کیا منشیات کی روک تھام صرف حکومت کی ذمہ داری ہے۔۔۔۔؟

تحریر:عارف اسماعیل
انسان کی زندگی،صحت،جسم اورطاقت اس کی اپنی ملکیت نہیں بلکہ اللہ پاک کی عطاء کی گئی یہ نعمتیں اس کے پاس امانت ہیں۔امانت میں خیانت توکسی طورپر بھی جائز نہیں۔بنیادی طورپردیکھا جائے توشریعت کے تمام احکامات کا مقصدبھی یہی بتاتا ہے کہ دین کی حفاظت،جان کی حفاظت،نسل کی حفاظت، مال اورعقل کی حفاظت۔اس لحاظ سے غورکیا جائے توعقل وفکرکی حفاظت اسلام کے بنیادی مقاصدمیں شامل ہے۔انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خوبی اخلاق وکردارہے۔ اسلام میں جن کاموں سے شدت اورسختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے ان میں نشہ کااستعمال بھی ہے۔قرآن مجید نے نشہ کوحرام بلکہ ناپاک قراردیا ہے۔
دور حاضر کا سب سے بڑا اور عظیم ترین المیہ منشیات ہے جس نے زندگی کو مفلوک کر دیا ہے۔ نشؤں کے رسیاء اپنی جان کے دشمن اور اپنے رب کے ایسے نا شکر گزار بندے ہوتے ہیں جو اس کی عطا کردہ زندگی کی قدر کرنے کے بجائے اسے برباد کرنے پر تلے رہتے ہیں اور منشیات فروش ملک و ملت کے وہ دشمن جو نوجوان نسلوں کو تباہ کر کے ملک و ملت کی بنیادیں کھو کھلی کر رہے ہیں۔انھوں نے صرف چند سکوں کی خاطر ایسے شگوفوں کو شاخوں سے توڑ کر گندگی کے ڈھیر پر رکھ کر دیا جنہیں کشت حیات میں قاصد بہاربنناتھا۔کتنی اذیت ناک بات ہے کہ سگریٹ،شراب،افیون،ہیروئن اور نشہ آور ادویات کی مخالفت تو سب کرتے ہیں مگر اِن لعنتوں کا سدباب کرنے میں مخلص کوئی بھی نہیں۔ حدیہ ہے کہ سگریٹ قانوناََ جائز ہے اور جابجاد دھڑلے سے فروخت کی جارہی ہے، لیکن اخلاق و قانون کا مذاق اس طرح اڑایاجا رہا ہے کہ سگریٹ کی ڈبیہ پر اس کے مضر اثرات کا اعلان بھی ساتھ ہی چھاپا جاتا ہے۔یہ منافقت ذرائع ابلاغ، حکومت اور اخلاق سدھا راداروں کے منہ پر طمانچے سے کم نہیں۔بلا شبہ ہمارے معاشرے میں منشیات نے اغیار کی سازشوں سے راہ پائی ہے۔لیکن اس سلسلے میں ملک دشمن عناصر کا بھی عمل دخل ہے۔ ان بیرونی اور اندرونی دشمنوں کا مدعا صرف یہ ہے کہ مسلمانوں کو زہنی اور جسمانی طور پر اس قدر کھو کھلا کر دیا جائے کہ وہ دنیا میں اپنا متحرک کردار ادا کرنے کے قابل نہ رہیں۔یہ طاقتیں اہل چین کے ساتھ ہتھکنڈے آزما چکی ہیں اور انہیں سالہا سال افیون کا عادی بنا کرترقی کی دوڑ میں پسماندہ بنانے کی مزموم کوشش کر چکی ہے۔نشہ آور چیزوں کا رسیاء عموماََ نوجوان ہوتے ہیں جنہیں ابھی زندگی کے تجربات نہیں دیکھے ہوئے۔جو اتنا بھی نہیں جانتے زندگی اور موت کے درمیان کتنا کم فاصلہ ہے۔ وہ موت سے قبل اپنے آپ کو زندہ در گور کر لیتے ہیں۔
عام طور پر 18 سے30 سال تک کے نوجوان نشے کے عادی ہیں۔ مگر 10 سے 14 سال تک کے بچے بھی اس عادت کے شکار پائے گئے ہیں۔ہیروئین کا نشہ تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے، کیونکہ اس کی تھوڑی سی مقدار سے زیادہ نشہ حاصل ہوتا ہے۔ اور اسے چھپا کر ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جایا جا سکتا ہے۔ہیروئین کے عادی کا چہرہ زرد ہو جاتا ہے۔ سننے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے
منشیات کی روک تھام کسی ایک فرد ادارے یا حکومت کی ذمہ داری نہیں بلکہ اس مسئلے کو ملکی و قومی سطح پر مشترکہ اندازسے حل کیا جانا چایئے۔ سب سے پہلے ذراع ابلاغ ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات، اور رسائل کو اس لعنت کے خلاف صدق دل سے معرکہ آرا ہونا چاہئے۔تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور ارباب اختیار کڑی نظر سے نوخیز نسل کا جائزہ لیں اور ان کو منشیات سے سختی سے روکیں۔انسداد منشیات کے اداروں اور علاج گاہوں میں نشہ کے عادی افراد کے ساتھ رحمدلی، ہمدردی ،اور محبت کا سلوک کیا جائے۔انہیں یقین دلایا جائے کہ وہ اپنی قوت ارادی اور علاج سے اس عذاب سے چھٹکارا پا سکتے ہیں اور پھر اسے ایک فعالی اور مفید انسان بن سکتے ہیں اور اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ان سب اقدامات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں ایسی دینی اور روحانی فضا کی تشکیل ضروری ہے۔ اس سے اللہ کا خوف اور اسلام اور مذہبی اقدار سے وابستگی پیدا ہوجاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں