تعلیمی نصاب‘اٹھارویں ترمیم اورعمران خان

تحریر:جیئند ساجدی

معروف ماہر تعلیم پولی فریرہ لکھتے ہیں کہ ”تعلیم یا تو آپ کو مکمل پر آزاد بناتا ہے یا تو مکمل طور پر غلام بناتا ہے“ تعلیم کا انسان پر اثر دراصل اس کے معیار پر انحصار کرتا ہے نو آبادیاتی نظام کی تاریخ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ تعلیم کو سامراجی قوتوں نے مفتوحہ علاقے کے عوام کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔نو آبادیاتی نظام اور تعلیم کے معروف دانشور گیل کیلی اور فلیب اسٹابیچ اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ سامراجی طاقتوں کااپنی کالونیوں میں تعلیم لانے کا مقصد اپنی حکومت کو مستحکم کرنا ہوتا ہے اور مفتوحہ علاقے کے مقامی لوگوں کو تعلیم کے ذریعے ذہنی غلام بناناہوتا ہے۔ اپنی طرز کی تعلیم سے بیرونی حکمران مقامی افراد کو یہ باور کرواتے ہیں کہ ان کی ثقافت‘ ان کی زبان اور ان کا سماجی نظام سب جہالت پر مشتمل ہیں۔ان کی تعلیم کا مقصد اپنی زبان‘ ثقافت اور سماجی نظام کو رائج کر کے مقامی ثقافت کی نسل کشی کرنا ہوتا ہے۔ بیرونی تعلیمی نصاب مقامی علاقے کی ثقافتی نسل کشی کے علاوہ مقامی علاقے کی تاریخ کو بھی مسخ کردیتا ہے تاکہ غلام لوگ اپنی تاریخ سے ناواقف رہیں۔ اس خطے میں جب برطانیہ کی حکومت تھی تو انہوں نے بھی اپنا تعلیمی نصاب بنایا جس کا مقصد صرف اور صرف اپنی حکومت کو اس خطے میں مستحکم کرنا تھا۔لارڈ میکالے نے 1835ء میں تعلیمی زبان کے طور پر انگریزی کو رائج کیا اور تعلیم دینے کی ذمہ داری عیسائی مشینری کو سونپی تاکہ وہ اپنے مذہب اور ثقافت کو فروغ دیں۔ لارڈ میکالے جنہوں نے تعلیمی نصاب بنایا تھا وہ خود لکھتے ہیں کہ ”برطانوی نصاب تعلیم سے ہم ہندوستان میں ایسے شہری بنانا چاہتے ہیں جو رنگ و نسل سے تو ہندوستانی ہوں لیکن آداب‘ ثقافت اور سوچ سے برطانوی”ہر سامراجی طاقت کی طرح برطانوی حکومت نے اپنا تعلیمی نصاب رائج کرنے کے بہانے سے مقامی تعلیم اور ثقافت کو حقیر قرار دیا۔ لارڈ میکالے ایک جگہ تحریر کرتے ہیں کہ”سنسکرت کی تمام کتابیں دنیا کی تاریخ پر اتنی روشنی نہیں ڈالتی ہیں جتنی کہ برطانیہ کے پرائمری سکول کی کتابیں ڈالتی ہیں“
قیام پاکستان کے بعد بھی لارڈ میکالے کے طرز کا تعلیمی نصاب رائج رہا۔ ابھی تک کسی سرکاری نوکری کیلئے انگریزی زبان پر عبور لازمی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد بھی تعلیمی نصاب بنانے والے مقامی افراد نہیں تھے بلکہ گنگا اور جمنا یعنی شمالی ہندوستان سے آئے ہوئے پروفیسرز تھے۔ انہوں نے مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں اس طرح کی تاریخ لکھی جس طرح کوئی سامراجی قوتیں لکھتی ہیں۔گنگا اور جمنا والے پروفیسرز کے تعلیمی نصاب میں مقامی علاقوں یعنی سندھ‘ بلوچستان‘ پنجاب اور پختونخواء کی تاریخ اور یہاں کے مقامی لیڈروں نے اس خطے کیلئے جو قربانیاں دی ہیں اس کا ذکرنہیں ملتا۔