی جانے والی گفتگو اور ڈی این اے کی شہادت) کو کافی اور حتمی قرار دیا جائے۔شناختی پریڈ زمانہئ جہالت کی یاد گار ضرورتیں تھیں، ان پر اصرار نہ کیا جائے۔آئی جی پنجاب نے بڑے فخر سے بتا یا ہے کہ ملزم عابد ایک عادی مجرم ہے، اس کا ڈی این اے2013سے پولیس کے پاس موجود ہے۔اس دوران (2013سے2017تک) وہ ڈکیتی اورزیادتی سمیت دیگر جرائم کی سات وارداتیں کر چکا ہے، اس کے خلاف پولیس نے 7پرچے کاٹے ہیں۔آخری بار8 اگست 2020 کو گرفتار ہوا تھامگر چند دنوں بعد ہی ضمانت ہوگئی تھی۔اس کا ساتھی وقارالحسن بھی 14روز قبل ضمانت پر رہا ہوا تھا۔اس حوالے سے یہ سوال بھی اہم ہے کہ عادی مجرموں کی ضمانت چند دنوں میں کیسے ہوجاتی ہے؟پولیس جب تک عدالت کے سامنے یہ نہ کہے کہ ملزم کی ضمانت پر اسے کوئی اعتراض نہیں، عدالت ضمانت پر رہائی کا حکم صادر نہیں کرتی۔پولیس کی مجرموں سے ہمدردی اپنی جگہ معنی خیز ہے۔سیاسی مقدمات میں برسوں ضمانت کی مخالفت کی جاتی ہے، اس کا کیا جواب ہوگا؟یہی کہ پولیس سیاست زدہ ہے اور حکومت کے اشاروں پرچلتی ہے۔اس سے ایک ہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ کرپشن اور لاقانونیت کا زہر پورے معاشرے میں سرایت کر چکا ہے۔تازہ ترین مثال بلوچستان کے ٹریفک سارجنٹ عطاء اللہ کا بھیانک قتل ہے جسے ایک بااثر شخص نے ڈیوٹی انجام دینے کے دوران اپنی تیز رفتار گاڑی کے ذریعے قتل کیا۔ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج موجود ہے، میڈیا پر ہزاروں بار دکھائی جاچکی ہے۔اس کے علاوہ ملزم نے قصاص اور دیت کے قانون کا سہرا لیتے ہوئے مقتول کے لواحقین سے معافی بھی مانگی ہے، کیا یہ”صلح نامہ“ اقرار جرم کے مترادف نہیں؟ معزز عدالت کو ان شواہد کے بعد اور کس قسم کے شواہد مطلوب تھے؟عدالتی فیصلے میں ایسی غلطیوں کی موجودگی عام آدمی کی نگاہ میں پریشان کن ہے۔یاد رہے عدالت عام آدمی کی امیدوں کا آخری مرکز ہے۔سابق جج ارشد ملک کی شرمناک ویڈیو سے بھی کئی سوالات پیدا ہوئے ہیں، ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے سنجیدہ غوروخوض درکار ہے۔اصلاحات کی جانی چاہئیں۔چیف جسٹس پاکستان دیگر حاضر اور ریٹائرڈ فاضل ججز کی مشاورت سے اقدامات تجویز کریں اور ان تجاویز کو مقننہ سے منظور کرائیں تاکہ مستقبل میں ایسے متنازعہ فیصلے سامنے نہ آسکیں۔قانون کی زبان سادہ اور عام فہم ہونی چاہیئے۔ذو معنی الفاظ اور ممکنہ حد تک ابہام سے پاک قانون سازی آج اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔جدید ٹیکنالوجی نے مجرموں کی شناخت بہت آسان بنا دی ہے۔زیادتی کے کیسز میں اکیلا ڈی این اے کافی شہادت مانا جائے۔اور اگر موبائل کا ریکارڈ بھی ارتکاب جرم کی نشاندہی کرے تو یہی دو واقعاتی شہادتیں سزا دینے کے لئے کافی سمجھی جائیں۔جیسے ہی کوئی مجرم دوسری واردات کرے اسے عادی مجرم قرار دے دیا جائے۔اور دونوں مقدمات کی سماعت جلدی سے مکمل کی جائے اور مجرم کو دونوں مقدمات میں زیادہ سے زیادہ سزا دی جائے۔اس ضمن میں قانون سازی کی جائے۔پورے معاشرے کو مجرموں سے پاک کرنے کی ضرورت ہے۔بڑی سرجری درکار ہے۔مقننہ اپنا کردار ادا کرے۔