اور بیرونی حملہ آوروں یعنی غوری‘ غزنوی اور ابدالی کا ذکر باکثرت موجود ہے جن کا اس خطے سے محض ایک حملہ آور اورلٹیرے کا تعلق ہے۔ 1843ء میں سندھ کے میانی کے مقام پر تالپور خاندان اور انگریز فوجوں کے درمیان مقابلہ ہوا اسی وقت ہوشو قمبرانی نامی سپاہی نے ایک جذباتی نعرہ لگایا تھا کہ ”مرسو مرسو سندھ نہ ڈیسو“ برطانوی سامراج کا مقابلہ کرنے والے میر ناصر خان تالپور اورہوشو قمبرانی جیسے مقامی ہیروز کا ذکر مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں نہیں ملتا۔1839ء میں ریاست قلات کے سربراہ خان محراب خان نے بلوچستان کی آزادی برقرار رکھنے کیلئے حملہ آور برطانوی فوج کا محدود وسائل میں بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا تھا لیکن نصاب کی کتابوں میں نہ اس جنگ کا ذکر ہے اور نہ ہی خان محراب خان کی قربانی کا۔ پنجاب کے مقامی ہیرورائے احمد کھرل،دولا بھٹی اور بھگت سنگھ کا بھی کوئی ذکر نہیں۔لہذاگنگا جمنا کے پروفیسرز نے سرکاری سرپرستی میں ایسا نصاب تعلیم لکھا جس کا مقصد یہاں کے مقامی افراد کو اپنے علاقے کی تاریخ، مقامی ہیروز اور اپنی ثقافت سے دور رکھنا تھا۔لہذا انہوں نے نصاب تعلیم سے غلام ذہنیت کو فروغ دیا۔ شمالی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک پروفیسرآئی ایچ قریشی نے اس بیرونی نصاب تعلیم جس میں چند مسلمان خاندان کے حملہ آوروں کی تعریف کی گئی ہے اس کادفاع انہوں نے اپنی کتاب میں ان الفاظ میں کیاکہ ”اللہ نہ کرے کل کو عرب اسلام چھوڑ دیں تو وہ اس کے باوجود عرب تو رہیں گے اگر ترک اسلام چھوڑ دیں تووہ اس کے باوجود ترک تو رہیں گے اگر ایرانی اسلام چھوڑ دیں تو اس کے باوجود ایرانی تو رہیں گے سوال یہ پیدا ہوتا کہ اگر ہم اسلام چھوڑ دیں تو ہم کیا ہونگے“ مقامی ثقافتوں کی نسل کشی کے علاوہ سرکاری نصاب تعلیم کا ایک اورمنفی پہلو یہ تھا کہ پاکستان میں مقیم مذہبی اقلیتوں کو بھی ان کتابوں میں منفی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں یہ لکھا گیا ہے کہ کانگریس ہندوؤں کی جماعت تھی اورہندو مسلمانوں کے دشمن تھے۔برطانوی عیسائی تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کو عیسائی بنانا چاہتے تھے۔اس نصاب کے بارے میں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف پیس اسٹڈیز (PIPS) نے تحقیقی رپورٹ شائع کی ہے جس کے مطابق ملک میں مذہبی انتہاء پسندی کے فروغ میں ان نصاب تعلیم کی کتابوں کا بڑا ہاتھ ہے۔ان کا یہ کہنا تھا کہ ہندو مخالف نصاب تعلیم کے فروغ کا مقصد پاکستانی نیشنلزم کو فروغ دینا تھا لیکن اس سے مذہبی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہوگئیں اور انتہا پسندی کو فروغ ملا۔ حال ہی میں وزیراعظم عمران خان نے اپنی ایک تقریر میں عورت مارچ کے حوالے سے کہا تھا کہ عورت مارچ کی وجہ سے ملک میں نیا کلچر دیکھنے کو ملا جس کی وجہ ایک نصاب تعلیم کا نہ ہونا ہے ایک نصاب تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایک قوم نہیں بن سکے لہذا ہم پورے ملک میں ایک نصاب تعلیم بنا کر ایک قوم بننے کی کوشش کریں گے۔
وزیراعظم کا یہ بیان بہت سے پہلو ؤں سے متنازعہ ہے ایک تو عورت مارچ کو انہوں نے غیر ملکی یعنی مغربی ثقافت قرار دیا حالانکہ ان کے نواز حکومت کے خلاف دھرنوں میں خواتین بڑی تعداد میں شرکت کرتی تھیں۔ دوسرا وہ اپنے ملک میں ” Cultural
Diversity” کے بھی خلاف ہیں اور ایک نصاب تعلیم رائج کر کے مقامی کلچرز کی نسل کشی کرنا چاہتے ہیں۔ تیسرا یہ کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم وفاقی نہیں بلکہ صوبائی محکمہ ہے یہ صوبائی خودمختاری میں مداخلت ہے جو کہ آئین کی روح کے برعکس ہے۔ اس سے ان کی ذہانت کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک تعلیم کے ذریعے نئی سائنسی ایجادات کر رہے ہیں اور موصوف ابھی تک تعلیم کے ذریعے تحقیق اور ایجادات کی بجائے دور قدیم کی سامراجی طاقتوں کی طرح ایک تعلیمی نصاب کے ذریعے پاکستانی قومیت کو فروغ دینا چاہتے ہیں کچھ عرصہ قبل بھی موصوف نے ایک متنازعہ بیان دیا تھا کہ ریکوڈک کے وسائل کو بروئے کار لا کر وہ ملک بھر کا قرضہ چکائیں گے یہ بیان بھی 18ویں ترمیم کے مخالف تھا اس بیان پر سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں پرجوش تقریر کی اور عمران خان کے متنازعہ بیان پر وضاحت مانگی جس پر انہوں نے کوئی وضاحت نہیں دی۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ عمران خان اٹھارویں ترمیم کے خاتمے اور صدارتی نظام کے حامی ہیں بہر حال ان میں لیڈر شپ والی صلاحیتوں کا بڑافقدان ہے ان کو یہ علم ہونا چاہئے کہ قومیں انصاف اور برابری کی بنیاد پر بنتی ہیں نہ کہ ایک نصاب تعلیم سے اور نہ ہی کثیر الاقوامی ریاست میں صدارتی نظام اور مضبوط مرکز سے پاکستانی قومیت مضبوط نہیں ہوسکتیں ہے۔ چونکہ تعلیم اب صوبائی محکمہ ہے لہذا صوبائی حکومت کے نمائندوں کو چاہئے کہ وہ گنگا جمنا والے پروفیسرز کے نصاب تعلیم کی کتابوں میں اصلاحات کریں۔مذہبی اقلیتوں کے بارے میں جو کچھ لکھا گیا اس کو خارج کریں مقامی ثقافتوں اور ہیروز کا ذکر کریں اور تحقیق کے ذریعے اور طلباء کی سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت کو فروغ دینے کی کوشش کریں۔ اس کے علاوہ مطالعہ پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی تضادات ہیں جیسے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کے طلباء کی سیاست کو بہت سراہاگیا ہے اور جنرل ضیاء الحق کے زمانے کی کتابوں میں طلباء سیاست پر پابندی کو جائز قرار دیا گیا تھا اس کو ختم کریں تاکہ تاریخ پاکستان اور موجودہ پاکستان کے نظام کو لے کر طلباء اور عام شہری کسی ابہام کا شکار نہ ہوں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں